کیا ہم آزاد ہیں ذرا سو چئیے۔۔۔!

آزادی کے مہینے میں بڑے جو ش و جذبے کے ساتھ آزادی منائی جاتی ہے لیکن کیا ہم آزا د ہیں ؟ یہ ایک سوال !میرے دل میں بار بار دھڑکتا ہے اس لئے کہ ہم آزادی کے بہت نعرے بلند کرتے ہیں اور بہت جو ش وجذبے سے آزادی کے نعروں پر خوشیاں مناتے ہیں۔۔۔۔شاید اس لیے کہ ہم نے صرف جسم کی آزادی کو حقیقی آزادی سمجھ لیا ہے اور آزادی کے مفہوم کو اسی تک محدود کر کے رکھ دیا ہے اس کے برعکس ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہیں مگر اس آزادی سے کہیں زیادہ غلام بھی ہیں اس بات پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک طرف آزادی کی بات اور ساتھ ہی غلامی۔۔۔۔۔!یہ کیسے ممکن ہے تو دیکھئے آج سے 66سال پہلے ہمارے آباؤ اجداد نے اس وطنِ عزیز کو اسلام کے نام پر کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا ،صرف ایک ہی زبان زدِ عام تھی ''آزادی''اور''آزادی''صرف آزادی صرف جسم کی آزادی نہیں بلکہ تہذیب ،ثقافت،معاشی آزادی،رسم و رواج ،رہن سہن تمام لوازمات ِ زندگی کی آزادی تھی اور ہمارا اس وقت مطالبہ یہ تھا کہ بد مذہب قوم سے آزادی حاصل کرکے مذکورہ بالا چیزوں کو اپنے مذہب کے مطابق کر سکیں ۔۔۔اور یہی اس وقت کا نعرہ اور دو قومی نظریہ تھا کہ برصغیر میں دو الگ الگ قومیں آباد ہیں جن کی تہذیب و ثقافت میں زمین آسمان کا فرق ہے ،اور ہمارا ان بد مذہبوں سے اختلاف کی بنیاد بھی ان کے غلط رسم و رواج ان کے عقائد ان کی ثقافت حتیٰ کہ اسلام نے زندگی گزارنے کے لئے جو رہنمائی کی ہے اس کے علاوہ تمام چیزوں سے ہمیں اختلاف تھاان چیزوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لئے ہم نے آزادی حاصل کی۔۔مگر صد افسوس کہ ہم نے ان مقاصدِ حسنہ کو بھلا کر جسمانی آزادی حاصل کرنے کے بعد آ ج بھی ان کے غلام ہیں،ہماری سو چیں قیدی ہیں کیونکہ آ ج آزادی کا دعویٰ کرنے والا مسلمان بہت جو ش و جذبے سے کبھی کرسمس ڈے اور کبھی دیوالی منانے کے ساتھ ساتھ ویلنٹائن ڈے کی تیاریاں کرتا ہے آ ج ہم یہود و نصاریٰ کے رسم و رواج بڑے جو ش و خروش سے مناتے ہیں اور ان کا اہتمام کر تے ہیں انکی انسانی تذلیل یافتہ تہذیب کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، کیا کبھی کسی نے سناکہ کسی غیر مسلم نے عیدا لفطر منا ئی یا رمضان کے روزے رکھے ہوں؟نہیں آ پ کو جواب نہیں میں ملے گاکیونکہ وہ آزاد ہیں اپنی تہذیب و ثقافت رکھتے ہیں، اور ہم آ ج بھی ان کی تہذیب کو اپنا کر ان کو بتا رہے ہیں کہ ہم آ ج بھی تمہارے غلام ہیں،ہماری سو چیں ،نظریات تمہارے غلام ہے اور ملک دشمن عناصر اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت اگر ہمیں مات دی جا سکتی ہے تو وہ صر ف ہمارے اعتقادی ،نظریات اور تہذیب و ثقافت سے دور کر کے ہی ممکن ہے ۔۔۔۔فاتح بیت المقدس سلطا ن صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس قوم کے جوان طبقے میں فحا شی عام کر دو۔۔۔۔آج دشمن ہمارے اسلاف کی تعلیمات پر عمل کر کے ہمیں مات دینے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑ رہے ۔۔۔۔!

