روشنیوں کے شہر کے ایک سو چھوٹے
بڑے قبرستان ہیں جو اتنے زیادہ بھر گئے ہیں کہ اب وہاں مزید داخلوں کی
گنجائش نہیں رہی۔ حالات اس قدر ابتر ہیں کہ پرانی قبروں میں نئی میتیں دفن
کی جارہی ہیں۔ گہری نظر سے جائزہ لیاجائے تو ہم ہر جگہ ایسی ہی مثالیں قائم
کرتے رہتے ہیں۔ بسوں اور ٹرینوں کو دیکھ لیجیے، لوگ ایسی ویسی جگہوں پر بھی
یوں چمٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے گُڑ کی ڈلی پر مکھیاں۔ ان کا بس چلے تو وہ فرش
کے نیچے بھی بیٹھنے کی جگہ پیدا کرلیں۔ ہماری جیلوں کا یہی حال ہے۔ جیلوں
پر جیلیں بھرتی چلی جارہی ہیں اور قیدی بھی اسی رفتار سے جوق در جوق چلے
آرہے ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان کا بندوبست ہے۔ اسپتالوں میں غریب مریضوں کے
لیے جگہ نہیں ہے، معیاری اسکول کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ ہاں، اگر اندر کے
کسی آدمی کو ’’خوش‘‘ کردیاجائے تو اچھے سے اچھی جگہ نکل آتی ہے۔ اب قبروں
کے لیے بھی سفارش درکار ہے۔ بات قبرستان سے شروع ہوئی تھی۔ بعض قبرستان
جرائم پیشہ اور نشہ بازوں کا رین بسیرا ہیں۔ ان کا ہر کام مستقل بنیادوں پر
بلا روک ٹوک چلتا رہتا ہے۔ بس ذرا ’’دوستوں‘‘ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر
ہر جگہ اندھی نہیں چلتی، کبھی کبھی چوروں کو بھی مور پڑ جاتے ہیں۔ حیدرآباد
پولیس نے ایک قبرستان پر چھاپہ مار کر تین افراد کو گرفتار کرلیا۔ ان کے
قبضے سے کچھ ہتھیار بھی برآمد ہوئے۔ ایس ایچ او صاحب کے بیان مطابق ملزمان
قبرستان میں بیٹھ کر کسی جرم کی منصوبہ بندی کررہے تھے، لیکن انہیں اس قبیح
حرکت کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوگئے۔
قانون تو یہ ہے کہ جرم اس وقت تک جرم نہیں گردانا جائے گا جب تک کہ وہ وقوع
پذیر نہ ہوجائے۔ صرف سوچنے اور خیالی پلائو پکانے پر کسی کو سزا نہیں دی
جائے گی۔ بہرحال ایس ایچ او صاحب سے انجانے میں ایک اچھا کام ہوگیا۔ اگر
پولیس اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہے اور بری نیت رکھنے والوں کو
قبل از وقت گرفتار کرکے اندر کردے تو یہ بے نظیر ملک بہت جلد جنت نظیر بن
جائے گا۔ برطانیہ کی تازہ خبر سنیے۔ وہاں جگہ کی کمی کے باعث اب دو منزلہ
قبریں تیار کی جائیں گی۔ ڈیلی گراف کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ میں لوگ
پرانی قبروں کے کتبے ہٹا کر نئے کتبے لگا رہے ہیں۔ چناں چہ حکام نے فیصلہ
کیا ہے کہ ڈبل ڈیکر قبرستان بنانا ضروری ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں
ہر سال 6 لاکھ قبروں کی ضرورت ہوتی ہے اور آئندہ30 سال میں ایک انچ زمین
بھی باقی نہیں رہے گی۔ گویا 30 سال تک تو انہیں کوئی خاص پریشان نہیں ہوگی۔
یہ سب ان کی پیش بندی کا کمال ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں کچھ نہ کچھ
سوچتے رہتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ جب مصیبت نازل ہوجاتی ہے، تب کچھ سوچنے کا
تکلف کرتے ہیں اور اس سوچ بچار میںمزید قیمتی وقت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔
لیکن مصر میں تو کئی منزلہ قبروں کا رواج پہلے سے ہے۔ قبرستان عموماً تہہ
خانے میں ہوتا ہے جہاں ٹرینوں کی برتھ کی طرح اوپر تلے برتھیں ہیں جن پر
تابوت رکھ دیا جاتا ہے۔ گویا مرنے کے بعد بھی قبر کی مٹی نہیں ملتی۔ یہ مصر
وہی ملک ہے جہاں کبھی ایک آدمی کے لیے سیکٹروں ایکڑ پر محیط قبر بنائی جاتی
تھی اور اب تک یہ قبریں موجود ہیں جنہیں اہرام کہتے ہیں۔ لوگ دور دور سے
قبریں دیکھنے آتے ہیں، لیکن اس قبر میں لیٹنے کے لیے فرعونیت درکار تھی۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بھی سہ منزلہ اور چہار منزلہ قبرستان بنانے لگ
جائیں۔ بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو ٹھیکے دے دیے جائیںکہ وہ آبادی سے دور
ایک عظیم الشان شہر خموشاں بسائیں اور اسے مردوں سے آباد کریں۔ روزگار کے
نئے مواقع پیدا ہوں گے اور زندہ لوگوں کی زندگی میں بھی بہار آجائے گی۔
خاندان کے افراد باقاعدہ پر وگرام بناکر اپنے پیاروں کی قبروں کی زیارت اور
فاتحہ خوانی کے لیے جایا کریں گے۔ صبح گئے اور شام کو لوٹ آئے۔ بچوں کی بھی
تفریح ہوجائے گی، خوب ہلا گلا رہے گا۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ بھری پری
بستیوں کو قبرستان بنایا جائے۔ اب ذرا امریکاکی طرف چلتے ہیں۔ یہ امریکی
بھی عجب قوم ہیں، ذرا نچلے نہیں بیٹھتے، ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی فکر
میں لگے رہتے ہیں۔ ایک امریکی کمپنی نے چاند پر قبرستان بنانے کا اعلان
کردیا ہے۔ کمپنی کے سربراہ کے بیان کے مطابق اب تک پانچ ہزار افراد نے چاند
پر دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے ایک دانش ور جناب اے ایچ
خیال نے اپنا نادر خیال ظاہر کیا ہے کہ جب کوئی بڑا پاکستانی مرجائے تو اس
کا مقبرہ اس کی لوٹ کھسوٹ کے شایان شان ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں ایسے بڑے
لوگوں کی کمی نہیں، بلکہ روز بہ روز ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ایسے
لوگوں کو چاہیے کہ امریکی کمپنی کے ذریعے اپنے لیے ایک بڑا قطعہ ’’چاند
قبرستان‘‘ میں ابھی سے محفوظ کروالیں۔ زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ ایسے لوگ ابھی
سے چاند پر بھیج دیے جائیں تاکہ ان کی الاٹ کردہ قبر پر کوئی اور قبضہ نہ
کرلے۔ یقین کیجیے، ایسا ہوگیا تو یہ ملک بھی چاند کی طرح روشن ہوجائے گا۔ |