پاکستان بھارت کشیدگی

پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کے لئے رابطوں کے انتظامات کی صورتحال میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان ریاست کشمیر اور کشمیریوں کی غیر فطری تقسیم پر مبنی کنٹرول لائین کے چند علاقوں میں فائرنگ اور گولہ باری مسلسل کئی دنوں سے جاری ہے۔بھارت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں عسکریت پسندوں کی طرف سے وادی کشمیر میں داخل ہونے کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا ہے اور کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش میں سترہ سے زائد عسکریت پسند بھارتی فوج سے جھڑپوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔آزاد کشمیر کی وادی نیلم سے ملحقہ وادی گریز میں جڑی بوٹیاں اکٹھے کرنے والے چار افراد کو بھارتی فوجی پکڑ کر لے گئے اور بعد میں انہیں ہلاک کر کے ان کی لاشیں کشمیر پولیس کے حوالے کی گئیں۔بھارت کی طرف سے کشیدگی میں اضافے کی وجہ یہ ظاہر کی جار ہی ہے کہ ایک گروپ نے کنٹرول لائین عبور کر کے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں اندر جا کر بھارتی فوج کے ایک گشتی دستے کے پانچ فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔

ان واقعات کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو تیز کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں کو تباہ کرنے اور پاکستان پر قبضہ کرنے کی بھارتی اہلیت کا چرچا کیا جا رہا ہے۔ آئندہ ماہ نیویارک میں وزیر اعظم نواز شریف کی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ملاقات کو پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری میں پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔غور طلب بات ہے کہ پاکستان کے ساتھ جامع مزاکرات کی بحالی اور وزرائے اعظم سطح کی ملاقات کی تیاریوں کے ساتھ ہی بھارتی فوج ،ایجنسیاں اوربھارتی وزارت داخلہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کے ایک ’’خفیہ کشمیر پلان‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے بھارتی قیادت پر زور دے رہے تھے کہ پاکستان سے مزاکرات شروع کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزرائے اعظم ملاقات کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے ’’نئے کشمیر پلان ‘‘ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ سے آزاد کشمیر پر بھارتی فوج کی گولہ باری اور فائرنگ کی مذمت کی قرار داد پر بھارتی پارلیمنٹ نے بھی پاکستان کے خلاف قرار داد منظور کی ہے ۔بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات ہی واحد راستہ ہے۔سلمان خورشید نے کہا کہ مزاکرات جس سطح پر بھی ہوں،اس کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ ممبئی حملے کے حوالے سے بھارت اپنے مطالبے پہ قائم ہے۔بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ کنٹرول لائین پر کشیدگی سے پاکستان کے ساتھ تجارت متاثر نہیں ہو گی۔بھارتی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج نے کہا ہے کہ بی جے پی کنٹرول لائین کے قریب ہلاک ہونے والے پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے پر سیاست نہیں کر رہی اور ساتھ ہی بی جے پی نے پاکستان کے ساتھ مزاکرات بحال کرنے کی مخالفت کی ہے۔ سخت گیر بھارتی جنتا پارٹی آئندہ حکومت میں آنے کے لئے بھارت کو کانگریس سے آزاد کرانے کا نعرہ لگا رہی ہے۔بھارتی پارلیمنٹ ایوان زیریں لوک سبھا کے الیکشن آئندہ سال مئی میں منعقد ہونے ہیں جبکہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ الیکشن مئی سے پہلے ہو جائیں۔سخت گیر ہندووانہ روئیہ رکھنے والی بی جے پی اپنی کھلی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں سے دور ہو چکی ہے ۔

