سرحد ہر ملک کی غیرت اور حمیت کی نشانی ہے ،کوئی بھی ملک
اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کو نہ صرف برداشت کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ اس کے
لئے اس کے جوان اور عوام سر تن ،من دھن کی بازی تک لگانے کو تیار ہوتے
ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں اس بات پر نہ صرف جنگیں ہوئیں بلکہ تاحال کئی
ممالک کے آپس میں تعلقات کشیدہ رہتے ہیں۔اس سے پہلے 1965ء اور1971ء کی
جنگ بھی ہندوستا ن کی طرف سے ہی پہل تھی جس میں دونوں ممالک کا اچھا بھلا
نقصان ہوا مگر شاید ہندوستان کو کوئی سبق حاصل نہیں ہوا۔پاکستان کے قیام سے
لیکر اب تک ہندوستان نے بارہا بارڈرز معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف
فضائی خلاف ورزی کے علاوہ،فائرنگ اور گولہ بازی کی ہے بلکہ ہماری فوج اور
سویلین افراد کو اغوا بھی کیا گیا ہے۔جس پر کئی دفعہ اقوام متحدہ سمیت
عالمی لیول پر شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ہندوستان نے اس سال اور باالخصوص
اس ماہ سرحدی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی بار دراندازی کی ہے جس کے نتیجہ میں
کئی جوان او ر سویلین شہید ہوئے۔پاکستان نے ہندوستان کو اس کی جارحیت پر
اپنی فوج کو لگام دینے کے لئے کئی بار وارننگ دی اور کہا کہ اپنی فوج کو
پاکستانی حدود کی خلاف ورزی سے روکا جائے۔دوسری طرف بھارتی وزیر دفاع اے کے
انتھونی نے پاکستانی اور ہندوستان کی کشیدگی پر تیل چھڑکتے ہوئے بہت ہی
خطرناک بیان دیا کہ’’میں نے ہندوستانی فوج کو فری ہینڈ دے رکھا ہے اور وہ
پاکستان کے خلاف ہر قسم کی کاروائی کا حق رکھتی ہے‘‘۔یہ بات انہوں نے اتوار
اور پیر کی شب ہندوستان کی طرف سے سرحدی خلاف ورزی ہونے کے بعد کہی۔
تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے
پاکستان سے کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔بھارتی حکومت اپنی ہٹ
دھرمی پر مستقل مزاجی سے قائم ہے اور اپنے جنگی عزائم میں کسی قسم کی نرمی
یا لچک دکھانے سے قاصر ہے۔بھارتی حکومت اور فوج کی جنگی جارحیت دیکھ کر
مستقبل میں مزید تناؤ کا اندیشہ ہے۔کسی قسم کی ناراضگی یا کشیدگی کا بہترین
حل مذاکرات ہوتے ہیں لیکن ہندوستان کی طرف سے مذاکرات کے رستے بند کرنا بھی
ان کی چالاکی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔قارئین آپ کو یاد ہو گا احقر نے تین
چار کالم پہلے ہی نئی پاکستانی حکومت کو ہندوستان سے بجلی لینے اور کسی قسم
کی تجارت نہ کرنے کا سنہری مشورہ دیا تھا اس کی بڑی یہی وجہ ہے کہ
ہندوستانی قوم ایک ایسی قوم ہے جس پر اندھا دھند اعتماد کرنا انتہائی بے
وقوفی ہوگی۔صد شکر ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان کے لئے ماسوائے پڑوسیوں جیسے
تعلقات کے کسی قسم کا محتاج نہیں وگرنہ اس پر بھی ہندوستان سرکاری بہت بڑی
بلیک میلنگ کا رستہ اپناتا اور خدانخواستہ ہمیں ذلیل و خوار کرتا۔بڑی معذرت
کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو قوم بتوں کو اپنا بھگوان مانتی ہو وہ کسی انسان
یا کسی مسلمان قوم کی توقیرکا بھلا کیا خیال رکھے گی۔جس قوم میں شادی ،منگنی،پیار
،محبت،جنم ،امن یا جنگ کا دن ان کے جعلی منتری کرتے ہوں وہ قوم کسی بھی وقت
کو پاکستان کے خلاف جنگ کا وقت سمجھ کر جنگی جنون کا شکار ہو سکتی ہے۔
اب جبکہ ہم نئی حکومت کے ساتھ نئے سال جشن آزادی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو
