اسلام آباد میں زمرد خان کے ہاتھ
اور پاؤں کی بدولت سکندر کے اپنے انجام تک پہنچنے کے حوالے سے پنجاب کے
سنیئر وزیر رانا ثنا اللہ کہتے ہیں زمرد خان نے کوئی ہمت والا کام نہیں کیا
بلکہ حماقت کا مظاہرہ کیا ہے۔اسلام آباد پولیس نے بھی صحیح طرح ہینڈل نہیں
کیا واقعہ لاہور میں ہوتا تو فوری طور پر قابو پالیتے۔پانچ گھنٹوں میں
سکندر پر قابو پانے کے پانچ سو مواقع تھے پانچ گھنٹوں بعد جو ہوا وہ پہلے
ہی ہو جاتا ۔
رانا ثنا اللہ کے بیانات پڑھ کر پنجاب کے سابقہ سنیئروزیر راجہ ریاض اور ان
کی ’’انگریجی‘‘ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے جو کہ رانا صاحب کے کسی بھی
بیان کو کو خالی نہیں جانے دیتے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم سٹار میرا
نے انگریزی کی ’’درستگی‘‘ کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے حتی کہ میرا کا دعوی ہے کہ
ایک انگلش ایمبیسی نے ان کے انگریزی کے لب ولحجہ کی بے حد تعریف کی ہے ۔ان
کی انگلش دانی سے متاثر ہو کر ایمبیسی نے ان کا ویزہ اسی وقت او کے کر دیا
بلکہ ان کے ساتھ عملے نے تصاویر بھی بنوائیں ۔ مگر کہاں میرا کی اٹکتی
انگلش اور کہاں راجہ صاحب کی دشمن کی نگاہوں میں کھٹکتی ہوئی انگلش ۔اگر
رانا ثنا اللہ نے وفاقی حکومت یا گورنر کے خلاف دھرنے کا پروگرام بنایا ہے
تو راجہ ریاض نے ان کے دھرنے کو ’’ دھرنی ‘‘کا نام دیتے ہوئے پنجاب حکومت
کے خلاف دھرنے دینے کا نہ صرف اعلان کرتے بلکہ اان کے ’’جثے اور غصے ‘‘ سے
محسوس ہوتا کہ دھرنا شروع ہو چکا ہے۔ اب رانا ثنا اللہ ہیں اور دور دور تک
ان کے لئے میدان صاف ہے ۔
رانا ثنا اللہ کا یہ کہنا کہ اگر یہ واقعہ لاہور میں ہوتا تو فوری طور پر
قابو پالیتے۔پنجاب میں قانون کی جہاں تک حکمرانی ہے میڈیا میں مختلف واقعات
رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ۔جو کہ ایک سوالیہ نشان کی صورت میں تاریخ کا حصہ بن
جاتے ہیں ۔سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ایسے واقعات ہوں گے جن کو
عموماً معمولی خیال کر لیا جاتا ہے کیونکہ قانون کے اداروں کے پاس عوام کے
لئے وقت ہی نہیں جہاں گورنر اور سابق وزیر اعظم کے بیٹے دن دیہاڑے اغوا کر
لئے جائیں ۔اور کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کو بازیاب نہ کروایا جا
سکے وہاں واقعی ایسے واقعہ پر فوری قابو پایا جا سکتا تھا۔شائد اسلام آباد
کی پولیس کو فری ہینڈ نہیں ملا تھا یا میڈیا کے خوف نے پولیس کو فری ہینڈ
استعمال نہیں کرنے دیا ورنہ پولیس کے لئے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
ہمت اور حماقت دونوں ’’حے ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں لیکن حماقت کی ’’ح‘‘ حلوہ
والی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ حلوہ اور چوری کھانے والے کبھی بہادر نہیں ہو
سکتے ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ذہین آدمی عموماًبزدل ہوتا ہے کیونکہ وہ
کسی بھی مسئلے کو مسئلہ فیثاغورث یا دیگر رائج مسئلوں کی مدد سے حل کرنے کی
کوشش کرتا ہے جس سے بعض اوقات وہ ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھاتا ہے۔ہمارے
جائیداد سے متعلقہ کچھ معاملات میں فریق ثانی نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا
تھا میں نے ایک پیشی پر اپنے وکیل سے کہا ’’وکیل صاحب ! میں فریق ثانی سے
تنگ آ چکا ہوں کیا خیال ہے اس پیشی پر اگر میں اس کی ٹانگوں میں فائر مار
کر اس کی ٹانگیں ضائع کر دوں تو مجھ پر جرم کی کون کونسی دفعات لگ سکتی ہیں
