اسلام کا عظیم سپہ سالار جنرل محمد ضیاء الحق شہید

محمد اسلم لودھی

جس نے اپنی قوت ایمانی سے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کو تنکوں کی طرح بکھر دیا
جس نے بھارت جیسے مکار دشمن کی ہر چال کا منہ توڑ جواب دے کر قومی سالمیت کی حفاظت کی
جس نے ملک بھر سے شراب ٗ فحش لٹریچر کا خاتمہ کیا جس نے زکوۃ ٗ عشر اور نماز کا نظام قائم کیا
جس کے لیے روضہ رسول ﷺ کے اندر ایک ہی روز میں دو مرتبہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی
جس کے لیے دو مرتبہ نبی کریم ﷺ کے پیغام مختلف شخصیات کے ہاتھ آئے
جس نے خانہ کعبہ میں امامت کروائی
جس نے ملک میں سوشلزم کا جنازہ نکال کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کیے

دنیا میں کوئی شخص ایسانہیں جس کے سب حمایتی ہوں اور مخالف کوئی نہ ہو ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا شمار بھی ایسے ہی انسانوں میں ہوتا ہے لیکن انہوں نے اپنے گیارہ سالہ دور حکومت میں پاکستان اور دنیا کی تاریخ پر ایسے خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں جن کا ذکر کیے بغیر پاکستانی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ۔ناقدین کے خیال میں وہ ایک فوجی آمر تھے انہوں نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تھا لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جس بھٹو دور کو جمہوری قرار دیا جاتا ہے وہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا آمرانہ دور تھا بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا مکان کانعرہ لگا کر پاکستانی عوام کو خوب بیوقوف بنایا ۔ وہ اختلاف رائے کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے اختلاف کرنے والے کا تعلق ان کی اپنی پارٹی ہو یا دیگر سیاسی جماعتوں سے وہ ان کی زبان گدی سے کھینچ لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ دلائی کیمپ ٗ شاہی قلعے کے عقوبت خانے ٗ سی آئی اے کے اذیت خانوں میں علمائے کرام اور مخالف سیاست دانوں پر اذیت ناک مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اسے دیکھ کر بھٹو دور کو جمہوری کہنا میری نظر میں سب سے بڑا گناہ ہے ۔بھٹو سب سے بڑا آمر ٗظالم اور غاصب انسان تھا اور تاریخ میں اس کا یہ کردار کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔اس نے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے اس قدر دھاندلی کی کہ مخالف امیدواروں کو ایف ایس ایف کے ہاتھوں اغوا کروا کے آدھے سے زیادہ پیپلز پارٹی کے امیدوار بلا مقابلہ ہی منتخب کروالیے جبکہ الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشنز پر بھی پیپلز پارٹی کے مسلح غنڈہ عناصر کا قبضہ رہا اس دھاندلی کے خلاف جب عوام احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تو ایک جانب ایف ایس ایف اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کے مسلح غنڈوں نے احتجاج کرنے والے شہریوں پر سیدھی گولیاں برسائیں جس سے لاہور سمیت ملک بھر میں شہیدوں کے لہو سے سڑکیں سرخ ہوگئیں پھرعوام کو طاقت سے کچلنے کا یہ کام جب فوج سے لیا جانے لگا تو ایک دوکاروائیوں کے بعد فوج نے سیاسی مذاکرات پر زور دیا ۔ ایک مرتبہ بھٹو صاحب اجلاس کی صدارت کررہے تھے تو کابینہ کے ایک وزیر نے جنرل ضیاء الحق کو مخاطب کرکے کہا کہ چالیس پچاس ہزار افراد بھی اگر مار دیئے جائیں تو پاکستان بچانے کے لیے یہ قربانی زیادہ مہنگی نہیں ہے جس پر کور کمانڈر کراچی نے اس وزیر کو جھڑک کر جواب دیا لاکھوں کی تعداد میں لوگ عوام ہیں شرپسند نہیں ۔ہم عوام پر گولی نہیں چلا سکتے اگر آپ کو عوام کے مارنے کا اتنا ہی شوق ہے تو خود مارلیں ۔ پھر جب لوہاری مسجد میں فوج کے ہاتھوں کئی شہری شہید ہوگئے تو تمام کور کمانڈروں نے جنرل ضیاء الحق کو اپنے اپنے موقف سے آگاہ کردیا ۔جنرل ضیاء الحق نے تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر بھٹو صاحب کو مصالحت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن بھٹو صاحب کے دماغ میں تو تاحیات حکمرانی کا جنون سوار تھا ۔جب حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے تو تمام کورکمانڈرز کی مشاورت سے جنرل ضیا ء الحق کو بھٹو صاحب کا تختہ الٹنا پڑا ۔ تختہ الٹنے کے بعد جہاں پاکستانی عوام بے حد خوش تھی وہاں خود پیپلز پارٹی کے بیشتر رہنما جن میں مولانا کوثر نیازی ٗ حفیظ پیرزادہ جیسے لوگ بھی شامل تھے انہوں اظہار تشکر کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا "بہت دیر کی مہرباں آتے آتے "۔کیونکہ بھٹو کے شر اور ظلم سے اپنا ہو یا پرایا کوئی بھی محفوظ نہیں تھا وہ ہرشخص کو بلیک میل کرنے کا فن جانتا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ بھٹو صاحب خود اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر تختہ دار تک پہنچ گئے کیونکہ جو شخص اقتدار کے نشے میں لوگوں کو جان سے مارتا رہا ہو اس کو ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو بھی تو پہنچنا ہی تھا ۔

