جشن غلامی

میرا نام پاکستان ہے مجھے چودہ اگست1947میں گوروں کی غلامی سے آزادی ملی میں خوش تھا مجھ پر جان نچھاور کرنے والے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے مجھے نام اور باسیوں کو شناخت ملی ہرجگہ آزادی کی خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ایک جذبہ،سوچ اور نظریہ پاکستان(اسلام) کے تحت مجھے حاصل کرنے والے روشن مستقبل کے لیئے پر‘ ا’مید تھے لیکن ابتداء ہی میں ہندؤں کی مخاصمت پاکستان کے تعاقب میں تھی اور بڑی وجہ یہی تھی کہ ہندو کانگریس کی سینہ زوری ،بد نیتی اور لاکھ کوششوں کے باوجود مسلمان اپنے لیئے آزاد مسلم ریاست کے قیام میں کامیاب ہوگئے تو مکاروں اور فریبیوں نے پاکستان کو اثاثوں میں کچھ بھی نہ دینے کیلئے مختلف چال بازیاں کیں ، مسلم اکثریتی علاقوں کوہندوستان کے سپرد کر کے ان علاقوں کے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیااس ہجرت میں ہندؤں اور سکھوں نے مہاجرین کے قافلوں پر گھناؤنے ظلم ڈھائے،مسلمانوں کی بستیوں کو جلا دیا گیا،بچوں اور بوڑھوں کو دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا ظالموں اور وحشیوں نے عورتوں نے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا ،برہنہ کرکے بازاروں میں گھمانے کے بعد شرمناک انداز میں قتل کر دیا دل خون کے آنسو رہا تھا کہ دوسری طرف مہاراجہ کشمیر نے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف اس کا الحاق ہندوستان سے کرا دیامجھے دھچکا لگامیری آنکھیں نم تھیں۔ظلم اور بربریت کی انتہا ہوئی لٹے قافلے آئے لیکن میرے بچوں نے ہمدردی ،بھائی چارے،اخوت،ایثار اور قومیت کا سہارا لیکر اپنے گھروں میں جگہ دی یہ وقت تھاجب دفتروں میں کام کرنے کیلئے عملہ کے پاس پھنسل ،قلم اور کاغذ نہیں تھے دشمنوں نے نہروں کا پانی بند کر دیا ایسے سنگین مسائل کا سامنا تھا کہ راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان کوگولی مار کر قتل کر دیا گیااور میرے جسم پر کاری ضرب لگائی جس سے حوصلے ٹوٹ گئے حالات بگڑ گئے جاگیروں،وڈیروں اور نوابوں نے موقع کا فائدہ ا’ٹھا کرمیری باگ ڈور سنبھالی حالات یہ تھے کہ سیاستدان روزانہ اسمبلیوں میں لڑتے،جھگڑتے رہتے،ملک میں سمگلنگ،نمک ،آٹے کی قلت،رشوت،لوٹ مارجیسے مسائل نے جنم لیا تھا ۔مجھے چلانے کیلئے آئین نہیں تھا نا اہل سیاستدانوں کی غفلت کی وجہ سے حالات دن بدن بگڑتے گئے لوٹ مار ہوتی رہی سب تماشا دیکھتے رہے کہ 1958میں ایوب خان مارشل لاء کے ذریعے حکومت میں آئے بنیادی جمہورتیوں کا نظام متعارف کرایا،جلد انتخابات کا وعدہ کیالیکن اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال شروی کر دیا،سیاست دانوں پر پابندیاں لگا دی گئیں اسی دو ر میں مشرقی پاکستان کو جائز حقوق سے محروم رکھا گیالوگ ظلم اور من مانیوں سے تنگ آچکے تھے کہ1965میں بھارت نے چین کے خلاف روس سے لئے گئے اسلحے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے اس غرض سے حملہ کیا کہ میں کشمیر میں مجاہدین کی پشت پناہی کر رہا ہوں قوم ایک جذبہ کے تحت متحد ہوئی اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیکر شکست دی یہ سنبھلنے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا وقت تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ایوب جیت کو اپنا کارنامہ سمجھنے لگے سندھ میں فوجیوں کو پلاٹس دیکر خوب من مانیاں کیں جس سے حالات بے قابو ہو گئے مشرقی پاکستان میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے، حکومت یحی کو سونپی گئی یحی نے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا 1970کے عام انتخابات میں مجیب الرحمان نے اکثریتی ووٹ حاصل کئے لیکن حکومت ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی جس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے مطالبہ نے اور بھی زور پکڑ لیا،وہاں آگ لگی ہوئی تھی،لاقانونیت کا راج تھا،جلاؤ گھیراؤ روزانہ کا معمول تھا قائداعظم کی تصویر کو جلا دیا گیا،سکولوں اور سرکاری اداروں سے پاکستان کے پرچم کو اتار دیا گیا ،مغربی پاکستان سے ہمدردی کرنے والوں پر بھی مظالم کئے گئے، مکتی باہنی اپنی فوج کے خلاف لڑتی رہی اور بھارت ان کا ساتھ دیتا رہا یہ سب اچانک نہیں ہو رہا تھا بلکہ وہ اپنے آپ کو پینسٹھ کی جنگ کے بعد سے غیر محفوظ سمجھ رہے تھے پینسٹھ کی جنگ میں مشرقی پاکستان کی خفاظت کیلئے خدا کی مدد کے سوا کوئی فوج تھی نہ پولیس اسی سلوک کی وجہ سے انہوں نے علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا جس کوبھارت اور بی بی سی نے خوب ہوا دی میں روتا رہا تڑپتا رہا اور دشمنوں نے صوبائیت کو ہوا دیکرمیرے جسم کے بڑے حصے کو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنا دیا اور میرے جسم کے دو ٹکڑے کر دیئے لیکن یہ سب ہماری ہی کرتوتیں اور کارنامے تھے ہم نے مشرقی پاکستان کو بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا تھا خود غرض حکمرانوں نے بنگالیوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا انہوں نے برداشت کیا پر کب تک کرتے ؟بھٹو وزیراعظم بنے تو بڑے کارنامے کئے ملک کو آئین دیا،صحت،تعلیم ،لیبر پالیسی،بیرونی تعلقات سب میں بہتری لائی اور90000 فوجیوں کوبھارت کی قید سے چھڑا لیالیکن روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعرے میں ناکام ہوئے،ڈیفنس سیکیورٹی فورس کی موجودگی سے حالات میں کشیدگی پیدا ہوئی لوگ سڑکوں پر آئے ان پر 1977کے عام انتخابات میں دھاندلی اور نواب احمد خان کے قتل کا الزام لگایا گیاتو ضیاء الحق نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیااور اسلام کے نام پر گیارہ سال اقتدار پر براجمان رہے لیکن کوئی بڑی تبدیلی لائے بغیر 1988کو طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہو گئے یہاں بھی حالات بہتر ہو سکتے تھے لیکن ہمارے نا اہل ،ذاتی مفاد پرستوں،اور لٹیرے سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے انتقال لینے والی سیاست کا راستہ اختیار کیا اور اس آڑ میں ملک کو بھول گئے ہاں لوٹ مار،کرپشن،اقرباپروری اور اختیارات کا ناجائز استعمالہمیشہ یاد رہا۔ محترمہ بینظیر اور میاں نواز شریف کے ادوار آئے حالات زیادہ بہتر نہ ہوئے لیکن نواز کے دوسرے دور میں موٹروے تعمیر کی گئی،ایٹمی دھماکے کئے گئے اور یوں ایٹمی قوت بن گیا لیکن ملک میں آٹے کی قلت پیدا ہوئی،کارگل کا مسئلہ پیدا ہوا اور یوں جنرل پرویز مشرف میدان سیاست میں اترے حالات تھوڑے بہتر ہی ہوئے تھے کہ امریکہ نے افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مجھے بھی شامل کر لیاجس سے میرا سکون تباہ ہو گیا،بھائی بھائی کا دشمن بن گیا،دھماکے ہوئے،خودکش حملے ہوئے،فائرنگ ہوئی اور بد قسمتی یہ کہ مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اوراب مسلم لیگ نوازکی دور حکومت میں بھی فساد جاری ہے۔خودکش حملے ہو رہے ہیں،جنازوں،مسجدوں،درسگاہوں اور ملکی املاک کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، لوگ اغواء ہو رہے ہیں،بیگناہ شہید ہو رہے ہیں،بچے یتیم،عورتیں بیوہ اور بزرگ بے آسرا ہو رہے ہیں،ملک دن بدن تباہی کی طرف جار ہا ہے،معاشی عد م استحکام،بیروزگاری،مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے حکمران مجھ سے بیگانہ ہیں لوگوں کو جینے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے لیکن کسی کو پرواہ تک نہیں کیا یہ وہ اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کو مسلمانان ہند نے منزل بنا کربنانے کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔وہ وقت یاد کیجئے مسلمان اور ہندو اکھٹے رہتے تھے انگزیزوں کا دور حکومت تھا 1857 میں آزادی کیلئے جنگ لڑی گئی لیکن مسلمان اور ہندو اس جنگ میں کامیاب نہ ہوئے مسلمانوں پر یہ عیاں ہو گیا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو مسلمانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ہمدرد ،محسن اور رہنما موجود تھے جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ،سیاسی تربیت کی سر سید احمد خان نے علم کے نور سے روشناس کرایاتو علامہ اقبال نے شاعری کے ذریعے