مصر میں ایک بڑاانسانی المیہ جنم
لے رہا ہے ۔مصرمیں جمہوریت کی بحالی کے لئے اور مرسی کی رہائی کے لئے
احتجاج کرنے والے پُر امن اورنہتے مظاہرین کاقاہرہ میں جس طرح قتل کیاگیاہے
اس نے یقینا چین کے تھین مین چوک کے المیے کی یاد تازہ کر دی ہے جہاں کئی
سال پہلے حکومت کے خلاف دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہزاروں انسانوں کو ایک ایسے
وقت میں بلڈوزروں سے کچل کرہلاک کردیاگیاتھاجب وہ گہری نیند سو رہے تھے۔آج
قاہرہ کی رابعہ چوک پرمرسی کے حامیوں کو زمین اورآسمان دونوں طرف سے گھیرکر
دردناک موت سے دو چارکردیا گیا۔اب تک مرنے والوں کی تعداد تقریباً
چارہزاربتائی جا رہی ہے اوراس سے دگنے لوگ زخمی بھی ہیں۔ویسے توسرکاری
ذرائع نے ابھی تک مرنے والوں کی تعدادبہت کم ظاہرکی ہے لیکن اخوان المسلمون
کی ویب سائٹ پر یقین کیاجائے تومصری فوج نے ظلم وبربریت کی انتہاکوپار کر
لیاہے اورہزاروں لوگوں کوبے دردی سے موت کی وادی میں پہنچادیاہے۔مصری فوج
نے انقلاب کے بعدقائم ہونے والی پہلی آئینی منتخب حکومت کے صدرمحمدمرسی
کوبرطرف کرنے اورپارلیمنٹ کوتحلیل کرنے کے بعدبحالی جمہوریت کی جد و جہد کے
خلاف بد ترین فوج کشی شروع کر دی ہے۔مصری فوج نے اپنے ہی عوام پروحشیانہ
اوربد ترین قتل عام شروع کرتے ہوئے بد ترین ریاستی دہشت گردی
کاآغازکردیاہے۔مصر میں پہلی منتخب اور جمہوری حکومت کی فوجی بغاوت کے ذریعے
برطرفی کے بعد حسنی مبارک کا جابرانہ اور مستبدانہ دورواپس آگیاہے۔’’
انقلاب‘‘ کومصرکی فوج،مفاد پرست اشرافیہ اورسیکولرو لبرل ذرائع ابلاغ نے
اوّل دن سے ہی قبول نہیں کیاتھاکیونکہ عوامی بیداری کے نیتجے میں انتخابات
میں اخوان المسلمون کی قیادت میں اسلامی قوتوں نے کامیابی حاصل کر لی
تھی۔مگرایک برس کے انتظارکے بعدمصر کی فوج نے بھی الجزائر کی تاریخ دہرادی
اورمصرمیں خانہ جنگی کی سازشوں کی ناکامی کے بعداخوان المسلمون کے کارکنان
کے خلاف تاریخ کے بد ترین جبروتشددکاآغاز کردیاہے۔یہاں یہ امربھی قابلِ
ذکرہے کہ محمدمرسی کی برطرفی کے بعدسے مصرکے عوام اخوان المسلمون کے پرچم
تل پُر امن احتجاجی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔جس کامظہررابعہ العدویہ (رابعہ
بصری) مسجداورالنہضہ اسکوائرپرایک ماہ سے جاری دھرناتھاجس کی وجہ سے جنرل
عبد الفتاح السیسی اوراس کی امریکہ نوازٹیم کامنصوبہ ناکام
ہوتانظرآرہاتھا۔احتجاجی تحریک کے خاتمے کے لئے مصری حکومت کاتازہ کریک ڈاؤن
غیرمتوقع نہیں تھا۔یہاں کوشش اس بات کی جاری تھی کہ اخوان المسلمون کی
قیادت کمزوری دکھائے اوروہ اپنے وہ اپنے تمام غیر جمہوری اقدام کو دنیا کے
سامنے جائز قراردے سکیں۔لیکن اخوان المسلمین کی قیادت اورمصری مسلمانوں کی
استقامت نے مصراورپوری دنیا میں روشن خیال چہرے پرسے نقاب الٹ دیاہے۔مصرکی
حکومت اورفوج گزشتہ ساٹھ برسوں سے زائدعرصے سے تعذیب و تشددکے ذریعے اسلامی
تحریکوں کوکچلنے کی روش پرگامزن تھی۔یوں عرب بہاراور منتخب اسلامی حکومت کی
برطرفی کے بعدمصری فوج کی چنگیزیت کاکارنامہ پوری دنیا نے دیکھ لیاہے۔
یہاں یہ امربھی قابلِ ذکرہے کہ مصرمیں معزول صدر محمدمرسی کی بحالی کے لئے
کئی ہفتے سے جاری جد وجہداب ایک نئے موڑمیں داخل ہو گئی ہے جب فوجی عوام
اوراس کی قائم کردہ عبوری حکومت کے حکم پرفوج قاہرہ کی سڑکوں پردھرنے دینے
والے جمہوریت پسندوں پرٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چڑھا رہے ہیں اورانہیں
اندھادھندگولیوں کانشانہ بنارہے ہیں۔اس خونی کھیل کے بعدملک بھرمیں ایک ماہ
کے لئے ایمرجنسی نافذکردی گئی ہے۔صدیوں کی شہنشاہیت اورپھرنصف صدی سے زائد
عرصہ پرمحیط فوجی آمریت کے بعددنیاکی قدیم ترین تہذیب کے حامل اس ملک کی
تاریخ میں جمہوریت کاسورج طلوع ہوئے کچھ عرصہ نہیں گزرا۔عوام کوپہلی
باربراہِ راست ووٹوں سے اپنے حکمرانوں کے انتخاب کاموقع ملاتوانہوں نے
اخوان المسلمون کوپارلیمنٹ میں بھاری اکثریت دلائی اوراس کے رہنما محمدمرسی
کوصدرمنتخب کرلیا۔صدرمحمد مرسی نے نہایت محتاط انداز میں نظامِ حکومت میں