جنرل ضیاء الحق کو اپنے گیارہ سالہ دور میں بے پناہ قومی اور بین الاقوامی مسائل اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ۔ سب سے پہلے تو سوویت یونین جو دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور تھی اس نے لاکھوں کی تعداد میں جدید ترین اسلحے سے لیس اپنی فوجیں داخل کرکے افغانستان پر قبضہ کرلیا یہ قبضہ صرف افغانستان تک ہی محدو د نہیں تھا بلکہ اس قبضے کی اگلی منزل پاکستان اور بحیرہ عرب کا سمندر تھا جس پر قابض ہوکر سوویت یونین مشرق وسطی اور ایشیا پر اپنی حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا ۔اس کے باوجود کہ جنرل محمد ضیاء الحق سوویت یونین کے مقابلے میں بہت چھوٹے ملک "پاکستان"کے صدر تھے اور پاکستان اس وقت اندورنی خلفشار کے علاوہ عسکری اعتبار سے بھی قابل ذکر ملک تصور نہیں کیاجاتا تھا کیونکہ 1971ء میں بھارت نے سوویت یونین اور امریکی اشیر باد سے پاکستان کو دو لخت کرکے اور 90 ہزار فوجیوں کو بھارتی جیلوں میں قید کرکے ذہنی طور پر پاکستان کو مفلوج کردیا تھا ایک طرف یہ شکست تو دوسری جانب سوویت یونین سے براہ راست ٹکر لینے کا فیصلہ بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن جنرل محمد ضیاء الحق نے "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی " کے مصداق سوویت یونین کے سامنے ترنوالہ بننے کی بجائے سرزمین افغانستان میں ہی اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔یہ فیصلہ اس قدر مشکل اور دشوار تھا کہ بڑے بڑوں کے پتے پانی ہوچکے تھے لیکن طارق بن زیاد اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے غیو ر مسلمان سپہ سالاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنر ل محمد ضیاء الحق نے آٹھ سال میں سوویت یونین کو شکست فاش دے کر ثابت کردیا کہ اگر اﷲ کی تائید و حمایت شامل حال ہو اور ایمان بھی پختہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔

ایک مرتبہ روسی سفیر نے ایوان صدر میں جنرل محمد ضیاء الحق سے ملاقات کی اور تحکمانہ انداز میں کہا کہ جنرل صاحب آپ ایک روسی میزائل کی مار بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارے راستے سے ہٹ جائیں ورنہ آپ کاانجام بہت برا ہوگا ۔ سوویت یونین وہ سفید ریچھ ہے جہاں ایک بار پنجے گاڑ لیتا ہے وہاں سے نکلتا نہیں ہے ۔ آدھی سے زیادہ دنیا پر سوویت یونین کا قبضہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ ضیاء الحق روسی سفیر کی یہ تلخ باتیں تحمل سے سنتے رہے پھر جب روسی سفیر جانے کے لیے کرسی سے اٹھا تو جنرل صاحب نے الوداع کہتے ہوئے کہا مسٹرایمبسیڈریہ درست ہے کہ سوویت یونین نے آدھی دنیا پر قبضہ کررکھا ہے یہ بھی درست ہے کہ آپ کا ایک میزائل مجھے یہیں بیٹھے بیٹھے قبر میں اتار سکتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھو ایک طاقت اور بھی ہے جو سوویت یونین سے کہیں بڑی ہے اور وہ طاقت اﷲ تعالی کی ہے جب تک اس نے میری زندگی لکھی ہوئی ہے دنیا کی کوئی طاقت مجھے نہیں مار سکتی جاؤ اور اپنے حکمرانوں کو بتا دو میں یہیں بیٹھا تمہارے میزائلوں کا انتظار کررہا ہوں ۔جنرل ضیاء الحق نے جس طرح افغانستان میں خود جا کر افغان مجاہدین کی تربیت اور سرپرستی کی افغان مجاہدین کی میزبانی کی ۔اس میں اﷲ تعالی کی تائید و حمایت بھی شامل تھی ۔ وگرنہ ایک انسان سپر پاور کا راستہ روکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا پھرجب سوویت یونین نے اپنی شکست تسلیم کرکے یہ التجا کی کہ اس کی فوجوں کو بحفاظت دریائے آمو کے اس پار واپس جانے دیا جائے اور ان پر حملہ نہ کیا جائے تو اس وقت سوویت یونین ساری دنیا کے لیے عبرت کی مثال بن چکا تھا سفید ریچھ کے مرنے کی دیر تھی کہ وسطی ایشیاء کی نصف درجن مسلمان ریاستیں اور آدھے سے زیادہ یورپ بھی سوویت یونین کے پنجے سے آزاد ہوگیا اور سوویت یونین صفحہ ہستی سے مٹ گیا آج اس کی ایک شکل روس کے نا م سے موجود ہے لیکن اسے دنیا کی دوسری سپرپاور قرار نہیں دیاجاسکتا ۔

جنرل ضیاء الحق نے جہاں سوویت یونین کو واضح شکست دی وہاں بھارت کی جانب سے سرحدوں پر فوجی نقل و حمل اور یلغار کے ساتھ ساتھ ریشہ دوانیوں کو بھی اپنی دانش مندی اور تحمل مزاجی کے بل بوتے پر شکست سے ہمکنار کیا۔بھارت نے جی ایم سید اور ان جیسے اور سندھی سیاست دانوں کی سرپرستی کرکے سندھ میں جاسوسی اور بدامنی کا ایسا جال بچھا لیا تھا جو سندھ پر قبضے کے لیے صرف ایک فوجی یلغار کی ضرور ت تھی لیکن جب بھی بھارت اپنی فوجوں کو سرحد پر حملے کے لیے تیار کرتا تو جنرل ضیاء الحق کسی نہ کسی طرح بھارت کی یہ چال ناکام بنا دیتے ایک مرتبہ اچانک کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے جنرل ضیاء الحق دہلی جا پہنچے ۔اس وقت بین الاقوامی سرحدوں پر پاکستان اور بھارت دونوں کی فوجیں آمنے سامنے حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں ۔دشمن ملک میں میچ دیکھنے کے بعد جب دہلی ائیرپورٹ پر جنرل ضیاء الحق جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے لگے تو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی ہاتھ ملا کر الوداع کہنے لگے تو جنرل ضیاء الحق چند لمحات کے لیے رکے اور راجیو گاندھی کے قریب جاکر نہایت راز داری سے پوچھا بھارت کے پاس کتنے ایٹم بم ہوں گے راجیوگاندھی اس سوال سے پریشان بھی ہوئے لیکن ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ چار پانچ ایٹم بم بھارت کے پاس ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔ اتنے ہی ایٹم بم پاکستان کے پاس بھی ہیں اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات کی تو میں دھلی کلکتہ ٗ بمبئی ٗ مدارس سمیت بھارت کے تمام قابل ذکر شہروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دوں گا ۔ یہ کہہ کر جنرل صاحب سیڑھیا ں چڑھ کے جہاز میں سوار ہوگئے اور راجیو گاندھی کافی دیر تک سکتے کی حالت میں وہاں کھڑے رہے ۔یہ جنرل ضیاء الحق ہی تھے جنہوں نے بھارتی پنجاب میں سکھوں کو بھارت کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھاجس کی فہرستیں بعد میں بے نظیر حکومت نے بھارت کو دے کرہمیشہ کے لیے سکھوں کی بغاوت کو کچل کے رکھ دیا اور آج بھارت پاکستان کے قبائلی علاقوں ٗ بلوچستان ٗ گلگت بلتستان ٗ اپنے جاسوسوں اور تخریب کاروں کا جال اس طرح بچھانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ پاکستان کو اپنے وجود اور سا لمیت کو برقرار رکھنا محال نظر آ رہا ہے ۔

جنرل ضیاء الحق پاکستان کے وہ واحد سربراہ مملکت تھے جنہوں نے صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود کوئی شخصی مفاد حاصل نہیں کیاانہوں نے اسلام آباد میں جو مکان بنوایا تھا وہ بھی بینک سے قرض لے کر بنوایا اور قرض کی قسطیں اپنی تنخواہ سے کٹواتے رہے اور نہ ہی ان کا کوئی بنک بیلنس تھا ۔جنرل ضیاء الحق کو خانہ کعبہ میں امامت کروانے کا اعزاز اس وقت حاصل ہوا جب عین نماز کے وقت امام کعبہ امامت کے مصلے سے یہ کہتے ہوئے ہٹ گئے کہ مسلمانوں کے امام تو جنرل صاحب آپ ہیں آپ امامت کروائیں پھر جب انہوں نے نماز میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کی تو آنکھوں سے آنسووں کی جھڑیاں اور ہچکیاں بندھ گئیں جنرل صاحب خود بھی روئے اور ان کی اقداء میں نماز پڑھنے والوں پر بھی رقعت طاری ہوگئی ۔پھر ایک مرتبہ آپ مسجد نبوی میں روضہ رسول ﷺ پر حاضر ہوئے ۔ تو گورنر مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ اگر روضہ رسول ﷺ کے اندرجانے کے لیے انہیں بلاوا آئے تو وہ انہیں بھی ساتھ اندر لے جائیں جنرل صاحب نے کہا آپ تو مدینہ کے گورنر ہیں آپ جب چاہیں روضہ رسول میں جاسکتے ہیں گورنر مدینہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ وہی شخص روضہ مبارک کے اندر جاسکتا ہے جس کو خود نبی کریم ﷺ بلاتے ہیں ۔چنانچہ بلاوا آنے پر روضہ مبارک کا درواز ہ کھول دیاگیا اور جنرل صاحب گورنر مدینہ اور رفقاء کے ساتھ روضہ مبارک کے اندر گئے اور اتنا روئے اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی امت مسلمہ اور پاکستان کے لیے دعا کرکے جب جنرل ضیا ء الحق روضہ مبارک سے باہر نکلنے لگے تو روضہ اطہر کے دروازے کے چابی برداروں نے جنرل صاحب کا بازو پکڑ لیا اور ان سے کہا کہ دوبارہ حضور ﷺ کے روضہ مبارک کے اندر جائیں اور سلام عرض کریں اس طرح جنرل ضیاء الحق واحد مسلمان حکمران ہیں جنہیں ایک ہی روز میں دو مرتبہ روضہ رسول ﷺ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔یہی نہیں دو مرتبہ نبی کریم ﷺ کا پیغام جنرل ضیاء الحق کو پہنچایا گیا ایک مرتبہ مولانا فقیر محمد( جو ولی کامل کے مرتبے پر فائز ہیں ) مدینہ شریف میں روضہ مبارک پر مراقبہ ہوئے تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جنرل ضیاء الحق کو میرا سلام پہنچا دو او ران سے یہ بھی کہہ دو کہ اسلامی نظام کے نفاذ میں دیر نہ کریں ۔پاکستان واپسی پر یہ پیغام مولانا فقیر محمد نے جب جنرل ضیاء الحق کو پہنچایا تو جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی رہی یہی وجہ ہے کہ وہ نفاذ اسلام کے لیے بہت جلدی میں تھے ۔ یہ واقعہ جنرل محمد ضیاء الحق کی شہادت سے آٹھ ماہ پہلے کا ہے ۔