بیدار کیااور شعور دیا جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوؤں کی غلامی سے بچانے کیلئے مسلمانوں کو متحد کیا اور ہزاروں مسلمانوں نے قربانیاں دیکر مجھے حاصل کیا آزادی کے بعد بابائے قوم جلد انتقال کر گئے اور میرا زوال شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے،صوبائی تعصب،دہشتگردی،مہنگائی،بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، کرپشن سرمایہ دارانہ نظام،غریب کا استحصال،آئے روز دھماکے،ٹارگٹ کلنگ جیسے مسائل موجود ہیں ظلم ہو رہا ہے،لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں،لوگ بیگناہ مر رہے ہیں،بیروزگاری ہے،مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ،بلوچستان مشرقی پاکستان کی طرح آگ میں جل رہا ہے بلوچی بھی آزادی مانگ رہے ہیں ،کراچی بھی لہو لہو ہے پختونخواہ کو بموں سے ا’ڑایا جا رہا ہے لوگ فاقوں مر رہے ہیں تو کہیں دھماکوں سے ا’ڑایا جا رہا ہے کیا یہ آزادی ہے؟ میں تو جل رہا ہوں میرے بدن پر آگ لگی ہوئی ہے میرے بچے دن بدن ذلیل و خوار ہو رہے ہیں منافقوں،خو د غرضوں اور فسادیوں نے مجھے سکھ کا سانس تک لینے نہیں دیا پینسٹھ سالوں کا جائزہ لیکر دیکھیں نا اہل حکمرانوں کی ہٹ دھری اور غفلت کی وجہ سے دن بدن تباہی کی طرف کی جا رہا ہوں دو ٹکڑے تو کب کے کر دیئے اب مزید ٹکڑے ہونے جار ہے ہیں،ہر جگہ آگ ہے،جو بھڑک کر میرے پیاروں کو جلا رہی ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے، اس گلشن کو جہنم بنا دیا ہے لیکن میرے بچے بھی بے حسی اور غفلت کی نیند سو رہے ہیں تحریک پاکستان بھول چکے ہیں،قربانیاں بھول چکے ہیں،دو قومی نظریہ بھول چکے ہیں ،وہ لٹے قافلے بھول چکے ہیں،عورتوں سے جو زیادتیاں کی گئی وہ بھی بھول چکے ہیں وہ تو چھوڑیں اب تو حالات اس سے بھی بد تر ہے ہر قسم کی برائی عام ہے ۔اسلامی مثالی فلاحی مملکت کے نعرے کو بھول چکے ہیں اپنی ذمہ داریوں کو بھول چکے ہیں ۔ آج چودہ اگست ہے ملک بھر میں تقاریب منعقد کی جائیں گی آزادی کے گیت گائے جائیں گے لیکن یہ سب دکھاوا ہے اسے آزادی نہیں غلامی کہتے ہیں آزادی نہیں غلامی کا جشن منانا چاہیئے سیاسی پارٹٰیوں(مسلم لیگ ن،تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں) کے جیالوں اور آپ سب کو الگ الگ نعرے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں بس ایک نعرہ لگانے کی ضرورت ہے جو حقیقت بھی ہے اور منافقوں اور بے ضمیروں کی ضرورت بھی یہ نعرہ لگایئے ہم غلام ہیں ۔غلام ہیں۔امریکہ کے غلام ہیں۔ مسلمانی اور انسانیت تو ہم میں رہی نہیں ہمارے اعمال ہی اتنی بیہودہ ہیں کہ دشمنوں کے غلام بن گئے ہیں اور یاد رکھیں یہ قہر خدا ہے،یہ عذاب ہے عذاب۔

شرم آتی ہے مجھے اندھیر نگری چوپٹ راج ہے اب مجھ میں اور سہنے کی قوت نہیں اگر حالات ایسے ہی رہے تو شاید میرا وجود ٹوٹ جائے اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں،دشمن خوشیاں منائیں میرے بچے غلام بن جائیں نہیں جس نظریہ کے تحت مجھے حاصل کیا گیاجس پرچم کے سایہ تلے سب اکھٹے ہوئے آج پھر اس نظریہ پاکستان کے سایہ تلے سب کو اکھٹا ہونا ہو گا،ہمیں جاگنا ہو گا اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنا ہو گا ،بھائی چارے اور ایک قوم کا ثبوت دینا ہو گامجھے خود غرض ،ذاتی مفاد پرست،لٹیرے حکمرانوں سے نجات اور پاکستان کا مطلب کیا لالہ اﷲ کا نعرہ بلند کرکے حقیقی معنوں میں آزادی دلانا ہوگی اور اگر اپنے فرض کو نہیں پہچانیں گے غفلت سے کام لیں گے اسی طرح سوتے رہیں گے تو پھر وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے ،ہر سال جشن آزادی کی خوش فہمی میں جشن غلامی منائیں گے غلام ہیں ۔غلام ہیں ۔امریکہ کے غلام ہیں کا نعرہ فخر سے بلند کرتے رہیں اور سب تماشا دیکھیں گے۔ واہ بھئی واہ کیا قوم ہے ؟ لعنت ہو ایسی قوم پر۔۔۔۔۔۔

Junaidalikhan
About the Author: Junaidalikhan Read More Articles by Junaidalikhan: 6 Articles with 5977 views i belong to district mardan and now a i am trying to write articles in newspapers... View More