وزیر داخلہ چودھری نثار نے سکیورٹی پالیسی اور سکیورٹی
ایجنسیوں کی کارکردگی سے متعلق اپنی پریس کانفرنس میں شاید پہلی مرتبہ
حقائق کو خود جاننے کے بعد وہ سچائی میڈیا کے سامنے رکھی جس سے ہمارے بعض
بزعم خویش میڈیائی پہلوان بوکھلا کر رہ گئے اور کل تک جس چودھری نثار کے
ساتھ (جب آپ اپوزیشن لیڈر تھے) مل کراپنا مخصوص بینڈ بجایا کرتے تھے آج ان
پر محض اس جرم میں حملہ آور ہوئے ہیں کہ چودھری نثار احمد نے یہ کیوں کہا
کہ آپ بھی انڈین میڈیا کی طرح کم از کم اپنی فوج کی حوصلہ افزائی تو کر دیا
کریں۔
چودھری صاحب جب اپوزیشن لیڈر تھے تو خصوصاً جنرل پاشا کے حوالے سے ان کے
ذاتی خیالات اور نظریات نے خاصی دھوم مچائی تھی اور یہ سمجھا جانے لگا تھا
کہ آپ بھی شاید ”سیفما” میں شامل ہو گئے ہیں لیکن اس خاکسار نے تب بھی یہی
لکھا تھا کہ چودھری نثار بھی اس گھنائونے پراپیگنڈہ کا شکار ہیں جو کچھ
میڈیا کے زرخرید بھونپو ان دنوں زور شور سے پھیلا رہے تھے چونکہ ان کا تعلق
ایک عسکری گھرانے سے ہے جب وہ امور مملکت سنبھالیں گے تو ممکن ہے اپنے ماضی
کے کچھ بیانات پر انہیں افسوس ہو… اور ایسا ہی ہوا۔
چودھری نثار نے جب سمندر کے اندر اتر کر اس کی گہرائی کو ماپا تو جانا کہ
اس طوفانی یلغار میں تو اپنے قدم جمائے رکھنا ہی سب سے بڑی بہادری ہے۔
انہوں نے دل کی گہرائیوں سے ان عظیم قربانیوں کا احساس کیا جو سکیورٹی
ایجنسیاں اور آرمڈ فورسز کے جوان اور افسران دے رہے ہیں۔ ان میں ایسے جان
لیوا معرکے بھی شامل ہیں جن کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آسکتیں اور کئی
گمنام ہیرو انہیں انجام دیتے ہوئے منوں مٹی تلے دب گئے ہیں۔ شاید ان کے
پیاروں کو بھی ان مکمل معلومات تک رسائی نہ ہو لیکن ملک کے وزیر داخلہ کے
علم میں ان قربانیوں کی تفصیل ضرور آگئی ہو گی۔ انہوں نے اسلام آباد پولیس
کو خصوصاً عید کے روز ہونے والی دہشت گردی روکنے پر خصوصی خراج تحسین پیش
کیا اور بتایا کہ جو دہشت گرد مارا گیا اور اس کے ساتھی پکڑے گئے ہیں یہ
صرف آٹھ دہشت گردوں کا گروپ تھا جن میں ایک عورت بھی شامل تھی۔ چودھری نثار
نے شاید اس کارکردگی سے متاثر ہو کر کہہ دیا ہو گا کہ سکیورٹی ایجنسیوں کی
نوے فیصد کامیابیوں کا ذکر نہیں ہوتا ایک ناکامی کا ماتم شروع ہو جاتا ہے
اور میڈیا کو خصوصاً آج کل بھارتی میڈیا کی طرف سے جاری تباہ کن پراپیگنڈہ
کے مضمرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح وہ اپنی فوج کی حوصلہ افزائی
کرتے ہیں آپ بھی ایسا ہی کریں جبکہ ہمارا طرز عمل بالکل مختلف ہے۔
چودھری نثار جب اپوزیشن میں تھے تو معاملات کو دیکھنے کا انداز آج سے مختلف
تھا۔ اب حقائق جاننے کے بعد انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمیں دھکا شاہی سے
اس جنگ کا حصہ بلکہ ایندھن بنا دیا گیا ہے اور جب تک یہ جنگ منطقی انجام تک
نہیں پہنچتی ہم اس صورتحال سے دو چار رہیں گے۔ چودھری نثار نے وہ بات کہہ
دی جو انہیں شاید بہت پہلے کہنی چاہیے تھی۔ چلیں دیر آید درست آید
کچھ بے وقوف میڈیا کے دوست جو خود کو ”بادشاہ گر” سمجھنے لگے ہیں اپنی مرضی
سے معاملات کو بنانے بگاڑنے پر لگے رہتے ہیں۔ چونکہ وہ اب میڈیا ہائوسز کے
مالکان کی کمزوری بھی بن چکے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے چینلز اور پروگرام بھی
اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ انہیں شاید تصویر کا صرف ایک رخ ہی دکھائی دیتا ہے۔
یا پھر وہ ساون کے اندھے کی طرح صرف ہرا ہی ہرا دیکھنے پر بضد ہیں۔
کراچی میں رینجرز کی آمد سے پہلے کراچی بیروت بنا ہوا تھا۔ بھتہ خوری،
اغوائ، قتل و غارت گری اپنے نقطہ عروج کو چھو رہی تھی اور کراچی کے عوام
بلبلا رہے تھے کہ خدا کے لیے اس شہر کو فوج کے حوالے کر دو جب سے یہاں
رینجرز آئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن
خاصا امن ہو گیا ہے مکمل اس لیے نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے کہ اس خونی کھیل کی
بڑی فریق ایک سیاسی گروہ کے شاطروں نے بعض ایسی چالیں ایجاد کی ہیں جنہوں
نے پاکستان کے حکمران طبقے کو چاروں شانے چت کر دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں
کہ اس گروہ کی مدد کے بغیر ان کا سیاسی سنگھاسن ڈانول ڈول رہے گا۔ امور
مملکت چلانے کے لیے وہ اس سیاسی گروہ سے تجدید تعلق کو ناگزیر سمجھتے ہیں
جب یہ تعلق بندھ جاتا ہے تو اس گروہ کے شاطر چالباز اپنی نئی چال آگے
بڑھاتے ہیں اور حکومت کو احساس دلا دیتے ہیں کہ کراچی کی طرف سے آنکھیں بند
رکھو۔ باقی ملک کو سنبھالو۔
رینجرز کی کراچی میں قربانیاں کسی اندھے کو نظر نہ آتی ہوں تو اور بات ہے
عام پاکستانی اس سے بخوبی باخبر ہے۔ درجنوں رینجرز دہشت گردوں کے بزدلانہ
حملے اور ان حملوں کو روکتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک
رینجرکے سپاہی نے ایک ایسی ٹیکسی پر گولی چلائی جس نے رکنے سے انکار کر دیا
تھا۔ معاملہ چونکہ عدالت میں ہے۔ اس پر بات کرنا ٹھیک نہیں لیکن میڈیا نے
آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس ایک واقعہ کا کس کس انداز سے ماتم ہوا جو قطعاً
دہشت گردی نہیں۔ عین ممکن ہے اس میں لاپروائی، نا اہلی یا ضرورت سے زیادہ
حساسیت کا عنصر غالب رہا ہو لیکن میڈیا نے اسے دہشت گردی کی واردات بنا کر
اور رینجرز کو ایک طرح سے دہشت گرد بنا کر پیش کیا۔
اسی طرح گزشتہ ماہ ایک مشاق جہاز کے گرنے کی غلط خبر شائع کر کے سنسنی
پھیلا دی گئی جبکہ ایسا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا تھا اور یہ بالکل الگ قسم
کا ایک فنی خرابی کا مسئلہ تھا۔
کل ہی ایک چینل پر جب بھارت کی لائن آف کنٹرول پر مستقل غنڈہ گردی اور
پاکستان کی طرف سے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بار بار مذاکرات کی
درخواست اور جواب میں بھارت کی رعونیت کے حوالے سے جاری بحث میں ایک اینکر
صاحب نے جن کی بیگم صاحبہ ٹھیک ٹھاک قسم کی این جی او چلا رہی ہیں اور
موصوف آج کل سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی بننے کے لیے پرتول رہے ہیں بھارت کی
حمایت میں طیش دلانے والی دلیل بازی شروع کر دی جس پر ایک انگریزی اخبار کے
ایڈیٹر نے تنگ آمد بجنگ آمد کہا کہ نائن الیون کے بعد ہمارے ان میڈیائی
دانشوروں کا ایجنڈہ یہ ہے کہ امریکہ یا بھارت ، پاکستان کے خلاف کوئی بھی
غنڈہ گردی کریں، کوئی بھی حرام کاری کریں ان کے اقدامات کے حق میں دلائل
تلاش کیے جائیں اور اگر کوئی ان پر معمولی سا احتجاج بھی کرے تو اس کا گلا
یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ یہ بڑی طاقتیں ہیں ان سے پنگا لینا ٹھیک نہیں
