اردو زبان کو فروغ دیں

انسان کا شائد سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے،ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھا ہے۔ انسان کی ترقی کا راز بھی زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے۔ اردو زبان کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں ہندی ، فارسی اور عربی کی تمام آوازیں موجود ہیں، اردو کے حروفِ تہجی ان تینوں زبانوں کے حروفِ تہجی سے مل کر بنے ہیں، اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ اور محاوروں کو اپنانے کی بڑی صلاحیت ہے اوراردو کا رسم الخط ابتدا ء سے فارسی ہے۔ اردو زبان کو انیسویں صدی کی ابتدا ء تک ہندی، ہندوی، دہلوی، ریختہ،ہندوستانی،دکنی اور گجراتی غرض مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے،اس کے معنی لشکر،سپاہی،کیمپ،خیمہ وغیرہ کے ہیں۔عہدِ مغلیہ میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور زبان کے معنی میں اس لفظ کا استعمال چنداں قدیم نہیں۔

اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ایک علیحدہ آزادملک میں رہتے ہیں ،جہاں ہم بالکل اپنے قواعد و ضوابط کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں،بر ضغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد پاکستان کو علیحدہ ملک کا درجہ دے دیا گیا جس کی قومی زبان اردو رکھی گئی ،اس وقت اردو کے فروغ کے لیے بڑے بڑے مسلمان علماہ،دانشوروں اور دیگر لوگوں نے مل کر کام کیا جن میں مولانا الظاف حسین حالی،علامہ محمد اقبال،سر سید احمد خان اوربابائے اردو مولوی عبدلحق شامل ہیں۔ان لوگوں نے اردو کے فروغ کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی اور ہمیشہ اردو کو ترجیح دی۔14اگست 1947کو پاک و ہند کی تقسیم کے بعد اردو کو پاکستان کی مادری زبان کا درجہ دے دیا گیا اور اسے سرکاری زبان کی اہمیت حاصل ہو گئی ۔اردو زبان اصل میں تمام زبانوں کے الفاظ کا مجموعہ ہے،اس میں باقی تمام زبانوں کے الفاظ شامل ہیں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم دن بدن اپنے بزرگوں کی روایات بھولتے جا رہے ہیں جس اردو کو فروغ دینے میں بزرگوں نے اہم کر دار ادا کیا تھا اب ہم اس اردو کی جگہ انگریزی زبان کو سامنے لانے میں کوشاں ہیں جو کہ درست نہیں ،ہمیں صرف اور صرف اردو زبان کو فروغ دینا چاہیے جبکہ باقی تمام زبانوں کو ایک مضمون کے طور پر پڑھنا چاہیے۔ ہمارے اداروں میں اردو کی جگہ انگریزی زبان نے لے لی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے،کہا جاتا ہے کہ انگریزی زبان کے بغیر ملکی ترقی نا ممکن ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے چینی زبان کو ترجیح دی اور انگریزی کو ایک عام زبان کا درجہ دیا،چین کے صدر پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے اپنی زبان میں خطاب کیا اور اپنے ملک کی نمائندگی کی۔کیا کبھی ہمارے کسی بھی سیاستدان نے بیرون ممالک جا کر اپنی مادری زبان اردو میں خطاب کیا، آج تک سبھی انگریزی میں خطاب کرتے رہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑھ رہا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں انگلش کو نہ صرف ایک مضمون کی طرح پڑھایا جا ریا ہے بلکہ اس زبان پر اس طرح ترجیح دے جا رہی ہے جیسے صدیوں سے یہ ہماری مادری زبان چلی آرہی ہو جبکہ ہمیں انگریزی کو صرف ایک مضمون کے طرز پر ترجیحی دینی چاہیے اور اپنی مادری زبان اردو کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔آج کل نوجوان نسل نہ صرف انگریزی بولنے اور سیکھنے کو ترجیح دے رہی ہے بلکہ مغربی طرز زندگی کی جانب راغب ہو رہے ہیں ،ان کا رہن سہن،کھانا پینا،بننے سنورنے کا طریقہ غرض ان کی زندگی کا ہر عمل جس کوآج کی نوجوان نسل جدت کا نام دے رہی ہے سب مغربی ثقافت کا حصہ ہے نہ کہ ہمارے اسلامی معاشرے کا۔

قارئین!آخر میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ خدارا اردو زبان کو فروغ دیں اور انگریزی کو اردوپہ ترجیح مت دیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے مگر چین کی مثال سب سے سامنے ہے جو بغیر بین الاقوامی زبان سیکھے ترقی کرتا جا رہا ہے،ہمیں بھی چین سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنی قومی زبان کو بین الاقوامی زبان پر ترجیح دینی چاہیے۔
Muhammad Furqan
About the Author: Muhammad Furqan Read More Articles by Muhammad Furqan: 45 Articles with 89337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.