جانے بھی دو یار

اﷲ کریم جب کسی کو اپنی ڈال دیتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جو آجکل مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت کی ہے۔نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن یعنی آگے گریں تو منہ ٹوٹتا ہے اور پیچھے گریں تو ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔اس لئے غریب کبھی آگے جاتے ہیں کبھی پیچھے۔زمرد خان نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور اپنے ساتھ اور بہت سارے معصوم لوگوں کی لیکن ان کی اس حرکت سے اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا جو دنیا کی ساتویں ایٹمی پاور کی عین ناف کے اوپر سٹیج کیا جا رہا تھا۔خدا جانے کس نے فائرکیا اور کس نے اس کا حکم دیالیکن کہانی ختم اور سٹوری شروع ہو گئی۔

انور مسعود نے اپنی نظم" چھیما" میں بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ " نویں تازی گل تے چکوری وچ کوئی نئیں ،کہانی کہانی ہیگی جے سٹوری وچ کوئی نہیں "یعنی اس فلم میں بس کہانی ہی کہانی ہے سٹوری کوئی نہیں۔یہی حال اس بدبخت سکندر کا تھا جو آیا تو بیوی اور بچوں کے ساتھ پنڈی اسلام آباد اور مری میں موج میلا کرنے کہ اسلام آباد پولیس کو حافظ آباد پولیس سمجھ کر اس سے متھا لگا بیٹھا۔ہوٹل سے نکلا تو ڈرائیور اس کے ساتھ تھا۔کچھ بیوی اور کچھ اجنبی ڈرائیور کو ایمپریس کرنے کے لئے اس نے اسلام آباد کی ماڈرن پولیس کو پنجاب پولس سمجھ کے پنگا لے لیا اور اس کے بعد اس کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو اس گیدڑ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی شامت آئی ہوتی ہے۔

سکندر جو کہ ایک نیم پاگل اور بقول شخصے کیا بلکہ بقول اپنی نصف بہتر نہ صرف نشے کا عادی ہے بلکہ ذہنی مریض بھی ہے۔اپنی دو بندوقیں لے کے سڑک پہ کھڑا ہو گیا) ذہنی مرض نہ ہوتا تو دوسری شادی کرتا( اس طرح کے موقع پہ پنجاب پولیس بندے کا ترلہ کرتی اور اسے سمجھاتی ہے کہ جناب ـ"سانوں وی بزت نہ کرو تے آپ دی عزت دا وی خیال کرو تے جاؤ جدھر تسی جانڑا چاہندے او"یعنی جناب ہمیں بھی بے عزت نہ کریں اور کچھ اپنا بھی خیال کریں اور جائیں جدھر آپ جانا چاہتے ہیں لیکن یہ چونکہ دارالخلافے کی پولیس تھی اس لئے انہوں نے ملزم کو للکارا اور ایسی للکار کہ اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔جو کام پنجاب پولیس کا ایک سپاہی بحسن و خوبی کر سکتا تھا اس میں شہ دماغ شامل ہوئے اور پھر وہی ہوا جو ایسے مواقع پہ ہوا کرتا ہے۔اﷲ کا شکر ہے کہ جنابِ وزیر اعظم اس معاملے میں نہیں کودے ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔

میں خود بھی پاکستانی ہوں اور مجھے اس پہ بڑا فخر ہے لیکن بحیثیت قوم ہم تماش بینوں کا مزاج رکھتے ہیں۔کوئی بم دھماکہ ہو کہیں زلزلہ آ جائے،سڑک پہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے حتی کہ کوئی بندر والا تماشہ دکھا رہا ہویا کوئی عطائی بڑے بڑے شتر مرغ سامنے کھڑے کر کے سلاجیت بیچ رہا ہوآپ دیکھیں گے کہ اس فارغ قوم کے سینکڑوں افراد گھنٹوں کھڑے ہو کے تماشہ دیکھ رہے ہوں گے۔اس قصے میں بھی یہی کچھ ہوا۔اسلام آباد کے تماش بین پہلے اکٹھے ہوئے ۔انہیں دیکھ کے سکندر اور بپھرا۔پھر کسی نے میڈیا کو خبر کر دی۔اوبی وینز آ گئیں تو سکندر ایک شہدے بد معاش سے ایک دم مصلح اور قوم کے نجات دھندہ کا روپ دھار گیا۔اس کے بیانات اور مطالبات ٹی وی پہ براہ راست نشر ہونے لگے پھر اس کے بیپر لئے جانے لگے۔ ایک آدھ چینل نے تو اس سے بھی بڑھ کے کام کیا کہ اس کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کی۔

پھر اس ڈرامے میں بین الاقوامی میڈیا در آیا اور یوں اس معاملے کو جو پنجاب پولیس کے ایک سپاہی کے دوفقروں کی مار تھی شہ دماغوں کی فہم و فراست نے اس کا وہی حشر کیا جو پچھلے چیاسٹھ سالوں سے وہ ملک کا کر رہے ہیں۔آخر کار زمرد خان کو یہ تماشہ ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے "شوٹ آوٹ ایٹ جناح ایونیو" نامی اس فلم کی شوٹنگ کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔

اگلے دن پتہ چلا کہ اس میں انٹیلجنس رینجرز اور فوج بھی حصہ لینے کو تیار تھی مگر زمرد خان کی جلد بازی نے انہیں اس سعادت سے محروم کر دیا۔جب معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوا تو وزیر داخلہ میدان میں کود پڑے اور صرف زمرد خان کی خار میں اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران کی معطلی کا میڈیا پہ اعلان فر ما دیا۔پھر حسب توقع اور حسبِ روایت سؤموٹو بھی لے لیا گیا۔اب جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہو رہے ہیں۔انکوائریاں اٹھ اور بیٹھ رہی ہیں۔مقدمات چل پڑے ہیں۔رینجرز پولیس اور جاسوس سارے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔غرضیکہ کہ ایک نیم پاگل شخص نے اوپر سے نیچے تک نہ صرف پوری حکومت کو ہلا کے رکھ دیا ہے بلکہ پورے ملک کی ساری سرکاری مشینری اس کار ِ بے کار میں مصروف ہے۔

میری بات یاد رکھئیے گا کہ جب یہ سارا قصہ تمام ہو گا تو پتہ چلے گا کہ سکندر صاحب گھر سے اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ سیر کو نکلے تھے۔راستے میں بیوی نے اتنا زچ کیا کہ وہ خود کشی پہ تیار ہو گئے۔طبیعت چونکہ شو باز تھی اس لئے انہوں نے یوں خود کشی کی سوچی۔اس وقت یہ سارے کمیشن اور انکوائریاں کروانے والے بس بغلیں جھانکتے رہ جائیں گے۔بس دیکھتے جائیے اﷲ اس ملک اس قوم اس کے حکمرانوں اور ہم مسکینوں کے حال پہ رحم فرمائے۔ آمین
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268741 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More