ملک کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ہمیں گالیاں دے، ہمارے اقتدار
اعلیٰ کو چلینج کرے، ہماری غیرت کو للکارے، ہمارے ساتھ صریحاً زیادتی کرے۔
ہم نے اس کے خلاف زبان بالکل بند رکھنی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے حالات خراب
ہیں۔
اصل میں پاکستان کے حالات تو اللہ کے رحمت سے کبھی خراب نہیں ہوں گے۔ لیکن
انہیں خوف یہ ہوتا ہے کہ اگر احتجاج ہوا تو کہیں ان کے حالات خراب نہ ہو
جائیں اور ان کے ”مالکان” ان کی کھچائی نہ شروع کردیں یا مختلف حوالوں سے
ملنے والے فنڈز بند نہ ہو جائیں۔ چودھری نثار نے اس رویے کی حوصلہ شکنی کی
جرات کی اور انہیں کہا تھا کہ وہ بھارتی میڈیا کی تقلید کریں۔
اب آپ دیکھیں کہ وزیر داخلہ جو کل تک اپوزیشن لیڈر تھا اور ان کے پروگرام
کی رونق بڑھانے کے لیے ان کے سوالات کے وہ جوابات دیتا تھا جو ان کے
”مالکان” کو پسند ہیں تو وہ اس کا پپو تھا آج جب اس نے ایک بالکل جائز اور
صحیح بات کی ہے تو فوراً ”امن کی آشا” کا غیظ و غضب بڑھا اور انہوں نے اس
بیان پر غصہ کرتے ہوئے (کیونکہ وہ خود کو ہی پاکستان میڈیا سمجھتے ہیں)
چودھری نثار کے لتے لینے شروع کیے۔ موضوع سے بالکل غیر متعلق بھارتی میڈیا
کی کلپس دکھائیں اور یہ ظاہر کرنا چاہا کہ بھارتی میڈیا نے تو اپنے ملک کی
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گھنائونے منصوبے بے نقاب کیے ہیں۔ جس کے پس پردہ یہ
دھمکی تھی کہ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اس لیے آپ ہمیں نصیحت نہ کریں۔ وہ
تو شیریں مزاری جیسی باخبر اور زیرک خاتون وہاں موجود تھیں جنہوں نے موصوف
کے رنگ میں بھنگ ڈال دی ورنہ تو وہ بات کو کہیں سے کہیں لے جانے میں مہارت
رکھتے ہیں۔
یہ ہے وہ مائینڈ سیٹ، وہ رویہ جس کی بنیاد غیر ملکی ایجنڈہ ہے۔ پاکستان
دشمن ایجنسیوں کو اس بات کا یقین ہے کہ عسکری محاذ پر وہ پاکستان کا کچھ
نہیں بگاڑ سکتے۔ بھارت سرحد پار سے ”ٹھوں ٹھا” کر کے اپنے عوام کو الو
بناتا رہے گا جیسے ہی اس نے پاکستانی سرحدوں کا تقدس پامال کرنے کی جسارت
کی۔ بھارتی ماہرین حرب و ضرب جانتے ہیں جوابی رد عمل اتنا شدید ہو گا کہ ان
کی کئی آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور پاکستانی قیادت
برملا کہہ چکی ہے کہ ان کا لاسٹ آپشن ہی اصل میں ان کا فسٹ آپشن ہے۔ شیخ
رشید نے صد فی صد صحیح کہا تھا کہ اگر بھارت نے کبھی ایسی جرات کی تو اس کی
آیندہ سو سال تک آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ ان کے بزرگوں کے پاگل پن
نے ان کو کہاں پہنچا دیا ہے۔
یہ جنونی ہندو جن کے دل و دماغ سے ابھی تک مسلم دشمنی اور نفرت نہیں نکل
سکی اکیسویں صدی میںبھی انسان بننے کے لیے تیار نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر
جھڑپ ہو تو ان جنونیوں پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور جواب میں یہ
اپنے ملک میں موجود پی آئی اے کے دفاتر، دوستی بس، دوستی ٹرین، پاکستانی
ہائی کمیشن پر حملے کرنے لگتے ہیں۔ ان وحشیوں کو لگام دینے کے بجائے ان کے
جرائم کے جواز تلاش کرنے والے اپنے آپ کو کس منہ سے مہذب انسان کہتے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ |