شام میں گزشتہ ایک زمانے سے موت کا رقص جاری ہے۔انسانیت ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر
جان دے رہی ہے۔لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جارہے ہیں۔کسی کا کوئی پرسان
حال نہیں۔کب کس کی زندگی کو موت دبوچ لے کوئی کچھ نہیں جانتا۔اسدی فوج عوام
پر ظلم کرنے کے تمام ہنر آزما رہی ہے۔لوگوں کو قتل کرنے کے روز نئے طریقے
اختیار کیے جاتے ہیں۔گولیوں اور بمبوں سے عوام کو قتل کرکے تھک گئے تو
کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جانے لگے۔گزشتہ روز شام کے دارالحکومت دمشق کے
مضافات میں انقلابیوں کے خلاف لڑائی میں بشار الاسد کی وفادار فوج نے
میزائل حملے کیے ہیں جن سے مہلک گیس کے اخراج سے بڑے پیمانے پر شہریوں کے
مارے کی اطلاعات ملی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دمشق کے نواحی علاقے عین ترما میں
مہلک گیس کے میزائل حملوں میں کم سے کم پندرہ سو کے قریب افراد جاں بحق اور
چھ ہزار کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ ”جوبر“ اور ”زملکا“ کے مقامات
پرم ±ہلک گیس پھیلنے سے بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شہید ہوگئی۔ انسانی
حقوق کے کارکنوں کے مطابق مہلک گیس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی
تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی علاقوں سے زمینی اور
مواصلاتی رابطے منقطع ہیں اور گیس وہاں بھی پھیل چکی ہے۔ ”سانا الثورہ“ نے
طبی ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ دمشق اور اس کے مضافات میں انقلابیوں
کے خلاف میزائل حملوں میں مہلک ترین گیس استعمال کی گئی ہے۔ دمشق کے ایک
فیلڈ ہسپتال میں لائے گئے زخمیوں اور میتوں کو اسی گیس سے متاثر بتایا جا
رہا ہے۔ اسدی فوج کی تازہ کارروائی میں مارے جانے والے زیادہ تر عام شہری
خاص طور پر کم عمر بچے شامل ہیں۔ شام میں سماجی کارکنوں نے ویب سائٹ پرایک
ویڈیو فوٹیج اپ لوڈ کی ہے جس میں عین ترما، زملکا اور جوبر میں زہریلی گیس
سے متاثرہ بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین کوبے ہوش دکھایا گیا ہے۔ اس
ویڈیوں میں واقعہ کے مختلف مناظر دکھائے گئے ہیں جن میں ایک جگہ نوجوانوں
کی بڑی تعداد زمین پر پڑی تڑپ تڑپ کر جان دے رہی ہے جبکہ دوسرے منظر میں
معصوم بچوں کی کافی تعداد کو دکھایا گیا ہے جو تڑپ رہے ہیں اور تڑپتے ہوئے
ان کے منہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی۔ ڈھائی منٹ کی یہ ویڈیو دیکھ کر کوئی
بھی شخص نارمل حالت میںنہیں رہ سکتا، اس پر ایک بار سکتہ ضرور طاری ہوجاتا
ہے۔ خیال رہے کہ مہلک گیس سے لیس میزائل حملوں کا ہدف بنائے گئے یہ تینوں
قصبے دمشق کے جنوب میں واقع ہیں اور جغرافیائی طور پر باہم مربوط ہیں۔
زملکا میں ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ مہلک گیس پھیلانے والے بم حملوں کے
نتیجے میں علاقے میں خوفناک انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے۔ متاثرہ علاقوں
میں زہریلی گیس سے متاثرہ سینکڑوں بچے اور خواتین بے یارو مددگار سسک سسک
کر مر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن کا کہنا تھا کہ اب تک ہسپتالوں میں
لائی جانے والی میتیں اور تمام زخمی عام شہری ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں اب
بھی بڑی تعداد میں میتیں اور زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ زملکا کے موبائل ہسپتال کے
ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ چند گھنٹوں کے دوران ہسپتال میں زخمیوں کی ایک بڑی
تعداد لائی گئی ہے جن میں بیشتر بچے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زملکا قصبے
میں صرف دو موبائل ہسپتال ہیں، جن کے پاس ادویہ، ڈاکٹر اور ایمبولینس سروسز
کی شدید قلت ہے، جس کے باعث وہ زخمیوں کا مناسب علاج نہیں کر پار ہے ہیں۔