اور ان کی سزا کتنی ہو گی‘‘وکیل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جناب ! جنہوں
نے کچھ کر نا ہوتا ہے وہ ان دفعات یا سزا کے چکر میں نہیں پڑتے کر گزرتے
ہیں‘‘اس بونگے واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ذہانت مجھ نا چیز میں کوٹ کوٹ
کر بھری ہوئی ہے۔
سکندر نے شائد ہالی اور بالی وڈ کی فلموں کا بغور مشاہدہ کیا ہے جبھی تو اس
نے اپنے خاص مقصد اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے وفاقی دارلحکومت کے ریڈ زون کے
قریب اپنا سٹیج سجانے کی کوشش کی جس میں وہ ساڑھے پانچ گھنٹے کام یاب بھی
رہا ۔کیونکہ جوں ،جوں وقت گزرتا گیا اور اسے یقین ہوتا گیا کہ چینلز اس کو
لائیو کوریج دے رہے ہیں اس کے لہجے کی پختگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔نہ
جانے کونسے نشے کا یسا اثر تھا کہ اس کی خیال میں حکومت اس کے تمام مطالبے
مان لے گی ابھی کوئی ہیلی کاپٹر اس کے قیدی بیٹے کو لے کر آئے گا اور وہ اس
ہیلی کاپٹر میں یہاں سے دور یہ سماج چھوڑ دے گا۔ ایک نجی چینل کے نیوز
کاسٹر کے بچوں کے چھوڑ دینے کے سوال پر اس نے جواب دیا کیوں چھوڑ دیں تاکہ
وہ اینکر بن جائیں جبکہ ایک بہت ہی سنئیر اینکر و کالم نگار کو وہ تو،تو
کرکے مخاطب کرتا رہا اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرتا رہا جس سے اس کی
ذہنی پس ماندگی کا پتہ چلتا تھا۔سکندر چاہتا تو بڑی آسانی سے نبیل گبول کو
اپنے مقاصد کے حصول کے لئے یرغمال بنا سکتا تھا مگر شائد اس کے پاس اتنا
کھانے کا سامان وافر نہیں تھا ۔
ان حالات میں سابق وزیر داخلہ کو بھی بہت یاد کیا گیا کرنا ،کرانا انہوں نے
بھی کیا ہوتا تھا وہ موقع پر پہنچ ضرور جاتے تھے چند چھلانگیں لگاتے اور
سچویشن کے مطابق دہشت گردوں کے اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب ہونے پر میڈیا
کو ’’کیٹگورکیلی‘‘کی گردان کے دوران نہ جانے کیا سمجھانے کی کوشش کرتے۔
پاکستان شاپر پارٹی کے جنرل سیکریڑی ’’بونگے‘‘ کے خیال میں پولیس نے یوں
وہاں قناتیں لگانا شروع کر دیں تھیں جیسے وہاں سکندر کھانا تقسیم کرنے والا
ہو یا قناتیں بلٹ پروف ہوں ۔حالانکہ اگر اس کو زخمی کرکے ہی پکڑنا تھا تو
اس کے مواقع تو سکندر نے کافی فراہم کئے تھے ۔شائد پولیس اس کو سوتے میں
پکڑنا چاہتی تھی ۔چپ چاپ جب سب تھک کر سو جاتے تو اس کو سوتے میں گرفتار
کرنے کا مزہ ہی آ جاتا جب وہ سوتے میں ہڑ براتا اور خوف سے پوچھتا کون ہے ،کون
ہے۔۔؟
پاکستان میں بہت سے ’’ہلکے ‘‘ زمرد خان کے اس عمل کو حماقت سے تعبیر کر رہے
ہیں زمرد خان کا یہ عمل ہمت ہے یا حماقت اس سے قطع نظر ان کی بہادری کو
کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیئے۔ورنہ بہت سے یہی کہہ رہے ہیں یہ تو ایسا مشکل
کام نہیں تھا جیسے ایک سرکس میں شیر کے ساتھ مختلف کرتب دکھاتے ہوئے آخر
میں خاتون نے اپنے ہونٹوں میں بسکٹ دبا کر شیر کے آگے منہ کیا تو شیر نے اس
کے ہونٹوں سے وہ بسکٹ لے کر اپنے ہونٹوں میں دبا لیا ۔خاتون نے یہی عمل
دوبارہ دھرایاتو ہال میں موجود ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا ’’یار ،یہ تو
کوئی مشکل کام نہیں یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں ‘‘
’’کونسا کام یہ جو خاتون ہونٹوں میں بسکٹ دبا کر شیر کو کھلا رہی ہے ۔یہ تم
کر سکتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’نہیں،نہیں یہ نہیں،یہ جو شیر کر رہا ہے یہ کام کر سکتا ہوں‘‘۔*** |