وہی ہوا جو ہمیشہ سے پاکستان میں
ہوتا آیا ہے۔ اسلام آباد کے واقعہ کے پیچھے بھی لوگوں نے سازش اور خفیہ
ہاتھ تلاش کرنا شروع کر دیا اور کچھ لوگوں نے تو باقاعدہ کہانیاں بھی بنا
لیں ہیں۔ انھیں میں سے ایک تازہ کہانی میں نے ابھی پڑھی جس کے بعد میں یہ
لکھنے پر مجبور ہوا۔ کہانی یہ ہے کہ یہ سارا ایک ڈرامہ تھا جس کا ڈائرکٹر
رحمان ملک، پروڈیوسر آصف زرداری، ہیرو زمرد خان اور ولن سکندر تھا جس کو اس
ڈرامہ کے ایک ملین روپے دیے گئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی
ایک بہت بری روایت بن چکی ہے کہ ہم ہر بات کے پیچھے کسی نہ کسی کی سازش
تلاش کرتے ہیں۔ کبھی را کی، کبھی موساد کی، کبھی سی آئی اے کی کبھی خود
اپنی آئی ایس آئی کی اور کبھی میڈیا کی۔ اس سب سے ہمارے سوچنے سمجھنے اور
عمل کرنے کی صلاحیت بلکل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر واقعہ کے بعد اس کا ذمہ
دار کسی سازش یا بیرونی ہاتھ کو قرار دے کر عوام کو خاموش کروادیا جاتا ہے
اور عوام بھی اب اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ بس سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا فارغ
ہے اور ہمارے خلاف ہی سازشوں میں لگی ہوئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان
کے حالات خراب کرنے میں کوئی بھی بیرونی قوت نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں
کہ اصل مسئلہ ہمارے اندر ہے۔ جب ہم اندر سے کمزور ہو تب ہی باہر سے کوئی
حملہ آور ہونے کی جرآت کر سکتا ہے۔ اب اس واقعہ کو ہی لے لیں اس سے جو چیز
سیکھنے والی تھی وہ یہ کہ ہماری سیکورٹی اتنی فول پروف نہیں کے وہ کسی
اسلحہ بردار کو چیک کر کے روک سکے، اس کے بعد ہمارے پاس کوئی سینڑل کمانڈ
دکھائی نہیں دے رہی تھی کہ اس معاملہ کو کیسے حل کرنا ہے، تیسرا ہمارے پاس
ایسے آلات بھی نہیں تھے کہ اس کو بیہوش کیا جا سکے حتٰی کہ سنائپرز کو بھی
دوسرے شہر سے منگوانا پڑا۔ ایک اور سیکھنے اور سدھارنے کی بات یہ تھی کے
میڈیا کو رول انتہائی منفی تھا اور اس کی کوئی حدود مقرر ہونی چاہیے۔ بجائے
یہ کہ ہم ان باتوں کی طرف غور کریں اور ان کو سدھارے کے کوئی اقدامات
اٹھائیں، ہم نے ایک بار پھر سازشی ہاتھوں کو تلاش کرنا شروع کردیا۔ کسی بھی
ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے پہلا زینہ ہوتا ہے اپنی ناکامی کو تسلیم
کرنا۔ اگر ہم ہر ہار کے بعد اس کو ذمہ دار دوسروں کو ٹھراتے رہیں گے تو پھر
ہم ناکام ہی ہوے رہیں گے اور سازشیں تلاش کرتے رہ جائیں گے۔ آخر میں ان
لوگوں سے جو کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک ڈرامہ تھا ان سے چند سوال:
١۔ اگر یہ ڈرامہ تھا تو اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اس
سے پیپلز پارٹی زندہ ہو جائے گی تو یہ انتہائی حد تک احمقانہ ہے۔
٢۔ اگر یہ ڈرامہ تھا تو کیا کیپٹل پولیس، رینجرز، ایف-سی اور مسلم لیگ نون
سے تعلق رکھنے والی انتظامیہ بھی اس کی حصہ دار تھی کہ انھوں نے پانچ گھنٹے
زمرد خان کے آنے کا انتظار کیا؟
٣۔ اگر نون لیگ بھی اس ڈرامہ کا حصہ تھی تو اس کو کیا فائدہ ملے گا؟
٤- سکندر اسلامک لاء کو لاگو کرنے کی ڈیمانڈ کر رہا تھا اور دوسری طرف آپ
کہہ رہے ہیں کہ اس کا ڈائرکڑ رحمان ملک اور زرداری ہیں؟
٥۔ کیا اس ڈرامہ کو بنانے والوں کو اس حد تک یقین تھا کہ تحقیقات میں سکندر
ہمارا راز افشاء نہیں کرے گا؟
٦- کیا سکندر اتنا ہی پاگل تھا کہ اس نے اس ڈرامہ کے لیے اپنے بیوی بچوں کی
جان خطرے میں ڈالی؟ اگر ڈرامہ ہی تھا تو اور لوگوں کو بھی یرغمال بنایا جا
سکتا تھا۔
٧- اگر آپ کہتے ہیں کہ اس کا فائدہ زمرد کو ہوا تو رائے عامہ کو جان لیجیے
جتنے لوگ زمرد خان کو بہادر کہہ رہے ہیں اس سے زیادہ لوگ بیوقوف بھی قرار
دے رہے ہیں۔
لوگوں کو کنفیوز کرنا اور ڈس انفارمیشن پھیلانا بند کردیں بغیر تحقیق کے
کوئی بات آگے پہنچانا ایک گناہ اور جرم ہے۔ |