ڈاکٹر نے خدشہ ظاہر کیا کہ مہلک گیس سے متاثرہ شہریوں کی تعداد میں
غیرمعمولی اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہسپتال میں مسلسل زخمیوں کو لایا جا رہا
ہے۔ شام میں سرکاری فوج نے مہلک گیس خارج کرنے والے میزائل حملے ایک ایسے
وقت میں کیے ہیں جب اقوام متحدہ کے کیمیائی معائنہ کاروں کا ایک مشن
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات میں بھی مصروف ہے۔ واضح رہے کہ تین
ماہ پہلے بھی اسدی فوج نے شام میں بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے
کیے تھے، جن میں بڑی تعداد جاں بحق ہوئی تھی۔اس وقت فرانسیسی وزیر خارجہ
لوراں فیبیوس نے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شامی حکومت نے
اپنے ملک میں جاری بحران کے دوران سارین گیس استعمال کی ہے۔لوراں فیبیوس کا
کہنا تھا کہ پیرس میں کیے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ کئی بار نرو ایجنٹ
نامی کیمیائی استعمال کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا کہ جنہوں نے ان ہتھیاروں
کا استعمال کیا ہے انہیں سزا ملنی چاہیے۔ اس سے بھی قبل اقوامِ متحدہ کی
ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’یقین کرنے کے شواہد‘ ملے ہیں کہ شام میں
حکومتی فورسز نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں اور”اس بات میں کوئی شبہ
نہیں ہے کہ شام کی حکومت اور اس کے آلہ کار اس (سارین گیس کے استعمال) کے
ذمہ دار ہیں۔“ یاد رہے کہ سارین ایک بے رنگ اور بے بو گیس ہے جس کا استعمال
کئی ممالک کی جانب سے ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ایسی معلومات
سامنے آئی ہیں جس میں مارچ اور اپریل میں چار مواقع ایسے تھے جن میں
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف نشاندہی ہوتی ہے۔ ”اتنے شواہد موجود
ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری سیکورٹی فورسز نے انیس مارچ کو حلب میں
خان الاصل، انیس مارچ کو دمشق میں اوتیبا، تیرہ اپریل کو حلب میں شیخ مقصود
کے مضافات اور انتیس اپریل کو صوبہ ادلیب میں سراکب پر حملوں کے دوران
محدود مقدار میں زہریلا کیمیائی مواد استعمال کیا“۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا
کہ شام میں کشیدگی ’ظلم اور سربریت کی نئی حدوں کو چھو رہی ہے۔
دوسری جانب مصر میںفوج کی جانب سے امریکا اوراسرائیل کی سرپرستی میں لگائی
گئی آگ بھی مزید بھڑکائی جارہی ہے۔اپنے حق کا مطالبہ کرنے والے چار ہزار
مظاہرین کو شہید اور پندرہ ہزار کو ٹینکوں تلے روندنے کے بعد بھی اسلام
دشمنوں کی آتش نمرود ٹھنڈی نہیں ہوئی۔امریکااور اسرائیل کی سرپرستی میں مصر
سے اسلام پسندوں کو ملیامیٹ کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ
کر تلاش کیا جاتا ہے اورلامتناہی مدت تک کے لیے جیل کی کال کوٹھری میں ڈال
دیا جاتا ہے۔ویسے تو اپنے آپ کو فرعون کے جانشین کہلانے والوں کی پہلی
کارروائی کے بعد سے ہی مصر میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں
کوپابندسلاسل کیا جارہا ہے۔اب تک ان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں
جاپہنچی ہے۔ان قربانی دینے والوں میں کارکنان بھی ہیں اور رہنماءبھی۔پیرکے
روزمصر کی سیکورٹی فورسز نے الاخوان المسلمون کے ستر سالہ مرشدعام ڈاکٹر
محمد بدیع کو گرفتار کیا اور ان کی توہین کی۔ مصر کے سرکاری اور نجی ٹیلی
وڑن چینلز نے محمد بدیع کی سیکورٹی فورسز کی حراست میں تصاویر جاری کر دی
ہیں۔سیکورٹی فورسز اس سے پہلے الاخوان المسلمون کے نائب مرشد عام خیرت
الشاطر اور معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی اور اخوان کے درجنوں دوسرے رہنماوں
اور ہزاروں کارکنوں اور حامیوں کو بھی گرفتار کر چکی ہے۔وزارت داخلہ کے
مطابق مرشد عام محمد بدیع کو مسجد رابعہ العدوایہ کے قریب ایک اپارٹمنٹ سے
گرفتار کیا گیا ہے۔ جہاں چند روز پہلے تک مرسی کی بحالی کے لیے طویل دھرنا
جاری تھا تاہم سکیورٹی فورسز نے ایک خونی کارروائی میں تین ہزار افراد کو
شہید اور دس ہزارکو زخمی کر کے اس دھرنے کو ختم کر دیاتھا۔یاد رہے کے ہفتے
کے روز رمسیس چوک میں ہونے والے ایک حکومت مخالف مظاہرے کے دوران اخوان کے
کرشد عام محمد بدیع کے چھتیس سالہ بیٹے عمار بدیع کو مصر کی سکیورٹی فورسز
نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔تین جولائی کو محمد مرسی کو اقتدار سے الگ
کیے جانے بعد ہی سے وہ مسلسل روپوش تھے۔ کارکنوں کو مظاہروں پر اکسانے سمیت
دیگر کئی الزامات کے تحت دس جولائی کو ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا
گیا تھا۔قبل ازیں عبوری انتظامیہ کی جانب سے ان کے تمام اثاثہ جات بھی
منجمد کر دیے گئے تھے۔ محمد بدیع کی تمام عمر جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ وہ
اس سے قبل بھی کئی بار سیاسی وجوہات کی بنا پر گرفتار ہوچکے ہیں۔مصر کی
سرکار نے برطرف صدر محمد مرسی کو تشدد آمیز کارروائیوں میں حصہ لینے کی
پاداش میں مزید پندرہ روز تک زیر حراست رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس دوران
ان سے مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تفتیش کی جائے
گی۔مصری حکام نے اخوان المسلمون کے ترجمان سمیت مزید دو عہدیداروں کو حراست
میں لے لیا۔ گرفتار ہونے والے رہنماو ¿ں میں اخوان المسلمون کے ترجمان مراد
علی بھی شامل ہیں ۔ اخوان المسلمون کے دوسرے رہنما سفوت حجازی کو لیبیا کی
سرحدی چیک پوسٹ پر حراست میں لیا گیا۔جبکہ مصر میں اخوان المسلمون کے نائب
مرشد عام دوم محمود عزت کو قائم مقام مرشد عام مقرر کر دیا گیا ہے، انہیں
یہ اہم ذمہ داری ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب اخوان المسلمون کو مصری
فورسز کے سخت ترین کریک ڈاون کا سامنا ہے اور مرشد عام کو سیکورٹی فورسز نے
حراست میں لے لیا ہے۔محمود عزت اس سے پہلے اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل
کے منصب پر فائز رہنے کے علاوہ مصر کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کی اعلی
ترین رہنما کونسل کے بھی رکن رہے ہیں۔ وہ ان دنوں اخوان المسلمون کے نائب
مرشد عام دوم کے طور فرائض انجام دے رہے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مصری حکومت کو اس بات کی سمجھ نہیں آ
رہی کہ اخوان المسلمین کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔ اب اگر حکومت کسی قسم کی
نرمی دکھاتی ہے تو اسے اخوان کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف سمجھا جائے
گا۔حالیہ دنوں میں حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ اخوان پر پابندی لگائی جا سکتی
ہے۔ پیر کے روز حکام نے کہا کہ اخوان کی سیاسی شاخ حریت و عدل پارٹی کا
سیاسی لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ اس قسم کی پابندیوں سے ان مصریوں کی
تشفی تو ہو سکتی ہے جو اخوان کو فاشٹ دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں، لیکن اس
کے ساتھ ہی اخوان حسبِ سابق زیرِزمین چلی جائے گی۔اگر ایسا ہوا تو تو یہ
بڑی غلطی ہو گی کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اخوان کے ساتھ اس صورت میں نمٹنا
آسان ہوتا ہے جب وہ سیاسی عمل میں شامل ہو۔فی الحال حکومت اخوان کے خلاف
بڑے پیمانے پر کارروائی کر رہی ہے۔ اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا
جا چکا ہے، جس میں اخوان کی اعلیٰ قیادت بھی شامل ہے۔ اس کے اثاثے منجمد
کیے جا چکے ہیں، اور اس سے منسلک میڈیا بند کر دیا گیا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے
کہ اخوان کی بیخ کنی نہیں کی جا سکتی۔ ماضی میں ایسی بہت سی کوششوں کو
ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر جنرل اسیسی
سے کہیں زیادہ مقبول اور طاقت ور تھے۔ لیکن وہ بھی اخوان کے بین العرب
نظریات اور معاشرے کو اسلامی بنیادوں پر سدھارنے پر ایمان کو نہیں مٹانا
