کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کل
شام کو ایک مسلح شخص نے پورے میڈیا کی توجہ حاصل کر کے اپنے لئے اور
دوسروںکے لئے ایک بہترین موقعہ فراہم کیا ہے کہ وہ ہمارے نااہل حکمران اور
نا نہاد لیڈروں کو یہ بتا سکے کہ ہمارے ہاں کس قدر قانون کی حکمرانی ہے اور
ہماری حفاظت کرنے والے ادارے اس قدر مراعات حاصل کرنے کے باوجود بھی کچھ
خاص خدمت اس ملک و قوم کے لئے سرانجام نہیں دے رہے ہیں؟ ہمارے سارے سیاست
دان اور حفاظت پر معمور ادارے محض ایک شخص سے خوف زدہ ہو کر وہ اپنے بیوی
بچوں کے ساتھ مسلح ہے تو ہم کوئی انکو جانی نقصان نہ پہنچا دیں اگرچہ یہ
سوچ اچھی تھی مگر جس طرح وقت ضیاع کیا گیا اور جسطرح سے ڈراپ سین واقع ہوا
ہے وہ سب کے پول کھول گیا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں کوئی اس قدر مخلص
نہیں تھا اور نہ ہے کہ ایک شخص کو قابو کرسکے؟
ہمارے نام نہاد صحافی حضرات محض اپنے اپنے ٹی وی کی ریٹنگ زیادہ سے زیادہ
کرنے کے چکروں میں رہے اور بعض نے تو مسلح شخص سے براہ راست بات دکھا کر
قومی خدمت بھی سرانجام دی ہے؟ کہاں ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کوئی
ان سے پوچھے گا کہ بھائی کس لئے یہ سب دکھا رہے ہو،کوئی محض بھارت کے
پروگرام نشر نہ کر کے اپنے لئے اعزاز سمجھ رہا ہے اور کوئی زمرد خان کو
ہیرو بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے چکروں میں ہے؟
کوئی شخص ان عوامل پر کم ہی بات کرنے کی جسارت کر رہا ہے کہ وہ کون سے ایسے
عوامل ہیں جو کہ کسی بھی ایسے شخص کو جو معاشی بدحالی کا شکار ہے کو اس طرح
کے گھناونے فعل میں ملوث کر رہے ہیں یقینا اس میں حکومت وقت برابر کی شریک
ہے؟ ہمارے اندر سے برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔آپ میں سے کئی لوگ
ایسے ہونگے جو کہ ذاتی سواری رکھتے ہونگے،اکثر آپ کی حادثہ ہونے پر فورا سے
دوسرے شخص سے تلخ کلامی شروع ہوئی ہوگی اس میں چاہے آپ کا بھی قصور کیوں نہ
ہو آپ نے ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی ہوگی۔یہ ہمارے معاشرے کی
مجموعی صورت حال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ ہم لوگ ظلم برداشت کرتے
کرتے جب تھک جاتے ہیں تو یوں اسلحہ لے کر اپنے حق لینے کی کوشش کرتے ہیں
بلکہ ایسا ہی بلوچستان میں ہو رہا ہے مگر وہاں تو میڈیا کے نمائندوں کو پر
مارنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی میڈیا وہاں کے حقائق دکھانے کی جسارت
کرتا ہے جیسا لائیو ڈرامہ کل بلو ایریا اسلام آباد دکھایا ہے ویسا وہاں کا
دیکھا دیں تو میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ چھ ماہ سے کم عرصہ میں وہاں
حالات بہتر ہو جائیں گے یا عوام ایسے عناصر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی جہاں کہ
شریف الفنس دکھائی دینے والے سیاست دان بھی تخریب کاروں کی پشت پناہی کر
رہے ہیں؟
زمرد خان میرے نزدیک قومی ہیرو کہلانے کے حقدار نہیں ہیں اگر وہ ہیرو بننا
چاہ رہے ہیں تو عوامی بھلائی کے میدان میں اپنی خدمت گنوایں یوں محض سیاسی
شعبدہ بازی کر کے ہیرو بننے کی کوشش محض اپنے بڑوں سے انعام لینے کا سبب
بھی ہو سکتا ہے ۔ اتنے مانے ہوئے حفاظتی اداروں اور آئی ایس آئی کے ایک عام
شخص اپنی زندگی پر داو پر لگا کر یوں کرتا ہےتو کیوں کرتا ہے کس نے اس کی
اجازت دی ہے یہ بات جلد عوام کو پتا چلنی چاہیے؟ ایم کیو ایم کے نبیل گبول
نے بھی میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی تھی مگر بازی کچھ بھی کہیں زمرد خان
کے ہاتھ میں رہی ہے۔اگرچہ سکندر خان کے بارے میں مکمل تفصیلات آنا باقی ہیں
کہ اس کے اصل مقاصد ایسا کرنے کے کیا تھے ؟
مگر یہ سوال اہم ہے کہ اسلام آباد میں اگر ایسا ایک شخص کر سکتا ہے تو پھر
باقی ملک میں قانون کا نافذ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ؟ حکومت وقت کو ایسے
اقدامات کرنے چاہیں جس سے عوام میں مختلف عوامل سے پیدا کردہ اشتعال کم ہو
وگرنہ کل کوئی اور سر پھر نوجوان انصاف اور حق کے لئے ایسا کرے گا تو پھر
اس کو پاگل یا ذہنی مریض قرار دیا جائے گا یہ انہتائی افسوس ناک بات ہے کہ
ہم ایسا کہہ کر سب چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق او ر
سچ کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین |