حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال
کے بعد خلافت کا جوتسلسل تھا،وہ کسی نہ کسی کمزوریاطاقتور صورت میں راشدہ ،امویہ،
عباسیہ ،اورعثمانیہ کے عناوین تلے اتاترک کے الغائے خلافت 22رجب 1924ء تک
قائم رہی ،ترکوں کی خلافت عثمانیہ کوآخری ادوار میں ’’مردبیمار ‘‘ اس لئے
کہاجانے لگاتھا،کہ 1918 ء کی پہلی عالمی جنگ میں وہ اندر سے اتنی مضمحل
ہوگئی تھی ، کہ گرنے سے قبل ہی اس کے بہت سے اعضاء بکھرگئے تھے ،ان ہی
اعضاء میں سے ایک وہ عظیم مصرتھا جوموجودہ مصر ، لیبیا، سوڈان ،
ارتیریا،جبوتی ،صومالیہ اور منظقۂ شام پرمشتمل تھا،مصرمیں سوئز چینل( جسکی
وجہ سے بحراحمر اور بحرمتوسط دونوں کا ملاپ ہوا ) مغربی قوتوں کے اثر ونفوذ
کا باعث بنا ، جہاں لاکھوں کام کرنے والے مزدور وں کی نگرانی کرنے والے
یورپ سے آئے ہوئے گورے ہی تھے ، اس چینل کے دونوں اطراف دوشہر اس وقت کے
حکمرانوں کے نام سے بسائے گئے تھے ،سعید باشاکے نام سے ’’بورسعید ‘‘ اور
اسماعیل باشاکے نام سے ’’اسماعیلیہ ‘‘۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس منصوبے کی
تکمیل پر اسماعیل باشا نے جوتقریب16نومبر1969ء کو منعقد کی تھی ، اس کے
سامنے الف لیلوی خیالی داستانیں بھی ماند پڑجاتی ہیں ،ہمارے یہاں برصغیر کے
مسلم وغیر مسلم نواب زادوں کی طرح ان نوابوں کی تعلیم وتربیت بھی مکمل
طورپر استعماری ملکوں میں ہوتی تھی، اسی لئے اسماعیل باشا جومصر میں جمہوری
اور منتخب مجلس شوری کے بانی کہلاتے ہیں نے یہ اعلان بھی کررکھاتھا’’ مصر
یورپ ہی کا ایک ٹکڑا ہے ‘‘،جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ مصر عالم اسلام ،خلافت
عثمانیہ اور عالم عربی کے طرزپر نہیں بلکہ یورپی طرز معاشرت و حکمرانی یعنی
سیکولرزم اورالحادپر عمل پیرا رہے گا، ان کے اس نظر یئے کی تشریحات بعدمیں
مصری سیکولر مفکرین طہ حسین ،احمد لطفی ،اسماعیل مظہر ، محمد حسین ھیکل ،
اور عباس محمود عقاد نے اپنی متعدد مقالات وتالیفات میں اسی طرح کیں ،
گویایہاں انہوں نے مغربی طرز پر مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے پر زور دیاہے ۔
مصریوں کا ایک دوسرامسئلہ یہ بھی تھا،کہ وہ اسلاف میں کبھی فراعنہ ،کبھی
مسلم ،کبھی عرب اکابرپر فخر کرتے تھے، پھر ان تینوں میں تاریخی لحاظ سے
منقسم بھی تھے ،اب جدید زمانے میں سیکولرزم اور مغربیت نے ان میں اس حوالے
سے مزید انتشار پیداکردیا، چونکہ یہاں کا مذہبی معاشرہ مسلم ، عیسائی ،یہودی
اورنسلی معاشرہ عرب، قبطی ،افریقی کاپہلے سے ہی ملغوبہ تھا، اب ان میں
سیکولرزاور ملحدین کابھی خاصا اضافہ ہواہے ،مشکل یہ ہے کہ یہاں کے عیسائی
اپنے چرچ کی اتباع میں ریاست اندر ریاست بنائے ہوئے ہیں ،اور قبطی بین
الأقوامی عدالت انصاف کے دروازے پردستک دے چکے ہیں ،کہ مصر کوعالمی برادری
قبطی شہنشاہیت اور اس کی سرکاری زبان عربی کے بجائے قبطی کوقرار دیاجائے ،جامعۃ
الازھربھی گزشتہ ایک ہزار سال سے یہاں ایک عظیم اسلامی شناخت اورمرکز افتاء
وارشادہے ۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں کے اوائل میں شرق اوسط ایک اور خطرناک
مصیبت سے دوچار ہوئی ،وہ یہ کہ یہودیوں نے عثمانی خلیفہ عبد الحمید سے
فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنے کی درخواستیں پیش کردیں ، جن کے ٹھکرانے
کے پاداش میں خلافت شکست وریخت سے دوچار ہوئی اور یہودیوں نے برطانیہ
وامریکا کی آشیرباد سے یہاں زمینوں پر قبضے شروع کئے اور کچھ یہاں چرچ کی
اجازت سے عیسائیوں سے خرید بھی لیں ،امت مسلمہ میں اس سے بے چینی پھیلنا
ظاہرسی بات تھی ، اس لئے الغائے خلافت کے ساتھ ہی 1926میں’’ الشبان
المسلمون‘‘ اور 1928میں’’الاخوان المسلمون‘‘ جیسی تنظمیں فلسطین کے پڑوس
مصرمیں قائم ہوئیں ، ان تحریکوں نے دھیرے دھیرے جب زور پکڑ لیا،تو بیسویں
صدی کے اواسط میں ان کو کچلنے کے لئے عرب قومیت کے علمبردار جمال عبدالناصر
کے ذریعے شہنشاہیت ختم کرواکر ملک کوعرب قوم پرست جمہوریہ بنایاگیا، تاکہ
اسلام اور عالم اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں کا سد باب کیاجاسکے ،
مگر1968ء کی جنگ میں جب وہ استعمار کے بغل بچے اسرائیل کو شکست دینے لگا،
تو ان کی فتح کو شکست تبدیل کرکے مصریوں کے دائرہ کو عالم اسلام سے عالم
عرب اور عالم عرب سے مصر قومیت میں محدود کرنے کیلئے انور السادات کو
لایاگیا، ان کا نقطۂ نظریہ تھاکہ مصری اپنی ذات میں ایک مستقل اور الگ قوم
اورقدیم فراعنہ کی نسل ہے ، ان کا عالم اسلام یاعالم عرب سے ارتباط کرنا
کوئی معنی نہیں رکھتا، اس موقع پر مصرکو حجاز سے کاٹنے کے لئے قرآن کے
اعلان کے مطابق مکہ مکرمہ کے ام القری وام الدنیا کے مقابلے میں مصرکو’’ ام
الدنیا‘‘ کا لقب بھی دیاگیا، بعد میں حسنی مبارک نے بھی ان کے نقش قدم پر
چل کر ان ہی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا، اسی اثنا میں مصری افواج اور امریکی
افواج کے درمیان کئی اسٹراٹیجک معاھدے ہوئے ، جن کے تناظر میں میں امریکہ
نے 1.5ڈالر سالانہ امداد پر دستخط کئے ،نیز باہمی معلومات کا تبادلہ اور
مصری فوج کی تربیت بھی ان معاھدوں میں شامل تھیں ،یہ سب کچھ اسرائیل کی
حفاظت اور منطقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تھا، اسی لئے زیادہ ترتوجہ
مصری افواج کی سکولر، ملحد اور لادین نظریہ سازی پر رہی ، چنانچہ ترک فوج
