پاک بھارت کشیدگی کوئی نیا مسئلہ
نہیں ہے بلکہ کشیدگی کی فضاء کو ہوا دینا، پاکستان پر بلاوجہ الزام تراشی
کرنا بھارت کا بہت پرانا شیوا ہے۔
گزشتہ چند ایام سے بھارت نے لائن آف کنٹرول کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے
ہوئے پاکستانی افواج پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں افواجِ
پاکستان کا جانی نقصان ہوا۔ اس موقع پر پاکستان کی طرف سے بھی ایک حد کے
اندر رہتے ہوئے جوابی کارروائی کی گئی تاکہ بھارتی سورماؤں کا منہ بند کیا
جا سکے۔ مگر پاکستان کی طرف سے کی گئی جوابی کارروائی میں کسی قسم کے
اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ اسکے بعد بھارتی پارلیمنٹ اور اس کے بعد
بھارتی عوام کا رویہ خاصہ قابل ذکر اور قابل شرم رہا۔ بھارت جو کہ دنیا کی
سب سے بڑی جمہوری حکومت ہونے کا دعویدار ہے اس نے کسی قسم کے جمہوری رویے
کی پرواہ نہ کی۔ پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا
اور اپنے روایتی انداز میں بھارت میں پاکستان کے سفارتخانے پر بھارتی عوام
کا حملہ اور یہی نہیں بلکہ بھارتی اپوزیشن اور بھارتی حکمران جماعت نے بھی
اس کاروائی میں مکمل حصہ ڈالا۔ اور کسی قسم عالمی انسانی حقوق کی پرواہ نہ
کی۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ بھارت کی جانب سے دن بدن کشیدگی میں اضافہ ہوتا
رہا اور بھارتی میڈیا نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔
اب اس کے برعکس پاکستانی حکومت کا رویہ بھی قابل ذکر ہے۔ اس موقع پر
پاکستانی حکومت نے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے صبر و تحمل کا
مظاہرہ کیا اور وزیراعظم صاحب نے منموہن سنگھ سے ملاقات کی نہ صرف خواہش
ظاہر کی بلکہ ملاقات کیلئے بھی سر توڑ کوشش کی۔ مگر بھارتی وزیراعظم ملاقات
کرنے سے گریزاں رہے۔ جس کا مطلب صاف سمجھ آتا ہے۔ مگر شاید وزیراعظم صاحب
کا بھارت کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارتی تعلق ہے۔ شاید اسی وجہ سے وزیراعظم
صاحب بھارت کے خلاف بیان دینے سے گریزاں ہیں اور ایسی بدترین صورتحال میں
بھی بھارت کے بے ضمیر لوگوں کو جذبۂ خیر سگالی کے تحت امن و سلامتی کے
پیغامات بھیجتے ہیں۔
شاید ہمارے وزیراعظم صاحب کو پتہ نہیں کہ بھارت نے ماضی میں بھی ایسے کئی
واقعات انجام دئیے ہیں جن کو جان کر بھارت کی وحشیانہ سوچ اور اندر کی
درندگی کا اندازہ بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے اور ان واقعات کے پیشِ نظر
آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو اب بھارت کے ساتھ کس طرح
کا رویہ رکھنا چاہئے۔ بھارت کھلے عام عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
کرتا ہے مگر پھر بھی اس کو امریکہ طرف سے پسندیدہ ملک قرار دے دیا جاتا ہے
جبکہ پاکستان گزشتہ 13 سال سے امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے اس کو کسی خاطر میں
ہی نہیں لایا جاتا۔
حقائق کے مطابق اور ان واقعات کے پیش نظر ایک بات تو طے ہے کہ بھارتی رویے
کی وجہ سے اب پاکستانی عوام اور عسکری قوتیں اب بھارتی جارحیت سے تنگ آ چکے
ہیں اور بھارتی جارحیت کا مکمل اور منہ توڑ جواب دینے کیلئے مکمل طور پر
تیار ہیں۔ اب بھارت کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ پاکستان اور برما
میں بڑا فرق ہے۔ پاکستان وہ قوم ہے جس نے روس جیسی سلطنت کو تباہ برباد کر
دیا اور وہ آج تک stable نہیں ہو سکا۔ افواج پاکستان دنیا کی بہترین افواج
میں سے ہیں اور انڈین جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے
ہیں۔
لہٰذا اول تو بھارت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اگر اس کے باوجود بھارت
کسی قسم کی کوئی غلطی کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر دنیا کے نقش سے پاکستان کا
نہیں بھارت کا نشان ختم ہو گا (انشاء اﷲ) کیونکہ پاکستان کے عسکری قوتیں
گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی مظالم کا جواب اخلاقیات کے دائرہ میں رہتے
ہوئے دے رہے ہیں اور اگر اب بھارت ایسی کوئی بھی غلطی کرتا ہے تو اب ہماری
عسکری اداروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور بھارت کو ایسا جواب ملے
گا کہ بھارت کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے کسی قوم کو للکارا ہے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں |