کیا یہ طالبان ہیں

طالبان کے پاس امریکی اسلحہ کہاں سے آیا

جوں جوں آپریشن راہ راست تیز ہورہا ہے۔ عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوات کے عوام کے قافلے اب ہر جگہ امن کی تلاش میں ہیں۔ پاکستانی عوام اپنے فوج سے بجا طور پر توقع کر رہے ہیں کہ وہ انہیں طالبان کے ظلم سے بچائیں گی اور بہت جلد وہ اپنے گھروں کو جا سکیں گے۔ ابھی تک طالبان کی قیادت یا ان کے کسی اہم رہنما کی گرفتاری یا ہلاکت کی خبر نہیں آئی ہے۔ حکومت نے تحریکِ طالبان سوات کے کمانڈر مولانا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر انعام کی رقم میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مولانا فضل اللہ کے سر پہ مقرر کی گئی رقم 50 لاکھ سے بڑھا کر پانچ کروڑ روپے کر دی گئی ہے، جب کہ مسلم خان اور شام دوران سمیت ان کے نائب اور دیگر ساتھیوں کو گرفتار کرنے پر انعام کی رقم ایک ایک کروڑ مقرر کی گئی ہے۔ اس رقم میں اضافے کا باعث حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے سوات کے طالبان کا ہاتھ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے قبل لاہور میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ سوات میں ہونے والے فوجی آپریشن کے جواب میں کیا گیا تھا۔ لاہور کے حالیہ خودکش حملے کی ویڈیو کو دیکھنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور بے حد تربیت یافتہ اور لاہور میں سری لنکا کی ٹیم اور پولیس لائن پر ہونے والے حملے سے بڑی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب سوات میں جو طالبان سرگرم ہیں ان کی کاروائیوں کی ایسی ہولناک وڈیوز بھی انٹرنیٹ پر دیکھی جارہی ہیں ۔ جن کو دیکھ کر یہ شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں کہ کیا یہ لوگ واقعی طالبان ہیں یہ ان کے پردے میں کوئی اور کھیل رہا ہے۔ انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرنا ایک درندگی ہے۔ طالبان کی قید سے فرار حاصل کرنے والے پاک فوج کے ایک میجر نے ان طالبان کو بے حد قریب سے دیکھا ہے ۔ میجر بصیرت نے جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو 2007 میں آپریشن راہ حق شروع ہونے سے چند روز قبل اس وقت طالبان شدت پسندوں نے کبل بازار سے گھات لگا کر اغوا کرلیا تھا جب وہ علاقے میں سے وہاں سے گزر رہے تھے۔ طالبان جنگجووں نے انہیں فوری طور پر مٹہ منتقل کر دیا جہاں ان سب کو 24 دنوں تک قید میں رکھنے کے بعد شدت پسندوں کے ہیڈ کوارٹر پیوچار لے جایا گیا۔ میجر بصیرت نے بتایا کہ اس دوران عسکریت پسند حکومت سے ان کی رہائی کے بدلے دو کروڑ روپے نقد اور اپنے 46 ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ حکام ان مطالبات کو اس لیے نہیں مان سکتے تھے کیونکہ جن شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا انہیں بڑی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ میجر بصیرت نے بتایا کہ جب طالبان کو یہ یقین ہو گیا کہ حکومت ان کے مطالبات نہیں مانے گی تو ایک شام قید خانے میں آکر انہیں اور ان کے ساتھیوں کے پیغام دیا گیا کہ شوریٰ نے سب قیدیوں کو گولی مار کر یا پھر ذبحہ کر کے قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس پر آئیندہ دو سے تین روز میں عملدرآمد کیا جائے گا۔ لیکن جب ایک شام طالبان نے میجر بصیرت اور ان کے ساتھیوں کو بتایا کہ اگلی صبح انہیں ذبح کردیا جائے گا تو ان سب نے طالبان کی قید سے ہر قیمت پر فرار ہونے کا فیصلہ کیا اور ہم فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن آدھے گھنٹے بعد یہ خبر پہنچ گئی اور انہوں نے ہمار ا پیچھا شروع کردیا۔ “ میجر بصیرت نے بتایا کہ عسکریت پسندوں سے چھپتے چھپاتے پوری رات وہ اور ان کے ساتھی سخت سردی میں محض شلوار قمیض اور چپلوں میں جان بچانے کے لیے بھاگتے رہے۔”چوہے بلی کا یہ کھیل اگلی صبح تک جاری رہا اور بالآخر تقریبا 40 کلو میٹر تک مسلسل بھاگنے کے بعد صبح ساڑھے چھ بجے ہم سب ساتھی کبل میں قریب ترین فوجی کیمپ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جو اللہ کا ایک معجزہ تھا“۔ طالبان کی قید میں اپنے ایام کا ذکر کرتے ہوئے میجر بصیرت کہتے ہیں کہ ”ہر روز لگتا تھا کہ آج ہماری زندگی کاآخری دن ہوگا کیونکہ ان کے ظالمانہ اور خوفناک رویوں کو دیکھتے ہوئے اور جس انداز میں وہ ہمارے سامنے دوسرے قیدیوں کو روزانہ گولیاں مارتے انہیں ذبح کرتے تھے وہ لمحات انتہائی پریشان کن اور اعصابی تناؤ کا باعث تھے باوجود اس حقیقت کے کہ فوجیوں کے لیے یہ صورت حال نئی نہیں ہوتی۔“ تین مرتبہ موت کے منہ سے بچ کر واپس آنے والے میجر بصیرت کا کہنا ہے کہ ان کے افسران نے سوات میں ایک بار پھر ان کی ڈیوٹی لگانے سے پہلے جب ان سے سوال کیا کہ کیا وہ اب بھی اس پیشے میں رہنا چاہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ پشتون قبیلے اورکزئی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ہار ماننا روایات کے منافی ہے۔”لیکن میرے ساتھ جب سے یہ واقعات پیش آئے ہیں اللہ تعالیٰ پر میرا ایمان اور بھی پختہ ہوگیا ہے کہ واقعی زندگی دینے اور لینے والا صرف اللہ ہے“۔ لیکن جو طالبان شدت پسندی ترک نہیں کرتے انہیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست ہمیشہ فتح یاب ہوگی کیونکہ اس کے پاس لامحدود وسائل ہوتے ہیں۔ طالبان کے ظلم اور تشدد آمیز کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اہم ہیں کہ عسکریت پسندوں کو اسلحے اور پیسے کی فراہمی کون کر رہا ہے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس ضمن میں میڈیا کو بتایا ہے کہ ڈرگ مافیا ان جنگجوؤں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور حکومت وقت آنے پر حقائق قوم کے سامنے لائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان کے سیکورٹی ادارے اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے پاس سے جدید اور بیرونی ساخت کا اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ اس بارے میں پاکستان کے سابق سیکریٹری جنرل فارن افئیرز اور ممتاز تجزیہ کار اکرم ذکی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے زیرلب اشاروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کا ازالہ کرے اور مبینہ طور پر افغانستان سے اس اسلحے کی پاکستان سمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے ۔ امریکی ذمے داروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ اسلحہ افغان فوجوں کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس اسلحے کا طالبان کے پاس آنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ جس کا جواب ملنا ضروری ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418913 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More