حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی اور بربادی کو دیکھ کر دل بوجھل سا ہواجارہا ہے اس
بربادی اور تباہی کی ساری ذمہ داری ہمارے حکمرانوں کی ہے جن کو ہم اپنے ووٹوں سے
اسمبلیوں میں لاتے ہیں اور وہ پاکستان اور عوام کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے
بارے میں سوچتے ہیں کسی بھی بحران پر کوئی واضح پالیسی بنانے اور تمام سیاسی
جماعتوں میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جیسا کہ آج کل سیلاب سے
ساری قوم عذاب میں مبتلا ہے عجیب حال ہے ہمارے حکمرانوں کا بھی جن کو پیشگی سیلاب
کی اطلاعات کے باوجود یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس ممکنہ سیلاب کو روکنے کے لئے کوئی
حکمت علمی تیار کی جانی چاہیے یا نہیں اس میں کوئی بھی ایک جماعت نہیں بلکہ تمام
سیاسی جماعتیں شامل ہیں کسی کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے کہ اس آفت سے کیسے نمٹا
جائے کسی کے منشور میں آنے والی اس آفت کے بارے میں کو واضح حکمت علمی نظر نہیں آتی
یہ جاننے کے باوجود کہ مون سون کا سیزن تو ہر سال آتا ہے اور ہر دوسرے سال ہماری
قوم سیلاب سے متاثر ہوتی ہے تو کیوں نہ اس کے سد باب کے لئے کوئی ایسا انتظام کیا
جائے کہ جس سے نقصان کے بجائے فائدہ ہو اور ایسا فائدہ جو کہ ملک کی ضرورت بھی ہے
دنیا بھر میں یہ مثال عام ہے کہ جن جن ملکوں میں سیلاب آتے ہیں وہاں کی حکومتیں
ایسے منصوبے ترتیب دیتی ہیں جن کی وجہ سے ان کی آئیندہ کی نسلیں اس آفت سے مخفوظ ہو
جاتی ہیں انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس کو سوچنے سمجھنے کی
طاقت دی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ ان آفتوں سے کیسے خود کو محفوظ رکھنا ہے لیکن
ہمارے ہاں ان آفتوں سے محفوظ رہنے کی نہیں شائد ان سے متاثر ہونے کی کوشش کی جاتی
ہے کہ شاید ایسے میں کوئی عالمی امداد مل سکے اور ہمارے حکمرانوں کافائدہ ہو سکے
عالمی سطح پر جن ممالک میں سیلاب کا خطرہ ہر سال رہتا ہے وہاں پر ڈیم تعمیر کر کے
اس کے نقصان کو کم سے کم کیا جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق ہمارا پڑوسی ملک اس وقت
ڈیم تعمیر کرنے میں سب سے آگے ہے جہاں پر تقریبا دو سو ڈیموں کی تعمیر کا پلان
بنایا جا چکا ہے اور ان میں سے بیشتر پر کام کا آغاز ہو چکا ہے لیکن ہم ۔۔۔۔ہم ابھی
تک اپنے ذاتی اور سیاسی جھگڑوں سے آگے نہیں نکل سکے تو ملک اور قوم کے بارے میں کیا
سوچیں گے ملک اس وقت جن بحرانوں سے گزر رہاہے ان میں ایک اور بحران سیلاب کا اضافہ
ہو چکا ہے ہمارے ہاں پالیسیاں نہیں بلکہ صرف باتیں بنائی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر
کچھ بھی نہیں کیا جاتا اگر کالا باغ ڈیم کو تعمیر کر لیا جائے تو اس آنے والے سیلاب
کو ستر سے اسی فیصد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن اس سارے معاملے میں ہماری سیاسی
جماعتوں کی سیاست کا جنازہ نکل جانے کا خدشہ ہے جو کہ بے بنیاد ہے کیونکہ انھوں نے
اس کالا باغ ڈیم کو سامنے رکھ کر سیاست کرنی ہے اور قوم کو لڑانا ہے قوم مرے یا جیے
انھیں کوئی سروکار نہیں کالا باغ ڈیم پر ہونے والے اعتراضات بے بنیاد من گھڑت اور
دشمن کے پھیلائے ہوئے بے بنیاد پروپگنڈے کی عکاسی کرتے ہیں اگر باریک بینی سے جائزہ
لیا جائے تو اس کے فائدے بے شمار ہیں جن میں دو سب سے اہم ہیں بجلی کی اضافی
پیداوار اور سیلابوں سے ممکنہ حد تک بچاؤ جس کے سامنے ہونے والے تمام ممکنہ نقصانات
کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔کالا باغ ڈیم جس کو سابقہ حکومت نے آتے ہی سرد خانے میں ڈال
کر پوری پاکستانی قوم کو اندھیروں میں دھکیلاتھایہ جاننے کے باوجود کے کالا باغ ڈیم
تو پاکستان کی لائف لائن ہے آج پوری قوم بجلی کی کمی اور سیلاب کے بحران کا سامنا
کر رہی ہے مگر کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ کالا باغ ڈیم پاکستان
کی بنیادی ضرورت ہے اس کو ضرور بننا چاہیے ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی سیاسی مصلحت
کا شکار نظر آتی ہے کالا باغ ڈیم منصوبے کو ختم کرنے پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں
منائی گئی کیونکہ بھارت کھبی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کوئی عوامی افادیت اور
خاص طور پر آبی منصوبہ مکمل ہوبھارت پاکستان میں تعمیر ہونے والے ڈیموں کو روکنے کے
لئے اربوں روپے ان لوگوں میں بانٹ رہا ہے جو کہ اس سلسلے میں اس کے ہمنوا بنے ہوئے
ہیں اب جبکہ ملک انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور بجلی اور سیلاب کا بحران
شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور حکمران چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں ان
بحرانوں سے نجات کے لیے اگر کوئی سب سے آسان اور سستا منصوبہ ہے تو وہ کالا باغ ڈیم
ہیں جو کہ نام نہاد محب وطن لیڈروں کی وجہ سے رکا ہوا ہے جس کو بہت کم وقت تقریبا
پانچ سال میں پایا تکمیل تک پہنچایاجاسکتا ہے جس پر اب تک تقریبا ایک ارب روپے خرچ
ہو چکے ہیں فیزیبیلٹی رپورٹس تیار ہیں لیبر کالونیاں تعمیر ہو چکی ہیں سائیڈ آئیڈیل
ہونے کی وجہ سے کم خرچ میں منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے جس سے معیشت کا پہیہ بھر سے رواں
دواں ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سال آنے والے سیلاب سے بھی بچا جا سکتا ہے بات صرف عملی
کام کی ہے بات ہے صرف محب وطن قیادت اور محب وطن سوچ کی ہے اگراس بار عوام نے ن لیگ
کو مینڈیٹ دیا ہے تو ان کو چاہیے کہ ایسے عوامی افادیت کے منصوبوں پر کسی قسم کی
سیاسی مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے سر عام ایسے منصوبوں کی حمایت کریں اور پاکستان
کی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے کچھ کر دیکھائیں کالا باغ ڈیم سے پاکستان اور
پاکستان کے عوام کی ترقی اور کامرانی اور بحرانوں سے نجات کی واضح جھلک نظر آتی
ہواور ایسے منصوبوں کے لئے تمام صوبوں میں مصالحت پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ملکی
افا دیت کا یہ عظیم منصوبہ شروع کیا جا سکے جس سے نا صرف بجلی کی اضافی پیدوار
متوقع ہے بلکہ ان آنے والے سیلابوں سے بھی نجات ممکن ہے اور سارا سال ملکی نہروں کے
لئے پانی کی فراہمی بھی اس منصوبے کی بدولت ممکن ہے ضرورت ہے تو عملی اقدامات کی جس
کے بارے میں اس حکومت پر عوام کو بہت سی توقعات ہیں اور عوام امید رکھتے ہیں کہ ان
بحرانوں سے نجات کے لئے موجودہ حکومت یہ عملی اقدامات کر کے دیکھائیں گے ۔ |