ملک میں دہشت گردی کے خلاف گذشتہ کئی برسوں سے قانون نافذ
کرنے والے ادارے، خصوصاً پاک فوج برسرپیکار ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں
پاک فوج، رینجرز، آرمی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل
کاروں اور افسران اس ملک کو بچانے کے لیے اپنی جانیں پیش کررہے ہیں،
وزیرستان میں جس طرح لڑائی لڑی جارہی ہے، اس کے اثرات پورے ملک پر پڑرہے
اور اس سے پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔چاہے پنجاب ہو یا سندھ،
بلوچستان ہو یا خبیر پختون خوا، بم دھماکے، قتل وغارت گری، خود کش حملے
معمول بنے ہوئے ہیں اور اب وزیرستان میں لڑی جانے والی لڑائی بقول عسکری
ماہرین کے بلوچستان منتقل ہورہی ہے اور بلوچستان، خصوصاً کوئٹہ میں جس طرح
دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے ہیں، جس کی ایک وجہ کے پی کے میں ان پر تنگ
ہوتی زمین اور دوسری حکمت عملی کی تبدیلی ہے، بہرحال وجہ جو بھی ہو، دہشت
گردوں نے اپنے لیے اگلا میدان بلوچستان منتخب کرلیا ہے۔ ان کی اس نئی حکمت
عملی سے ایسا محسوس ہورہا ہے ان کی اگلی منزل خاکم بدہن کراچی ہوگی اورا گر
ایسا ہوا تو یہ سوچ پر بھی جھرجھری آجاتی ہے کہ ہوگا کیا ؟ پاکستان کے
معاشی حب کو اگر دہشت گردوں نے اپنی لڑائی کے لیے چن لیا تو یہاں اقتصادی،
تجارتی، سماجی حالات کیا رخ اختیار کرجائیں گے، امن وامان کی انتہائی مخدوش
اور تباہ کن صورت حال کیا شکل اختیار کرے گی اور لامحالہ اس تمام صورت حال
کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا جو یقیناً انتہائی خوفناک ہوگا۔ تاہم
اگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بروقت اور پیشگی اقدامات کرلیں تو
سروں پر منڈلاتے خطرات کو ٹالا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی
جماعتیں اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ دیں ۔ اخباری اور میڈیا بیانات
تک نہیں بلکہ حقیقتاً، رینجرز، پولیس، فرنٹیر کانسٹیبلری، خفیہ ایجنسیوں کے
درمیان مسابقت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں، بل کہ اس ملک کی
بقا کے لیے مربوط رابطے برقرار رکھیں تاکہ دہشت گردوں کے ابھرتے ہوئے
سروںکو فوری طورپر کچلا جاسکے۔ واضح رہے کہ وزیرستان سے فرار ہوکر کراچی کی
گنجان آبادیوں، میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کی نشان دھی بہت پہلے کی جا
چکی ہے، جس پر اس وقت کی صوبائی حکومت، جو اب بھی برسراقتدار ہے، نے کان
نہیں دھرے تھے، جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے اپنے قدم کراچی میں جما
لیے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں ہرگزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔
ان دہشت گردوں نے نہ صرف بم دھماکوں، خودکش حملوں کا بازار گرم کررکھا ہے،
بل کہ لوٹ مار، بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری کے ذریعے
وزیرستان اور دیگر علاقوں میں پاک فوج سے لڑنے والے دہشت گردوں کے لیے فنڈز
بھی اکٹھا کررہے ہیں۔ دوسری جانب اگر شہر میں امن امان کی عمومی صورت حال
پر نظر ڈالی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں عملاً کسی حکومت یا اس کی
رٹ کا وجود ہی نہیں ہے، جس کی جو مرضی ہے، وہ کررہا ہے۔ دہشت گردی بم
دھماکے ہورہے ہیں، لچے لفنگے راہ چلتے معصوم شہریوں کو لوٹ رہے ہیں، ٹارگٹ
کلرز چن چن کر لوگوں کو قتل کررہے ہیں، ڈاکو بینک، گھر، دکانیں اور
فیکٹریاں روزانہ کی بنیاد پر لوٹ رہے ہیں، بھتہ خور کسی دکاندار ، پتھارے
دار، کارخانے دار یا صنعت کار کو بخشنے کو تیار نہیں اور پولیس عوام کو
تحفظ دینے کو تیار نہیں۔ آسان اور مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ شہر
بالکل لاوارث نظر آرہا ہے۔ دفعہ 144 کو ہی دیکھ لیں، جو ایک مذاق بن کر رہ
گیا ہے۔ اس دفعہ 144کے تحت کسی بھی جگہ چار سے زائد افراد کے اجتماع ، ریلی،
جلسے جلوس پر پابندی عائد ہے اور تو اور اس دفعہ کے تحت شہر میں موٹرسائیکل
کی ڈبل سواری پر بھی پابندی ہے یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ شہر میں
روزانہ سیکڑوں نہیں تو کئی درجن ریلیاں نکلتی ہیں، درجنوں جلوس نکالے جاتے
ہیں ، سیکڑوں جلسے منعقد ہورہے ہیں اور یہ سب کراچی کی معروف اور مصروف
ترین سڑکوں پر بغیر کسی اجازت کے ہورہا ہے اورکیوں نہ ہو، بغیر اجازت کے
دفعہ 144کی خلاف ورزری کہ اس کو نافذ کرنے والے خود لمبی تان کرسوئے ہوئے
ہیں۔ امن وامان کی جائزہ لیں تو صرف رمضان المبار ک میں تقریباً 200 افراد
کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، درجنوں گاڑیاں چھین لی گئی، ڈاکو سیکڑوں
موٹرسائیکلیں لے اڑے، ہزاروں موبائل چھین لیے گئے اور یہ سب اس وقت ہوا، جب
اس شہر میں ’’ریڈ الرٹ‘‘ اور دفعہ 144 نافذ ہے۔ یہاں کی حکومت نے اتنی ریڈ
الرٹ ریڈ الرٹ کی رٹ لگائی کہ اس کی اہمیت ہی ختم ہوگئی۔ دہشت گردی اور لوٹ
مار کی تمام وارداتیں اسی ریڈ الرٹ کے دوران ہوئی ہیں۔ اگر یہ ریڈ الرٹ نہ
ہوتا تو اس شہر کا کیا عالم ہوتا، بہرحال یہ حکومت کتنی ہی تاولیںاور جواز
پیش کرے، جو انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں
کوئی قباحت نہیں کہ حکومت ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی کے
عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں۔ |