سکے اور ان کی وفات کے بعد اخوان دوبارہ ابھر کر سامنے آ گئی۔یہ بھی نہیں
ہو سکتا کہ اخوان خود ہی ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹ جائے۔ اس کے حامیوں کا محرک
مذہب ہے۔ وہ انتقام چاہتے ہیں اور انھیں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ ان سے
ناانصافی برتی گئی ہے۔فوج کے ہاتھوں اخوان کے حمایت یافتہ صدر محمد مرسی کی
معزولی اس ناانصافی کی علامت بن گئی ہے۔ بہت سے لوگ جو بغاوت سے قبل اخوان
سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے، وہ بھی اب اپنے مشترکہ دشمن فوج کے خلاف ان
کے حامی بن گئے ہیں۔اگرچہ اخوان کے بطن سے کئی شدت پسند تنظیمیں پھوٹیں،
خود اس نے کئی عشرے پہلے تشدد کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ کسی
بھی دوسری امن پسند سیاسی جماعت کی طرح کام کرتی رہی ہے اور اس کے رہنما
نظم و ضبط کی شہرت رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اعلیٰ رہنماو ¿ں کی
گرفتاری اور موت سے ممکن ہے کہ تنظیم کی قیادت کا جذباتی کارکنوں پر سے
کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔اگر ایسا ہوا تو اخوان کے بہت سے ارکان
اسے چھوڑ کر جہادی تنظیموں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اس سے مصر میں 1971 سے قبل
کے زمانے کی دہشت گردی جیسا ماحول لوٹ آئے گا، جب فوجی تنصیبات، سرکاری
اداروں اور سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ان دنوں مصر میں ہتھیاروں
کی فراہمی زیادہ مشکل کام نہیں ہے اور لیبیا اور وادیِ سینا دونوں سے وافر
مقدار میں اسلحہ آ سکتا ہے۔اسی دوران حکومت پورا زور لگا رہی ہے کہ اخوان
کو دہشت گرد تنظیم کے روپ میں پیش کیا جائے ۔ماضی کی فوجی حکومتوں کی طرح
حالیہ حکومت کے کرتا دھرتا بھی اخوان کو اپنے کاموں پر پردہ ڈالنے کے لیے
قربانی کا بکرا بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعود الفیصل کا کہنا ہے کہ اگر مغربی ممالک مصر میں
برطرف صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر اس ملک کے لیے امدادی
رقوم کو روکتے ہیں تو عرب اور اسلامی ممالک اس کو امداد دینے کو تیار ہوں
گے۔سعودی عرب اور کئی دوسرے عرب ممالک امریکا کی ایما پر مصری فوج کی مکمل
حمایت اور امداد کررہے ہیں۔ جبکہ تمام عالم اسلام کے علماءکران تو ایک طرف
اسی سعودی عرب کے بے شمار علماءکرام نے بھی برملا کہا ہے کہ سعودی حکومت کا
ظالم مصری فوج کی حمایت کرنا سراسر ناجائز ہے۔ اس وقت مظلوم مصری عوام کی
حمایت کرنا ضروری ہے۔ جو اس معاملے میں خاموشی اختیار کرے گا وہ ظلم کرے
گا۔جبکہ مصری عوام کے حق میں صرف ایک ترکی کا واضح اور دوٹوک موقف سامنے
آیا تھا جس میں ترک وزیراعظم نے مصرکے حوالے سے عالم اسلام بالخصوص خلیجی
ملکوں کے کردار کو 'شرمناک' قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ مصریوں کے ساتھ ان
ملکوں نے وہی سلوک کیا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ اس کے بھائیوں
نے کیا تھا۔بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ذریعے حضرت یوسف کو بچا
لیا اور ان کے بھائیوں کو سب کے سامنے ذلیل اور رسوا کیا تھا۔ ترک وزیراعظم
کا کہنا ہے کہ مصرکے ساتھ برادران یوسف کا رویہ اپنانے والی مسلمان حکومتیں
بھی آخرکار پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہوں گی۔ مصرمیں فوجی کی چھتری تلے
قائم عبوری حکومت ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن کے بیانات پرسخت سیخ پا ہے۔
عبوری صدر منصورالعدلی کے مشیراطلاعات نے احمد المسلمانی نے طیب ایردوآن کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مغربی ایجنٹ ہمیں جمہوریت اور قومیت کا درس نہ
دیں۔“ وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے اپنے بیان میں مصر میں منتخب حکومت کا
تختہ الٹنے کو صریح فوجی بغاوت قرار دیا تھا۔
|