نہایت افسوس کے ساتھ عالم اسلام نے یہ خبر سُنی کہ ایران
کے نئے صدر حسن روحانی نے ظالم غاصب بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ اتحاد قائم
کرنے کا اعادہ ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت
بشارالاسد کے تحاد کو توڑنہیں سکتی ہے ۔کیا اخوات اسلامی اور علامہ خمینی ؒ
کی تعلیمات بھی اس اتحاد کو قائم کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟جس جذبے کے ساتھ
انہوں نے بشارالاسد کی حمایت کا اعلان کیا ہے کاش وہ شامی عوامی کی خواہشات
کا بھی خیال کرتے اور ایران کی طرح شام کو بھی اسلامی جمہوریہ بنانے میں
مددگار ثابت ہوتے ۔
حیرت اس بات پر نہیں ہے کہ انہوں نے بشار کے ساتھ اتحاد کا اعادہ کیا ہے
بلکہ حیرت اس بات پر ہے کہ جو ملک خود تین ہزار سالہ بادشاہت کیخلاف بر سر
پیکار ہو کر انقلاب کے ذریعے اسلامی جمہوریہ قائم کرنے کا جوہر دنیا کو
دکھا چکا ہے آج وہی ظالم بادشاہ کی حمایت کر رہا ہے ،صرف اس بنیاد پر کہ
بادشاہِ شام اور ایران کا مسلک ایک ہے ۔مسلک کی آگ میں انسانیت کو تہہ و
تیغ کرنے والوں کا کیا اسلام میں کوئی مقام ہے؟۔افسوس صد افسوس کے مسلکی
تعصب کی وجہ سے اسلام کے قلع کو مسمار کرنے والوں میں خود اسلام کے نام
لیوہ پیش پیش ہیں ۔
شام کے 70فیصد سنیوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے سفاک ظالم بشار
نے پوری عالمی برادری میں انسان کی حرمت کو پامال کرنے کا جرم کیا ہے ،انکی
خواہشات آزادی کو دبانے کیلئے باپ کی سفاکانہ تاریخ کو بیٹا آگے بڑھا رہا
ہے ۔اس وقت شامی عوام پر فضائی اور زمینی ہر قسم کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے
۔ٹینکوں توپوں اور راکٹوں سے اپنے ہی عوام کو تباہ کیا جا رہا ہے ،تمام شہر
خصوصاً حلب کھنڈرات میں تبدیلی ہو چکے ہیں ۔عزتیں پامال اور جائدادیں لوٹی
جا رہی ہیں ۔بچے ذبح کئے جا رہے ہیں انسانوں کو زندہ دفن کیا جا رہا ہے ۔گرفتار
ہونے والوں کو بشار کی تصویر کو سجدہ کرنے اور کلمہ کفرکہنے پر مجبور کیا
جا رہا ہے ۔آج امت مسلمہ کی اکثریت کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اسے اس بات
کا مطلق ادراک نہیں کہ شام میں شفاک الاسد کی فوج کے ہاتھوں جو کچھ ہو رہا
ہے ،وہ نسلی تطہیر ہے اور وہاں سے 70فیصد سے زائد اکثریت رکھنے والی سُنی
آبادی کا صفایا کرنا اور انہیں ان کے بنیاد حقوق سے محروم کرنا ہے۔شام کی
حیثیت عام ممالک کی سی نہیں ہے ،اس ملک سے دنیا کے ہر مسلمان کا قلبی و
روحانی رشتہ ہے ،مکہ مکرمہ اور مدینہ کے بعد اگر کوئی سرزمین مسلمانوں
کیلئے مذہبی تقدس کی حامل ہے تو وہ سر زمین شام ہے ۔نبی ﷺ نے مسلمانوں پر
شام کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس سے رشتہ استوار رکھنے کی تاکید فرمائی ۔
آپ ﷺ نے فرمایا ’’علیکم با لشام ‘‘شام سے اپنا رشتہ استوار رکھو،پھر فرمایا
’’یجتبی الیہا خیر تہ من عبادہ‘‘یعنی اﷲ کے بہترین بندے اس زمین کیلئے
منتخب کئے جاتے ہیں ،پھر ایک مرتبہ فرمایا’’طوبی للشام ‘‘یعنی خوش آمدید
زمین شام ،صحابہ ؓ نے دریافت کیا تو آپ نے کہا کہ رحمان کے فرشتے اس کی
فضاؤں میں اپنے بازوں پھیلائے ہوتے ہیں ۔اسی وجہ سے ملک شام میں صحابہ ؓ ،تبع
تابعین اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے سکونت اختیار کی ۔حضرت بلال حبشیؓ ،حضرت
عبداﷲ بن مکتومؓ،حضرت معاویہ ؓ، حضرت ام حبیبہ اور اسلام کے عظیم سپہ سالار
خالد بن ولید ؓ جن کی روضہ مبارک کو بشار کی ظالم فوج نے مسمار کر کے شہید
کر دیا ہے۔حضرت ابو عبیدہ ؓ،حضرت ابودرداؓ ،حضرت سعد بن عبادہؓ،حضرت ابی بن
کعب ؓ،کے مزارات آج بھی شام میں لوگوں کیلئے مرکز قلب و نگاہ بنے ہوئے ہیں۔
یہ وہ سرزمین ہے جس کے تقدس کی گواہی خود قرآن نے دی ہے ۔’’الذی بارکنا
حولہ ‘‘کا عزاز اسی سرزمین شام کو حاصل ہے ۔خود نبی ﷺ نے ’’الھم بارک لنا
فی شامنا‘‘کہہ کر شام کیلئے برکت کی دعاء فرمائی (حوالہ از :منصف حیدرآباد
۱۶ جون)
پھلوں سبزہ زاروں اور قدرتی وسائل سے مالا مال یہ ملک بشار الاسد کے مظالم
کے سبب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے ،ہر طرف تباہی و بربادی صف ماتم بچھا
رہی ہے ۔امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے میں
دیر لگاتے ہیں ۔بہت کم لوگ ہیں جو حقائق کا ادراک کر پاتے ہیں ۔کوئی بھی
قائد یا ملک اسلام کا نام لیکر جذباتی بیانات دیتا ہے یا اسرائیل کے خلاف
کچھ زبانی جمع خرچ اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا مظاہرہ کر تا ہے ،اسے
اسلام کا حقیقی ہیرو سمجھا جانے لگتا ہے ۔جبکہ دنیا جانتی ہے کہ بشارالاسد
اسلام پرست نہیں بلکہ کمیونسٹ نظریات کے پرزور حامی ہے ۔ روس اور چین سے
مخلصانہ روابط سیاسی سے زیادہ نظریاتی اور فکری نوعیت کے ہیں ۔یہ خاندان کس
قدر ملحدانہ خیالات رکھتا ہے اس کا اندازہ بشارالاسد کے بھائی ماہر الاسد
کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے بشار کے خلاف شروع کئے گئے
احتجاجی مظاہرہ کے آغاز کے موقع پر دیا تھا ۔ اس نے کہا کہ میرے باپ حافظ
الاسد نے ملک کا اقتدار طاقت کے زور سے حاصل کیاتھا ،یہ اقتدار نہ خدا نے
دیا ،اور نہ عوام نے ،اس لئے ہم دونوں میں سے کسی کے جوابدہ نہیں ۔کیا
بشارالاسد کی بے جا حمایت کرنے والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے ؟۔ |