پاکستان کی یہ جگ ہنسائی آخر کب تک

عوام کو اپنا 66 واں یوم آزادی منائے ابھی تیسرا دن ہی گزرا تھا کہ جس میں سب نے ملکی و قومی سلامتی اور دفاع کی قسمیں کھائیں تھیں ۔ساتھ ہی انڈیا کی ہٹ دھرمی اور جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا اعادہ بھی کیا تھااوربلند وبانگ دعوے بھی کئے تھے ،اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو پوری قوم ایک ساتھ للکار رہی تھی ،دوسری طرف 15 اگست کی شام تقریبا 6بجے کے قریب ایک عجیب منظر پوری قوم اور میڈیا کے سامنے تھا۔ ،ایک مسلح شخص نے پولیس ،رینجر اور میڈیا کو یرغمال بنا رکھا تھا ۔محب وطن پاکستانی کی بے چینی اور اضطراب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا تھا۔

پاکستانی میڈیا کہ جس کو ہر وقت سنسنی خیز خبروں اور واقعات کی تلاش رہتی ہے ایک نادر موقع ہاتھ آگیا۔بس پھر کیا تھا لمحہ لمحہ گزرتے حالات واقعات کی کوریج شروع ہو گئی ،اور سکندر صاحب جو اس پورے ڈرامے کے مرکزی کردار تھے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ موجود تھے ۔ان کی حرکات و سکنات کو بھی ڈرامائی انداز میں دیکھانے کا سلسلہ جاری تھا ۔کبھی چہل قدمی کرتے دکھایا جا رہا تھا ، توکبھی سگریٹ سلگاتے ہوئے ،کبھی بچوں کو بھاگتے دوڑتے ہوئے تو کبھی بیوی کو مذاکرات کے لیئے سرگرم آتے جاتے ،سب گویا ہپناٹائز ہو چکے تھے،چند منچلوں نے فیس بک کا محاذ بھی سنبھال رکھا تھا۔اور سکندر صاحب کی لمحہ لمحہ بدلتی صورتحال کو طنزو مزاح سے بھرپور الفاظ میں لپیٹ کر پیش کر رہے تھے ۔

سکندر اور کنول کاڈرامہ واپڈا والے اتنے غور سے دیکھ رہے تھے کہ بجلی بند کرنا بھول گئے۔۔

اور جب پولیس جناح ایونیو پر ٹینٹ لگا رہی رہی تھی تو ایک نے لکھا جنا ح ایونیو پر ٹینٹ لگا دئیے گئے ہیں سکندر بھائی کا ولیمہ ہے۔۔

سکندر اور کنول کی جوڑی نے ریٹنگ میں عامر لیاقت کو بھی چھوڑ دیابھی پیچھے چھوڑ دیا ۔۔

اسلام آباد پولیس سکندر کے تھک جانے اور سونے کا انتظار کر رہی ہے۔۔بھائی کو بیوی بڑی فرمانبردار ملی ہے،۔۔۔۔دنیا دو سکندروں کو یاد رکھے گی ایک سکندر اعظم دوسرا اسلام آباد والا بھائی سکندر۔۔

اس پورے ڈرامے کے مرکزی کردار سکندر کی دو بیویاں تھیں ،انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ دو بیویوں کی وجہ سے دماغ خراب ہوا ہے یا دماغ خراب تھا اس لئے دو بیویاں رکھیں۔۔۔

اس ملک خدادا میں ہر کوئی افسردگی بے چینی کا شکار ہے اس کی وجہ وہ معاشی معاشرتی سیاسی اور مذہبی حالات ہیں جن کا سامنا پوری قوم کر رہی ہے،جن کو لکھنے کا ہنر آتا ہے وہ کالم لکھتے ہیں ،جو میڈیا میں ہے وہ وہاں پر اپنے جزبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے ،مگر جو بے بس ہے اگر اس کو موقع مل جائے تو وہ انوکھے انداز میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتاہے۔سکندر نے اپنا غصہ اسلام آباد کی ایک اہم سڑک پر نکالا جو دارلحکومت کا ریڈ زون کہلاتا ہے جسے انتہائی حساس قرار دیا جاتا ہے ،اس علاقے میں پارلیمنٹ ہاؤس ،ایوان صدر اور سپریم کورٹ موجود ہے ۔

جہاں انصاف بکتا ہو ،حکمران غیر کی گود میں بیٹھ کر قوم کا خون کرتے ہوں ،جہاں اربوں کی کرپشن کرنے والے رشوت کھانے والے معزز کہلاتے ہوں،اور ان کو چور کہنے والے غیر مہذب کہلاتے ہوں وہاں ایسے واقعات کا ہونا کچھ اچھنبے کی بات نہیں ۔