بھارت کے سرکاری حلقوں کے مطابق کشمیر میں حالیہ کشیدگی افغان فیکٹر کے تناظر میں ہے۔ان کے مطابق افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد فتح کی صورت عسکریت پسند کشمیر کا رخ کر سکتے ہیں ۔بلاشبہ دہشت گردی کی طویل لڑائی میں مصروف پاکستان بھارت سے جنگ کی حمایت نہیں کر سکتااور نہ ہی جنگ مسائل کا کوئی حل ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ مئی سے جولائی1999ء تک ہونے والی کرگل کی ’’ پر اسرار لڑائی‘‘ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام کے اس عہد کو سبوتاژ کر دیا گیاجو بھارتی وزیر اعظم نے لاہور مینار پاکستان آ کر وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کیا تھا۔وزیر اعظم پاکستان کے قومی سلامتی کے ایڈوائیزر سرتاج عزیز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے چھہ ہفتے کے اندر کئی اہم اقدامات کئے ہیں جن میں پہلے وزرائے اعظم سطح پہ بات ہوئی،’’بیک ڈو ر چینل ‘‘ سے بات چیت ہوئی،برونائی میں دونوں ملکوں نے گروپوں کی ملاقات کے لئے تاریخیں تجویز کیں اور اس کے بعد امریکہ میں دونوں ملکوں کی وزرائے اعظم کی ملاقات۔سرتاج عزیز نے کہا کہ کشیدگی کے حالیہ واقعات سے معاملات ’’ ڈی ریل‘‘ تو نہیں لیکن مشکلات بہت ہو گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرگل لڑائی سے کشمیر کاز کو شدید نقصان پہنچا۔سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ اگر بھارتی الیکشن میں ’اینٹی پاکستان‘ عناصر کامیاب ہو جاتے ہیں تو صورتحال خراب ہو جائے گی۔

کرگل لڑائی کے دو سال بعد13دسمبر2001ء کو پانچ افراد نے بھارتی پارلیمنٹ پر اس وقت حملہ کیا جب دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری تھے۔اس کے بعد بھارت نے پاکستان سے ملنے والی سرحد اور کشمیر کی کنٹرول لائین پہ بڑی تعداد میں فوج اکٹھی کر لی اور پاکستان پر اچانک حملوں کی منصوبہ بندی کی۔سرحد اور کنٹرول لائین پہ کئی ماہ بھاری فوجی جماؤ کے بعد بھارت نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی طرف سے کشمیر اور عسکریت پسندوں سے متعلق کئی یقین دہانیوں کے بعد حملے کی غرض سے جمع ا پنی فوج کو سرحد سے ہٹایا۔اس کے بعد صدر پرویزمشرف نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پسپائی پر مبنی اس پالیسی کا آ غاز کیا جس نے دیرینہ سنگین مسئلہ کشمیر سے متعلق صورتحال کو بھارت کے حق میں بہتر بنایا ۔اسی دور میں بھارت نے کشمیر کی کنٹرول لائین(سیز فائر لائین) پر خار دار تاروں کی باڑ کی تنصیب مکمل کر کی۔

1984میں بھارتی فوج نے ’’ آپریشن مگھدوت‘‘ کے نام سے گلگت بلتستان کے ضلع گھانچے میں واقع 70کلومیٹر(43میل)طویل،ایک ہزار مربع میل محیط سیاچن گلیشئر کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور اب تک بھارت اس علاقے پہ بدستور قابض ہے۔سیاچن کے بڑے علاقے پر قبضے کے بعد1986-87ء میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک بڑا جنگی منصوبہ تیار کرتے ہوئے اس پر عملدر آمد بھی شروع کر دیا۔ بھارت بظاہر ’’براس ٹیک‘‘ کے نام سے پاکستان کے صوبہ سندھ کے ساتھ زمینی و سمندری علاقے میں طویل جنگی مشقیں کر رہا تھا لیکن اس کا اصل مقصد گلگت بلتستان کے تمام علاقے پر قبضہ کرنا تھا۔ انڈین آرمی کی ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل پی این ہون اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’’ براس ٹیک ملٹری مشقیں نہیں بلکہ پاکستان کے خلا ف چوتھی جنگ کی صورتحال پیدا کرنا تھااور وزیر اعظم راجیو گاندھی ان فوجی مشقوں کی وسعت کے منصوبوں سے آگاہ نہیں تھے‘‘۔بھارت کے’’ آپریشن براس ٹیک‘‘میں چار لاکھ فوجی پاکستان کے صوبہ سندھ اور کراچی وغیرہ پر حملہ آور ہونے کو سرحد کے قریب ہوئے۔ یہ جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بڑی فوجی نقل وحرکت تھی۔بھارت کے مطابق ’’ آپریشن براس ٹیک ‘‘ کا مقصد پاکستان کولڑائی کے لئے اکسانا تھا۔جبکہ حقیقت میں ’’آپریشن براس ٹیک ‘‘ کا جھانسہ دیکر گلگت بلتستان پر سر پرائیز حملہ کرتے ہوئے قبضے کا ’’ آپریشن ترشول‘‘(ٹرائیڈنٹ) کا منصوبہ تھا۔انڈین دفاعی تجزئیہ نگار روی ریکھے اپنی کتاب ’’ دی وار ڈیٹ نیور واز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آپریشن ’’ براس ٹیک‘‘ بظاہر سندھ پر حملے کا منصوبہ تھا جبکہ اصل میں اس کی آڑ میں گلگت بلتستان پر ’سرپرائیز‘ حملہ کرتے ہوئے قبضہ کرنے کا آ پریشن ترشول (ٹرائیڈنٹ) کا منصوبہ تھا۔روی ریکھے لکھتے ہیں کہ سکردو ،استور اور گلگت پر بیک وقت اچانک حملے اور قبضے( سرپرائیز اٹیک) کے لئے لیہ اور کرگل میں کئی برگیڈ فوج پہنچا دی گئی تھی۔پاکستان کو اس منصوبے کا علم ہو گیا اور پاکستان نے راتوں رات ہنگامی پروازوں کا انتظام کر کے دو برگیڈ فوج علاقے میں پہنچا دی جس سے بھارت کا’سرپرائیز‘ حملے کا’’ آپریشن ترشول‘‘ ناکام ہو گیا۔1987ء میں اسی صورتحال میں پاکستان نے سفارتی و دیگر ذرائع سے یہ پیغام پہنچایا کہ بھارت سے جنگ کی صورت پاکستان ایٹم بم استعمال کرے گا۔

یقینی طور پر موجودہ عوامی حکومت مشرف کی بے فائدہ بلکہ نقصانات پر مبنی کشمیر پالیسی پر عمل پیرا نہیں رہ سکتی۔ بھارت کو پاکستان کی اس بدلتی کشمیر پالیسی پر بہت پریشانی ہے کیونکہ بھارت سمجھتا ہے کہ صدر مشرف اور صدر زرداری کے دور تک بھارت کو کشمیر میں حاصل’’ فری ہینڈ‘‘ کی صورتحال اب ’’ ڈسٹرب ‘‘ ہونے کو ہے۔اس عرصہ میں بھی بھارت کشمیریوں کو بات چیت کے بجائے فوجی و ریاستی طاقت کے ظالمانہ استعمال سے ’’ڈیل ‘‘ کرتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گہری دشمنی کے محرکات اور عوامل سامنے ہیں اور اسی سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ دونوں ملکوں کی باہمی خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش اور کوششیں ’’ سپانسرڈٖ‘‘ ہیں۔امریکہ جہاں ہمیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے
کے محرک کے طور پر نظر آتا ہے وہاں کئی واقعات اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ سمیت کئی ممالک پاکستان بھارت دشمنی کو اپنے مفادات کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور اس میں دونوں ملک آسانی سے استعمال بھی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں تو اس بات کو محسوس کیا جاتا ہے لیکن بھارت اپنے اداروں کی مضبوطی کے دعوے کے ساتھ اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699346 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More