KP میں جیل بریک کا واقعہ بھی
بڑا عجیب Episode ھے۔ سو سے زائد افراد گاڑیوں میں بھر کر وزیریستان سے آتے
ھیں۔ ڈیرا اسمائیل خان کی جیل پر ھلا بول دیتے ھیں۔ تمام سرکاری اداروں کو
پہلے سے خبر ھے کہ کسی جیل پر حملہ ھونے والا ھے۔ چند ھنگامی دورے ھوتے ھیں
اور چند میٹنگنز کال کی جاتی ھیں۔ اور پھر سب طرف سے OK کی آواز سنائی دیتی
ھے۔
حملہ والے روز تمام سرکاری اھلکاروں کی گردنیں ریت میں دھنس جاتی ھیں۔ دھشت
گرد جیل توڑ کر نہیں بلکہ جیل کھلوا کر اندر جاتے ھیں۔ قیدیوں کی شناخت
پریڈ ھوتی ھے۔ چند لوگوں کو قتل کیا جاتا ھے اور پھر اپنے پسندیدہ لوگوں کو
جو تعداد میں ٢٥٠ سے زائد تھے کو اپنے ساتھ لے جاتے ھیں۔ جاتے ھوئے بھی
بگلے بھگتوں کی گردنیں ریت میں دھنسی دیکھ کر ھمارے وطن عزیز کے دھشتگرد
بھائیوں نے اپنے بھگتوں کا تہےدل سے شکریہ ادا کرتے واپس اپنی safe haven
میں لوٹ جاتے ھیں۔
دوسری طرف اب آپ دیکھیں ١٥ اگست کا واقع تو وہ بھی کچھ کم عجیب نھیں ھے۔
اسلامآباد کی ایک سڑک پر ایک شخص نے گاڑی کھڑی کی اور ھوائی فائرنگ کرنے
لگا۔ اس کے ساتھ دو بچے اور ایک خاتون بھی ھے جو اس کی بیوی بتائی گئ۔
پولیس اس کے سامنے ھاتھ باندھے کھڑی نظر آئی۔ ایس ایس پی صاحب باادب
مزاکرات کرتے رھے۔ پانچ عصاب شکن گھنٹوں میں ھمارے لاء اینڈ آرڈر کے ذمہ
داران کو پتہ چلا کہ یہ بندہ تو پاگل ھے۔ قوم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس نے
چند مطالبات رکھے ھیں یھاں سے جانے کے واسطے۔ اس نے فرمایا کہ حکومت کو ختم
کیا جائے۔ نئے الیکشن کروا کر اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔
ایسا لگتا تھا جیسے طاھرالقادری پارٹ ٹو لگا ھوا ھے۔۔۔۔ لیکن خیر یہ تو
ویسے ھی ادھر ادھر کی باتیں تھیں اصل بات یہ ھے کہ میرے قوم کو زرہ برابر
بھی فکر کی ضرورت نھیں ھے کیونکہ “قوم کا مستقبل محفوظ ھاتھوں میں ھے“ ۔ بس
یہ طے کرنا باقی ھے کہ یہ ھاتھ ھیں کس کے جن کے ھاتھوں میں ہم محفوظ ھیں۔ |