نہایت افسوس سے ایک افسوس ناک اور دلخراش حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو ں شاید کہ ہمیں تعلیم ہی اس کی دی جا رہی ہے کہ روشن خیالی کی مد میں اپنے عظیم اسلاف کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مغربی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ ہو جاویں، حقیقی معنوں میں آزادی ھاصل کر نے کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ اس تہذیب کے دلدادہ ہو جا ئیں جو ایک انسان کو مکمل طور پر اس کے حقوق فراہم کرنے سے قاصر ہے جس میں جا نوروں کے حقوق تو مقرر ہیں مگر ایک انسان اپنے حقوق حاصل کرنے سے قاصر ہے،جس میں جنم لینے والے بچے کو اپنی ماں کا تو پتہ ہے مگر وہ یہ نہیں جا نتا کہ اس کے کتنے با پ ہیں اور وہ کو نسے باپ کا تخم ہے ،ایسی تہذیب جو ظلمت کے نا سوروں کو خود تحفظ فراہم کرتی ہے ۔۔۔مغربی تہذیب ایک ایسا گڑا ہے جس میں ہر کو دنے والا اپنی پہچان کھو دیتا ہے اور پھر وہ اندھا اندھیرا کنواں اس کی پہچان بن کر ابھرتا ہے اور جو قو میں اپنی پہچان کھو دیتی ہیں در حقیقت وہ اپنا مستقبل کھو دیتی ہیں ،جن کا مستقبل نہیں ہو تا دستور اقوامِ عالم میں وہ قو میں نیست و نا بود ہو جا تی ہیں تبا ہی ان کا مقدر بن جا تی ہے۔۔۔۔

مشرق کی تہذیب (مسلمانوں کی تہذیب)میں مغربی تہذیب کی آمیزش تباہی کی طرف پہلا قد م ہے کیونکہ انسانی احساسات و جذبات کو روندنامغربی تہذیب میں پیش پیش ہے ،مغربی تہذیب ظاہری جاذبیت اور دلکشی کے با عث نہ صرف پاکستان بلکہ پو ری دنیا کا محور بن چکی ہے جس سے پیدا ہو نے والے عالمی مسائل سب کے سامنے روز روشن کی مانند عیاں ہیں۔۔۔۔۔ سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر یہ تہذیب اتنی نقصان دہ کیوں ہے؟؟کیونکہ یہ تہذیب فحا شی و عر یا نی ،حسن کی نما ئش ،فیشن پرستی ،عیاشی ،قمار بازی،آوارگی اور تمام انسانی تذلیل یافتہ جرائم کو پیش کرتی ہے اور ظاہری جاذبیت کی بدولت لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔۔۔اپنی ظاہری جاذبیت کی بدولت آج لو گوں کے ضمیر اور عقل و فہم کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے جو کہ اپنے انجام ِ کار سے سے بے خبر ہو نے کیساتھ اس کے بارے میں سو چنے سے قاصر ہیں لعین زدہ مغرب جہاں مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے اپنی مادہ پرستی کی طاقت کے نشے میں اس قدر بد مست ہو چکا ہے کہ مظلوموں کی آ ہ و پکار کا طو فان اسے بہا کر لے جا ئے گا۔۔۔۔جنس پرستی عام ہے جبکہ اسلام اس کے سخت خلاف ہے اﷲ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے کہ''زناکے قریب ہی مت جا ؤ،کیو نکہ یہ کھلم کھلی فحش کاری ہے ''مگر افسوس کہ مغرب اور مغرب زدہ تہذیب میں صور تِ حال مختلف ہے بجائے اس کے کہ اس کا سد باب کیا جا ئے ۔اس کو خو د تحفظ فراہم کیا جا تا ہے ،اور آزاد ی ِاظہار رائے کی زد میں مذہبوں کے تقدس کو بھلا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔! آزادی مقصد ایک آزاد خطہ حاصل کرنے کے سا تھ سا تھ آزاد تہذیب و ثقافت اور ماحول حاصل کرنا تھا نہ کہ ،سڑکوں پر ون ویلنگ ،ہلڑ بازی اور طر ح طرح کی شعبدہ بازیاں آزادی کے مقاصد میں شامل نہ تھیں ۔۔۔!

دہشت گردی کی جنگ میں لہو لہان ،اور دشمنوں کی سازشوں کے شکار وطن عزیز کو جشن آزادی مبارک۔
نوٹ(اس کالم کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ ضمیر جگانا اور آزادی کے صحیح تشخص کو بحال کر نا ہے)

Ali Raza shaAf
About the Author: Ali Raza shaAf Read More Articles by Ali Raza shaAf: 29 Articles with 27140 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.