اس تو اس وقت ہندوستان کی طرف سے یہ جنگی جارحیت دراصل یہی پیغام سمجھا جا
رہا ہے کہ وہ خدانخواستہ ہماری نئی حکومت کو بلیک میل یا تھریٹ کرنا چاہتے
ہیں۔ہماری حکومت کو ہر حال میں ہندوستان کو ان کی جارحیت پر ٹھوک بجا کے
جواب دینا ہوگا۔اقوام متحدہ سمیت تمام ذمہ دار ممالک کی حمایت حاصل کر کے
ہندوستانی دوغلاہٹ اور ہٹ
دھرمی پر ہندوستان کو ننگا کر نا ہوگا۔
پاکستان نے ہندوستان کی سرحدی خلاف ورزیوں کو ہر دفعہ ہوشمندی سے لیتے ہوئے
تدبر اور تحمل کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی بھرپوربرداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ہماری
فوج اور حکومت نے کبھی بھی جذباتی فیصلے نہیں کئے ورنہ سرحدی خلاف ورزیوں
سمیت ہندوستان کی طر ف سے پاکستانی کے دریاؤں میں غیر اعلانیہ پانی چھوڑنے
سمیت کئی ایسے مواقع بھی آئے کہ جن پر خدانخواستہ ٹاکرا ہونے کا شدید
اندیشہ رہا۔جنگ اس دور میں کوئی کھیل نہیں۔پاکستان ہو یا دنیا کاکوئی بھی
ملک ہو امن کی تلاش ہر وقت ہر ملک کو ہے ۔ہندوستان نہ جانے کی شہ پر پنگے
بازیوں سے باز نہیں رہتا اور خواہ مخواہ ہماری عوام و حکومت کے ساتھ چھیڑ
خانی میں مشغول رہتا ہے۔ ہندوستان کی دوغلاہٹ سب کے سامنے ہے کبھی وہ ہمیں
’’دوستی بس سروس‘‘ کی چکر میں رکھتا ہے تو ’’کبھی امن کی آشا‘‘ کی بھاشا
میں اپنے ’’ٹارگٹ اچیو‘‘ کرتا ہے۔حالانکہ کشمیر سمیت تمام مسلمانوں کے ساتھ
ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی فوج انہیں قتل عام کرنے او ر ذلیل کرنے جیسے
گھناؤنے فعل سمیت کسی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔پاکستانی عوام کو
قید خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
ؔ جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی
ہماری فوج ماشاء اﷲ ہر بارڈر پردلجمعی اور جوانمردی سے مستعد اور چوکس
ہے۔وقت آنے پر پاکستانی قوم اور پاکستانی عوام بھی انشا ء اﷲ سیکورٹی فورسز
کو تن تنہا نہیں چھوڑے گی۔ہندوستان جیسے کفار کے خلاف جنگ لڑنا مسلمانوں کا
وطیرہ ہے اور ہندوستان کو اس بات کا قوی اندازہ ہونا چاہیئے کہ ہمارے ملک
کو میلی آنکھ سے دیکھنا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔ اب جبکہ حالات یکسر تبدیل ہو
گئے دنیا میں ماسوائے روس،اسرائیل اور امریکہ کے کسی اور میں جنگی پنگے
بازی کی عادت نہیں پھر ہندوستانی میں تھوڑی بہت شیطانیت جو نظر آتی ہے یا
موجود ہے وقت آنے پر اسے لگ پتہ جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
حکومت وقت کو چائنا،ایران او ر تمام مسلمان ممالک سے اپنے تعلقات
’’ریوائز‘‘ کرنا ہونگے۔امریکہ کو بھی اس بات پر مجبور کرنا ہوگا کہ وہ
افغانستان میں جو چاہے انوالمنٹ رکھے لیکن ہمارے ملک یا ہمارے بارڈرز پر
کسی قسم کی مداخلت کرنا چھوڑ دے۔چائنا پاکستان کا ایک قدیم مگر عظیم دوست
ہے ،ایران کو پڑوسی اور مسلمان ملک ہونے کے ناطے ایک اہمیت حاصل
ہے۔ہندوستان اگر چاہے تو اس سے اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات رکھے جائیں اگر وہ
نہ چاہے تو بھی ہمیں ا س سے محتاط رویہ رکھنا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔
٭ معذرت: احقر نے کالم 13اگست کی صبح بھیجنا تھا لیکن مون سون کی بدولت
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بروقت ای میل نہ ہوسکا۔ |