اس شخص کا مطالبہ تھا کہ ملک میں اسلامی قوانین کا نفاد ہو،اس حکومت کا خاتمہ کر کے ان لوگوں کے ہاتھ میں حکومت دی جائے،جو قرآن کو جاننے والی ہوں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسا کون ہے اس ملک میں جو ان خصوصیات پر پورا اترتا ہے۔۔؟؟ تو وہ ا س سوال کا جواب نہ دے سکا،۔۔ آخر وہ اس سوال کا جواب دیتا بھی کیسے ،جس ملک کے حکمرانوں کو سورۃ اخلاص تک یاد نہ ہو،پاکستان کی تاریخ اور اسلامی معلومات سے نابلد ہو ،وہاں صحیح معنوں میں کس طرح اسلامی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔اور یہ مطالبہ تو پوری پاکستانی قوم کا ہے ۔اسلامی قوانین تو نافذ ہیں مگر عملی طور پر ان پر عمل نہیں ہوتا ،اسلامی بنیادی اخلاقیات جیسے سچائی،نرم اور پاک زبان کا استعمال، وسعت حوصلہ،دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اسے دور کرنا ،مضبوط عظم و ہمت کا انتہائی فقدان ہے ۔

اس تمام معاملے میں میڈیا کا کردار کہیں اور کسی بھی موقع پر قابلِ ستائش نہیں کہا جاسکتا،اس بات کا احساس ٹی وی چینل پر بیٹھے اینکر پرسن کو بھی تھا ،جاوید چوہدری صاحب جو ایک جانے مانے اور سمجھدار صحافی سمجھے جاتے ہیں ،لایؤ اس شخص سے مذ اکرات کر رہے تھے ،جس کی وجہ سے اپنے مطالبات سب تک پہنچ رہے تھے ،کون ایسا مسلمان ہے کہ جو پاکستان میں اسلامی عدل و انصاف پر مبنی حکومت نہ چاہتا ہو ،اس کے ان خیالات نے عوامی رائے کو کسی تک اس کے حق میں کرنے میں کردار ادا کیا۔قطع نظر اس کے کہ اس کا یہ طریقہ انتہائی غلط تھا ، کہ جس میں معصوم بچوں کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ مشہور صحافی طلعت حسین نے بھی میڈیا کے اس قدر ملوث ہوجانے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھااور شدید تنقید کی ۔یقینا میڈیا کا ایسا کردار قابلِ مذمت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص کس طرح اتنی سیکورٹی چیک ہونے کے باوجو اسلحہ سمیت اتنی حساس جگہ تک پہنچ گیا جبکہ گاڑی کی ڈکی اور سیٹوں کی اچھی طرح سے چیکنگ ہوتی ہے اسلام آباد کی ایلیٹ اور کوئیک رسپانس فورس نے کس حد تک اپنا کردار ادا کیا ۔۔؟

یہ پورا واقعہ غیر تربیت یافتہ زمر د خان صاحب کی انفرادی جرئات کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ صلا حیتوں کی حامل پولیس اور رینجر ز پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔لوگوں کے ہجوم کو حساس مقام سے دور نہ ہٹاناایک حماقت کے سوا کیا تھا ،۔۔کیا یہ سب پولیس کی نااہلی بے بسی اور تجربہ ہوتے ہوئے بھی ناتجربہ کاری کو ظاہر نہیں کرتا ۔

پاکستان کی تاریخ کے اس سب سے بڑے ڈرامے کا ڈراپ سین محض اس وجہ سے جلدی نہ ہو سکا کہ بقول سیکورٹی افیشلز کے ،۔۔کرنے کو تو ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔لیکن صبح ہمیں سپریم کورٹ میں بُلوا لیا جائے گا ہمیں سو موٹو کا خوف ہے۔

یوں لگتا ہے کہ یہ پورا ڈرامہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔۔اسلامی نظام کے نفاد کی خواہش رکھنے والے اس شخص کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی ،منہ سے یہ اسلام قرآن اور پاکستان میں انصاف کی بات کر رہا تھا ۔بغیر دیکھے گولیاں بھی بر سا رہا تھا۔جو کہ انتہا درجے کا پاگل پن تھا۔ایک نیا انکشاف تازہ ترین تحقیقات کے نتیجے میں یہ بھی ہوا ہے ،کہ سکندر صاحب آصف علی زرداری کی بیٹیوں کے باڈی گارڈ بھی رہ چکے ہیں اور یہ ڈرامہ پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساتھ کو بچانے کے لئے رچایا گیا ،اب یہ تو اﷲ ہی بہتر جانا تھا کہ کیا معاملہ تھا ۔بحر حال ہمیں ایک بات تو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے جو نہ صرف ہر مسلمان بلکہ غیر مسلم کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے ۔

جبکہ اس نے نہ صرف اپنی ،اپنے بچوں اور بیوی کی عزت اور جان کو غیر محفوظ کر دیا تھا ،بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہسائی کا موجب بھی بن گیا تھا ،پاکستان کو پہلے ہی سیکورٹی اور امن امان کے مسائل کا سامنا ہے اس پر اس طرح کے واقعات مثبت نتائیج کی بجائے ہمیشہ منفی نتائیج ہی پیدا کرتے ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ وقت عقل کے ناخن لے اور سنجیدگی کے ساتھ انصاف ،سچائی رواداری اور امن کو فروغ دے ۔تا کہ مستقبل قریب میں اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں۔
Maryam Samar
About the Author: Maryam Samar Read More Articles by Maryam Samar: 49 Articles with 52638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.