ایک مرتبہ مانسہرہ جاتے ہوئے طوفان بادباراں نے جنرل ضیاء الحق کے ہیلی کاپٹر کو گھیر لیا آپ کے حکم پر ہیلی کاپٹر فوری طور پر زمین پر اتار لیاگیا جس جگہ ہیلی کاپٹر اترا اس کے قریب ہی ایک چھوٹا سا گھر تھا جنرل صاحب سول کپڑوں میں تھے۔ چھپر کے نیچے ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا جنرل صاحب نے اس بابے کو سلام کرنے کے بعد پوچھا باباجی میں یہاں نماز پڑھ لوں ۔ ؟ بابے نے کہا بیٹا پڑھ لو جنرل صاحب نماز پڑھنے کے بعد باباجی سے مخاطب ہوکر کہنے لگے میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں جب بابا جی کو پتہ چلا کہ ان سے بات کرنے والا صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے روتے ہوئے جنرل صاحب کو بتایا کہ وہ وزیر اعلی سرحد کا چپڑاسی تھا اب ریٹائر ہوچکا ہے حج کی درخواست لے کر جب وزیر اعلی سرحد کے پاس گیا تھاتو انہوں نے دھکے دے کر نکال دیا ۔ اگرآپ میرے لیے کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو مجھے حج کروادیں ۔جنرل صاحب نے بابا جی کی بات سن کر کہا آپ کی اہلیہ زندہ ہے بابا جی نے کہا جی زندہ ہے جنرل صاحب نے کہا آپ اکیلے حج پر کیوں جارہے ہیں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لیتے جائیں جس نے زندگی بھر آپ کا ساتھ دیا ہے ۔ جنرل صاحب نے کہا باباجی آپ مجھ تک نہیں پہنچ سکے تھے اس لیے اﷲ میاں نے کان پکڑ کر مجھے آپ کے پاس بھیج دیا ہے ۔

ایک مرتبہ جنرل صاحب لندن گئے تو وہاں پاکستانیوں کے ساتھ ایک اجلاس میں باتیں ہورہی تھیں اچانک ایک شخص آگے بڑھا اور بلند آواز میں کہنے لگا جنرل صاحب آپ منافق ہیں ملک میں اسلامی نظام کا نام لے کر آپ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔وہاں موجود تمام لوگوں نے اس شخص کو پیٹنا چاہا تو جنرل صاحب نے اس شخص کواپنے قریب بلایا اور نہایت تحمل مزاجی سے پوچھا محترم آپ کے گھر میں کتنے افراد رہتے ہیں اس نے جواب دیا چھ ٗ جنرل صاحب نے کہا کیا ان سب پر آپ کا کنٹرول ہے اس نے کہا نہیں بچے کبھی بات مان لیتے ہیں اور کبھی انکار کردیتے ہیں یہ سن کر جنرل صاحب فرمانے لگے آپ اپنے گھر کے چھ افراد کو کنٹرول نہیں کرسکتے مجھے تو پورا ملک کنٹرول کرنا ہے ۔ اسلامی نظام میں نافذ کرنے میں ایک لمحہ بھی تاخیر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں لیکن اس کے لیے اجتماعی طور پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اﷲ نے مہلت دی تو میں یہ کام بھی کر کے ہی جاؤں گا ۔

جنرل کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ بھٹو دور میں فوجی کلبوں اور میسوں میں شراب عام تھی لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے فوجی کی کمانڈ سنبھالی تو فوج میں شراب پر سختی سے پابندی لگا دی گئی ۔ مسجدوں میں نمازوں کااہتمام کیا جانے لگا ٗ قرآن و حدیث کے درس و تدریسی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ملک بھر میں شراب پر مکمل پابندی لگادی گئی ائیرپورٹس ٗ ہوائی جہازوں ٗ ہوٹلوں میں شراب اور فحش لٹریچر بند کردیا گیا ۔زکوۃ و عشر کا نظام قائم کیا گیا ۔ اسلامی بینکاری کی ابتدا ء جنرل ضیا ء الحق کے دور میں ہی ہوئی ۔

ممتاز صحافی مجید نظامی کے بقول جنرل ضیاء الحق ٗ ایوب خان ٗ یحیی خان اور بھٹو سے بالکل مختلف تھے جہاں تک ان کے ذاتی اوصاف کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی قسم کے آپ ہی انسان تھے ان کا تعلق مڈل کلاس سے تھا گیارہ سال حکومت کرنے کے باوجود ان کے طور طریقوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں آیا آج تک ان کے بارے میں کوئی ایسی حرف گیری پڑھنے ٗ سننے میں نہیں آئی اور نہ ہی ان کے کسی بڑے سے بڑے سیاسی دشمن نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اقتدار میں رہ کر ناجائز مال کمایا ہے وہ پابند صوم و صلوہ تھے ۔ ان کے کئی سیاسی خیالات سے شدید اختلاف کے باوجود میرا یہ خیال ہے کہ ذاتی خوبیوں کے حوالے سے ان جیسا حکمران ہمیں شاید مشکل ہی سے میسر آئے گا ۔

پھر 17 اگست 1988ء کا منحوس لمحہ آن پہنچا جب پاکستان کے دشمن اپنی سازشوں کا جال بچھا کر انہیں بہاولپور کے نزدیک بستی لال کمال میں شہادت کا جام پلانے میں کامیاب ہوگئے ۔یہ سانحہ کیوں کررونما ہوا اور اس میں کس کس دشمن ملک اور وطن دشمن کا ہاتھ تھا آج تک یہ راز نہیں کھل سکا اور نہ ہی پاکستانی حکمران اس راز کو کھلنے کا ارادہ رکھتے ہیں ہر اس شخص کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اپنی ذات ٗ اپنے خاندان اور ملک و قوم کے لیے کیا کیا کارنامے اور خدمات انجام دی ہیں ۔جنرل محمدضیاء الحق کا نام اس اعتبار سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ دوسروں کے لیے مثال بنا کر دکھائے یہ پیغمبروں کی صفت ہے کہ ان کا ہر لمحہ مثال بنتا ہے ۔جنرل صاحب سب کچھ ہونے کے باوجود ایک انسان تھے او رانسانوں کی کمزوریاں ان میں بھی موجود تھیں انسانوں کی خواہشات ان کے دل میں بھی ہوں گی لیکن ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عام آدمی تھے صدر بن کر بھی انہوں نے خود کو آدمی ہی سمجھا خدا نہیں بنے ان کی زندگی کے مختلف واقعات سے ہٹ کرٗ ان کی عاجزی ٗ انکساری اور ملنساری سے قطع نظر انہوں نے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے جو کچھ کر دکھایا مجاہدین کی جس طرح پشت پناہی کی اور مہاجرین کے لیے جس طرح بانہیں کھول دیں روسی قبضے کے خلاف دنیا بھر میں جس طرح متحدہ محاذ بنایا اور اس کی فوجوں کو جس طرح واپس جانے پر مجبور کردیااس نے جنرل محمدضیاء الحق کو ایک نرالی شان اور نرالی آن بان عطا کردی ہے ۔ ہماری قومی آزادی کو محفوظ بنانے کا شاندار کارنامہ انہوں نے سرانجام دیا اور انکی یہ کامیابی اتنی بھاری ٗ اتنی وزنی اور اتنی بڑی ہے کہ بہت کچھ اس کے نیچے دب جاتا ہے وہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھرتے ہیں کہ تاریخ جس کو سلام کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ۔حدیث مبارک ہے حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ تعالی کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ ارشاد فرمایا وقت پر نماز پڑھنا ٗ والدین سے حسن سلوک کرنا اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے سنا ۔ دو آنکھوں کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ جو خدا کے خوف سے اشکبار ہوئی اور دوسری وہ آنکھ جو اﷲ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی ہو ۔

جنرل محمدضیاء الحق کی شخصیت میں یہ ساری خوبیاں اﷲ تعالی نے ودیعت کررکھی تھیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوجائیں انہیں مرد ہ مت کہو ۔ جنرل ضیاء الحق شہید آج بھی زندہ ہیں کیونکہ انہوں نے زندگی کے ہر لمحے تک پاکستان کی حفاظت کی بلکہ امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے بھر پور کردار انجام دیا۔ بے شمار لوگوں نے انہیں خواب کی حالت میں جنت میں ٹہلتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ رب العزت اپنے نیک بندوں کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا ۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.