جمہوری تبدیلیاں لانا شروع کیں جوملک کی سیکولرقوتوں کوپسند نہ آئیں۔بعض
بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی سے انہوں نے صدر کے خلاف مظاہرے شروع کر
دیئے۔اس سے فوج کوشہ ملی اوراس نے حکومت کاتختہ اُلٹ دیا۔بدھ کے دن ہوئے
خونی واقعے نے ساری دنیاکوچونکادیاہے۔ایک ایسے وقت میں جب عالمِ اسلام امن
واستحکام کے حوالے سے بے تحاشہ مسائل کا شکارہے،مصرکی صورتحال ملتِ اسلامیہ
کے علاوہ جمہوریت پریقین رکھنے والی تمام قومیتوں کے لئے بھی تشویش کاباعث
ہے،اس پرقابو پانے کے لئے بے حدضروری ہے کہ عوام کے جمہوری حقوق بحال کیئے
جائیں۔فوج واپس بیرکوں میں جائے اورغیرجانبدارمبصرین کی نگرانی میں نئے
انتخابات کرائے جائیں۔
مصر میں سیکوریٹی فورسزنے دارالحکومت قاہرہ کی الفتح مسجد کاابھی تک محاصرہ
کررکھاہے۔جہاں معزول صدرمحمد مرسی کے حامی جمع ہیں۔ حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ
مسجدمیں مسلح افرادبھی موجودہیں جوسکیوریٹی فورسزپرفائرنگ کر رہے ہیں۔ایسی
باتیں لغو اوربے بنیاد ہوسکتیں ہیں کیونکہ اگریہ لوگ اسلحہ سے لیس ہوتے
توہزاروں کی تعداد میں فوج کشی میں نہ مرتے۔ویسے بھی مصرکے دارالحکومت
قاہرہ اور دیگرشہروں میں خونریز کریک ڈاؤن کے رد عمل میں کل ’’ یومِ غضب
‘‘احتجاجی مظاہروں کے دوران فوج نے معزول صدرمحمدمرسی کے نہتے حامیوں
پرہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسائیں جن سے کم ازکم دوسوکے قریب لوگ
شہیداورسینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔کل پورادن قاہرہ گولیوں کی گھن گرج
اوردھماکوں سے گونجتارہا۔اخوان المسلمون کے کارکنوں کوسر اورگردن پرتاک تاک
کرنشانہ بنایاگیا۔رعمسیس اسکوائر سمیت آس پاس کی سڑکیں خون سے نہا گئیں
اورہرطرف دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیئے۔پورٹ سعید، اسکندریہ، طنطا، بنی
سیوت،فالوم اوراسماعلیہ میں بھی جھڑپیں ہوئیں ۔ فوج نے
تحریراسکوائرپرمزیدٹینک اوربکتربندتعینات کردیئے ہیں۔اورجمعہ کے بعد’’ یومِ
غضب ‘‘منانے والے مظاہرین پرہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی گئی۔یہ کیسی فوج ہے
جو اپنے ہی لوگوں پرفائرنگ کرکے انہیں ہلاک کررہی ہے۔
ویسے توعالمی سطح پرمصری حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال
اوراس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی شدیدمذمت کی گئی ہے اورمصرمیں
سلامتی کے اداروں اورمظاہرین کے مابین ہونے والی خونریزجھڑپوں کی خبروں نے
یورپ بھرکے رہنماؤں کواس بارے میں سوچ بچارپرمجبورکردیاہے مگرابھی تک کہیں
سے بھی مصرکے عوام پرہورہے زیادتی پرکوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں
آرہے ہیں۔یہاں یہ امربھی قابلِ ذکرہے کہ مصرمیں جاری سیاسی بحران اورپُر
تشدد واقعات کی تازہ لہرنے ملکی سیاحت کی صنعت اور کاروباری سرگرمیوں کوبھی
شدیدمتاثرکیاہے ۔مصری فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کی جانب سے رواں ہفتے
اخوان المسلمین اورمعزول صدرمحمدمرسی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے
تناظرمیں بد امنی کی موجودہ لہرپورے ملک کواپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ملک
بھرمیں اس وقت موجودسیاحوں کوہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے
ہوٹلوں سے باہرنہ نکلیں۔اسی دوران متعددملکوں کی جانب سے مصرکاسفر کرنے کے
خلاف انتباہی احکامات بھی جاری کیئے جاچکے ہیں۔بین الاقوامی اداروں نے اپنے
ملازمین سے گھروں پررہنے کے لئے کہا ہے۔متعدد اداروں،جن میں جنرل
موٹرز،شیل،سوزوکی،ٹویوٹا،بی اے ایس ایف اوردیگرشامل ہیں نے غیرمعینہ مدت کے
لئے وہاں قائم اپنی فیکٹریاں بندکر دی ہیں۔یہ تمام اقدامات اس ملک کودنیا
کے ساتھ قدم ملاکرچلنے کے قابل نہیں چھوڑیں گی۔اس لئے بہترہے کہ مصری فوج
ایسے اقدامات کرے جس سے ملک میں جمہوریت قائم و دائم رہے۔اورعوام بھی پہلے
کی طرح خوش باش طریقے سے رہیں ۔ |