خوشامد اور چاپلوسی جن کا کام سو
ان کو ہی ساجھے نیلم ویلی کے مسائل کے حل کے لیے جہدودجہد کی اور پوری
جہدوجہد دھرتی ماں کا قرض اتارنے کے لیے دن رات کوشاں رہے تحریر ،تقریر اور
احتجاجی مظاہروں سے جس طرح بھی نیلم ویلی کے مسائل کو اقتدار کے ایوانوں تک
پہنچا کر ان کو حل کروانے کی اپنی سی کوشش جاری رکھی ہے میری باتوں کو
سیاسی مخالف کہا جائے یا کچھ بھی لعنت ہو اور ایک ہزار مرتبہ لعنت ان سیاسی
وابستگیوں پر جن کی وجہ سے ہم دھرتی ماں کے مجرم ٹھہریں حقیقت یہ ہے کہ
نیلم ویلی کی موجودہ تمام سیاسی قیادت کو نیلم ویلی کے مسائل سے کوئی غرض
نہیں جیتنے والے کو اقتدار کی اسا ئشوں سے فرصت نہیں اور ہارنے والے کو
دلچسبی نہیں رہی صرف اخباری بیانات پر سیاست چمکای جارہی ہے اور عنقریب خلق
خدا دیکھے گی کہ ان سیاسی نمائندوں کو نیلم ویلی کی عوام کی طرف ٖ سے اتنی
سخت مزاحت کا سامنا کرنا پڑے گا سخت عوامی مزاحمت نیلم ویلی کے لوگوں کو اب
زیادہ دیر تک جذباتی نعروں سے نہیں بہلایا جا سکتا اب ان کو موبائل فون
سروس کی سہولت چاہیے سڑک کی سہولت چاہیے صحت کی سہولیا ت چاہیں تعلیم کی
سہولیا ت کے لیے یونیورسٹی چاہیے وقت آگیا اب نیلم ویلی کی عوام کو فیصلہ
کرنا پڑے گا کہ ان کو سیاسی وابستگیاں عزیز ہیں یا نیلم ویلی عزیز ہے ہمارے
لیے سب محترم ہیں لیکن ان کو نیلم ویلی کی عوام نے اعتماد کا ووٹ دیا ہوا
ہے ان کو عوامی مینڈیٹ کی توہین کسی صورت نہیں کرنی چاہیے سیاسی قیادت کی
ہمدردیاں مشکوک ہو چکی ہے اب جو کچھ بھی کرنا ہے وہ نیلم ویلی کی عوام نے
کرنا ہے کسی سیاست دان سے خیر کی توقع تو رہی نہیں آزاد کشمیر کی حکومت کو
80فیصد ریونیو دینے والے ضلع نیئلم کی حالت یہ ہے کہ نہی موبائل فون سروس
کی سہولت نہ روڈ کی ،نہ صحت کی سہولیات میسر ہیں نا تعلیم کی کس کس بات کو
رونا رویا جائے حلقہ کی منتخب قیادت کو اقتدار کی اسائشوں سے فرصت ملے تو
کچھ سوچے انتخابی وعدے وعدے ہی رئے نیلم ویلی کی حالت بدلنے کی نعرے لگانے
والے بعد از الیکشن کم ہی نظر آتے ہیں آج کے اس دور جدید میں اتنی بڑی
آبادی کو موبائل فون سروس کی بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے کیا یہ ظلم
نہیں ہے بدترین ظلم ہے بدترین ظلم شاردہ دور قدیم سے علمی مرکز رہنے کا
والا قصبہ ہے ایک نے مثال تارٰک رکھتا ہے جس پر نہ صرف اہلیان نیلم بلکہ
اہلیان کشمیر کو بھی فخر ہے شاردہ یونیورسٹی کی تاریخی حثیت کی بحالی کے
لکھا ہر ممکنہ جہدوجہد کی اقتدار کے ایوانوں میں ہم ہیں نہیں وقتا فوقتا
اپنے مضامین میں اس بات کا ذکر کرتے ہی رہے ہیں ہم کہ شاردہ یونیورسٹی کی
تاریخی حثیت کو بحال کرتے ہوئے شاردہ میں یونیورسٹی کیمپس کا اعلان کیا
جائے آٹھمقام سے اپر ویلی جانے والی سڑک کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے
عوامی احتجاج کا بھی حکومت وقت پر اور حلقہ کی قیادت پر کوئی اثر نہیں پڑا
اب 30اگست کو تحریک تحفظ حقوق شاردہ کی کال پر شاردہ ویلی سمیت نیلم بھر
میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے نیلم ویلی کی لوگ بڑے زندہ دل لوگ
ہیں اور بہادر بھی14سال جس جوان مردی سے بھارتی جارحیت کا مظاہرہ کر کہ
ثابت کیا کہ نیلم ویلی کے لوگ اپنے حق کے لیے مرنا جانتے ہیں لیکن شکست
تسلیم کر لینا ان کی ڈکشنری میں نہیں یقینا 30اگست کو بھی ایسے ہی لوگ
نکلیں گے گھروں سے نیلم ویلی کی سیاسی قیادت سمیت آزاد کشمیر اور حکومت
پاکستان سے اپنے مطالبات کے حل کی اپیل کی جائے گی نعرے بازی کی جائے گی
لیکن سوال یہ ہے کہ نیلم ویلی سے الیکشن لڑنے والے وزیر تعلیم محترم میاں
عبدالوحید صاحب ،شاہ غلام قادر صاحب ،الحاج سردسردار گل خندان صاحب سمیت جن
لوگوں نے بھی نیلم ویلی سے الیکشن لڑا چاہیے ان کو 22ووٹ ملے یا 22ہزار
23ووٹ ملے یا23 ہزار وہ لوگ آخر کیوں خاموش ہیں ان کی پراسار خاموشی کا کیا
مطلب لیا جائے دعوئے اور وعدے کرنا کون نہیں جانتا جھوٹے وعدے اور دعوئے تو
پھیری لگا کر سامان فروخت کرنے والا بھی کر جا تا ہے آخر نیلم ویلی کے لوگ
سے کیا انتقام لیا جا رہا ہے کیا؟کون سا جرم کر لیا ہے نیلم ویلی کے لوگوں
نے ؟سیاسی قیادت جس قدر عیاشیاں کر سکی سو اس نے کر لی نیلم ویلی کا خیال
ان کو کبھی تھا نہ ہے ان کو تو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں صرف مفادات ۔۔۔۔۔اب
اگر نیلم ویلی کے لوگوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے تو وہ خود لڑیں گے
کوئی ان کی وکالت نہیں کرنے والا کوئی بھی نہیں اور جن سے توقعات وابستہ کی
تھی انہوں نے مایوس کیا اب 30اگست کو گھروں سے نکلیں نیلم ویلی کے مسائل کے
حل کے لیے تحریک حقوق شاردہ کی کال پر نیلم بھر میں احتجاجی قوت کا وہ بے
مثال مظاہرہ کیا جائے تا کہ ہماری سیاسی قیاد ت کا لگ پتا جائے کے نیلم
ویلی کے لوگ باشعور لوگ ہیں تعلیم یافتہ لوگ ہیں اب ان کو خالی خولی نعروں
اور وعدوں سے نہیں بہلایا جاسکتا اب ان کے مسائل حل کیے بغیر کوئی چارہ
نہیں رہا ۔ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |