سزائے موت اور حکومت

زبانی طیور کی اڑتے اڑتے ہم تک بھی یہ خبر پہنچی ہے کہ مرکز کی نوزائیدہ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ زرداری کے نحوست بھرے دور کے بہت سے فیصلوں کی طرح سزائے موت روکنے کے سفاکانہ فیصلے کو بھی رد کرتے ہوئے سزائے موت کے تمام مجرموں کی سزا پہ جلد از جلد عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔یاد رہے کہ ان قاتلوں میں نہ صرف وہ قاتل بھی شامل ہیں جو سرحد پار سے آ کے ہمارے معصوم لوگوں کی جان لیتے رہے بلکہ وہ بھی جو اس مادر وطن کا بوجھ ہیں اور اپنی ہی ماں کی کھوکھ اجاڑنے پہ تلے ہیں۔نام نہاد طالبان جنہیں پرانا وزیر داخلہ بجا طور پہ ظالمان کہا کرتا تھا۔اس میں وہ اغوا کار بھی شامل ہیں جنہوں نے معصوم بچوں اور جوانوں کے ماں باپ سے پہلے ان کا سارا مال اسباب لوٹا اور پھر ان کے جگر گوشے بھی قتل کر کے کسی ویرانے میں پھینک دئیے۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لیں تو وہ بھی جنہوں نے چار چار سال کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کی اور پھر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔اور ان میں دو چار شاید وہ دانے بھی ہیں جنہوں نے اپنی دھن دولت کے آسرے اور سہارے پہ کسی مظلوم کو دن دھاڑے مار گرایا۔

اس خبر کو سن کے ہمیں لگا تھا کہ اب ملک میں امن بھی آ جائے گا جب ان ظالموں کی لاشیں بالآخر ان کے گھروں میں پہنچیں گی تو ارد گرد کے لچوں ٹنڈوں اور غنڈوں کو بھی کان ہوں گے کہ اب اس ملک میں جرم کر گے تو سزا بھی ملے گی۔یوں جرم کی بیخ کنی ہو گی۔معاشرے میں حکومت نظر آنا شروع ہو جائے گی۔انصاف کے لئے ترستے لوگوں کو انصاف ملتا نظر آئے گا تو معاشرے میں پھیلی نحوست اور بے چینی بھی کم ہو گی اور معاشرہ ایک تبدیلی کا منظر پیش کرنے لگے گا۔کہتے ہیں کہ انصاف کا دیر سے ملنا انصاف نہ ملنے ہی کے مترادف ہوتا ہے۔یہاں پہلے تو مجرم پکڑے ہی نہیں جاتے۔ان کی بد قسمتی آڑے آئے اور وہ پکڑے جائیں تو پولیس کی تفتیش ہمیشہ ہی مجرموں پہ مہربان ہوتی ہے۔ ان کی مہربانی سے ملزم کبھی مجرم کا روپ ہی نہیں دھارتا۔اگر کوئی انتہائی بدنصیب اس چھاننی سے بھی نکل جائے تو وہ عدالتوں میں جا کے بقول انور مسعود خان، وکیل کی بجائے جج کر لیتا ہے اور چھوٹ جاتا ہے۔ان سارے ناکوں کو توڑ کے اگر پھانسی گھاٹ کا پروانہ حاصل کر ہی لے تو اسے بچانے کو قومی اور بین الا قوامی کن ٹٹے میدان میں کود پڑتے ہیں۔

نون کی نوزائیدہ حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ پھانسی کے منتظر لوگوں کو انتظار کی کوفت سے نجات دلائی جائے گی ۔اس کے جواب میں انہیں پیغام ملا کہ آپ نے اگر ان مجرموں کو پھانسی پہ لٹکایا تو آپ کو بھی زندگی سے نجات دے دی جائے گی۔یہ پیغام ملتے ہی یاروں کی گھگھی بندھی ہے اور یہ فیصلہ گلے کی چھچھوندر بن گیا ہے جسے نہ نگلتے بنتی ہے نہ اگلتے۔فیصلے پہ فی الحال عمل درآمد معطل کر دیا گیا ہے اور کوئی موٹا بہانہ سوچنے کے لئے کچھ عینک والے اور کچھ کوٹوں والے جن سر جوڑ کے بیٹھے ہیں۔دیکھئیے اب یہ اوکھلی سے اپنا سلامت سر کیسے برآمد کرتے ہیں۔

جان کا بدلہ جان ہے کہ یہ ہمارے واحد اور سچے اﷲ کا فرمان ہے۔اﷲ کریم قرآن عزیز میں فرماتے ہیں کہ ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اسی طرح جان کے بدلے جان۔اس ملک کے آئین کے مطابق کوئی ایسا قانون بنایا ہی نہیں جا سکتاجو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہو۔انٹرنیشنل کمیشن آف جسٹس کے ویلڈر ہوں یا پاکستان میں ان کے گماشتے،یہ یاد رکھیں کہ پاکستان اﷲ کریم کا عطیہ ہے۔اﷲ کے نام پہ بنا ہے اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اور اسے اپنے مذہب سے از حد لگاؤ بھی ہے۔اﷲ کے دئیے ضابطہ حیات کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف کامیاب نہ ہو گی بلکہ ملک میں مزید نحوست بد امنی اور انتشار کا باعث ہو گی۔ہم تو آپ ہی مہربانیوں کے طفیل پچھے گیارہ سالوں سے لاشے اٹھا اٹھا کے اب عادی ہو گئے ہیں لیکن آپ کے والد گرامی کو اگلے سال افغانستان سے واپس بھی جانا ہے۔ ٓپ اس کے راستے میں بھی کانٹے بچھا رہے ہیں۔جتنی لاشیں آپ اور آپ کے خداوند کی مہربانیوں سے ہم روز اٹھاتے ہیں اتنی اگر اس خطے میں بد امنی اور انتشار کی بناء پہ اسے اٹھانی پڑ گئیں تو آپ کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔

ملکی حکمران بھی اس نوشتہ دیوار کو پڑھ لیں کہ اگر اس طرح کی کسی حرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی ڈولتی ناؤ کو شاید ہی کوئی کنارہ میسر آ سکے۔ اس لئے انسانی حقوق کے ان ٹھیکیداروں کو کھلے عام بتایا جائے کہ پھانسی کی سزا عین اسلامی ہے اور اسے اس ملک میں کوئی مائی کا لال تبدیل کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے اس ملک میں ایسی نحوست آئے گی جس کے تعفن سے معاشرے کے دماغ کی شریانیں پھٹ جائیں گی۔قتل وغارت کا بازار گرم ہو گا۔ حکومتی رٹ جو پہلے ہی ملک میں منہ چھپائے پھرتی ہے کہیں اور منہ کر جائے گی۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون تو ویسے بھی اپنے ہاں رائج ہے لیکن پھر یہ آرڈر آف دے ڈے کی شکل اختیار کر لے گا۔آخر میں عزت اور جان کی امان پاؤں تو از خود نوٹس کی ایک درخواست میں بھی کر ڈالوں کہ اگر بیوی سے لڑ جھگڑ کے خود کشی پہ آمادہ ایک شخص کی بے کار فائرنگ پہ ازخود نوٹس ہو سکتا ہے تو ملک کو انارکی کی نذر کرنے والی اس حرکت پہ کیوں نہیں؟
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268817 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More