کی طرح مصری فوج بھی پوری طرح اس دام میں پھنس کررہ گئی ، حسنی مبارک ذہنی
تربیت میں ان کا اتالیق تھا،وہ بظاہر ایک منتخب صدر تھا، بزعم خویش وہ یہاں
کا بادشاہ تھا ، پر حقیقی معنوں میں فوج کا اسیربھی تھا ۔
منطقے میں مذہبی بنیادوں پر قائم اسرائیل اس کے مد مقابل ایران میں اسلامی
انقلاب اور افغان جہاد نے عرب دنیا میں تازگی ، مذہبیت ،اور آزادی کی
ہوائیں چلادیں ، جو بپھری ہوئی لہروں کی طرح آج سے دوسال قبل حکمرانوں کے
قلعوں اور ان کے محلات کے درودیوار سے ٹکراگئیں اور سب کچھ بہاکر لے گئیں ،
پھرسے منطقہ بالکل صاف اور چٹیل میدان بن گیا،خدا کا کرنا یہ ہوا کہ خلاکو
پرکرنے کیلئے اگر کوئی تنظیم یا سیاسی جماعت یہاں تھی تو وہ ان ہی اسلام
پسندوں کی تھی ،جنہوں نے خلافت کے اختتام پر اپنی بنیادیں ڈالی تھیں ،بس
پھر کیاتھا، وہ آناً فاناً برسر اقتدار آگئے ، اور وہ جو عالمی استکباری
طاغوتی قوتیں خلافت سے خارکھائے ہوئے تھیں ،وہ ایک مرتبہ سرجوڑ کربیٹھ گئیں
، نہ چاہتے ہوئے بھی زمامِ حکومت ڈاکٹر مرسی کے حوالے کردی گئی ، لیکن ان
کے حکومت میں آنے سے قبل ہی بقول طیب اردگان وتجزیہ نگاران اسرائیل ،امریکہ
اور کچھ دیگر خفیہ قوتوں نے ان کو برخاست کرنے کا پلان بنا لیاتھا، حکومت
میں آنے کے بعد ڈاکٹر مرسی یہ سمجھنے سے قاصررہے کہ حسنی مبارک کے خلاف
انقلاب جتنا عوام نے برپا کیاتھا ،اتنا ہی فوج بھی ان سے تنگ آگئی تھی
بحیثیت ایک مہرہ ان کا رول ختم ہوگیاتھا، مرسی نے بابائے فوج طنطاوی کو
برطرف کردیا ،جس سے مسلح قوتیں ناراض ہوگئیں ،پھر انہوں نے عدلیہ میں صفائی
کا عندیہ دیا، اٹارنی جنرل بھی تبدیل کردیا، کچھ علاقوں کے گورنر ز بھی نئے
لے کر آئے، نیا آئین جو منظور کرادیا، وہ بھی مکمل اسلامی ، شام میں برملا
مداخلت کی وجہ سے امریکہ وخلیجی ممالک پوٹن سے سخت ناراض تھے ، مرسی نے ان
سے بھی آزاد خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے دوستی کاہاتھ بڑھا یا، اس طرح
اسرائیل ،امریکہ اور ان کے حواری تو ان سے شروع ہی سے ناراض تھے ،ملکی
افواج ،عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کو بھی انہوں نے خفہ کردیا، خلیجی ممالک میں
بھی بے چینی پھیل گئی ، اب ان تمام نے سوچ سمجھ کریہاں الجزائر سیناریوکو
اپنانے کی ٹھانی، توملک میں بجلی ،گیس اور پیٹرول کا بحران آیا، مرسی کی
صرف اخوان ہی پر نگاہ مرکوز ہونے کی وجہ سے دیگر مذہبی جماعتیں بھی مخالف
ہوگئیں ، مصنوعی ملین مارچ کرائے گئے ، مرسی سے مستعفی ہونے یا مڈٹرم
انتخابات کرانے کا مطالبہ ہوا، وہ نہ مانے تو انہیں ہٹایاگیا، ہٹانے والوں
کو پتہ تھا کہ اخوان بھی دھرنوں ،مظاہروں اور جلوسوں پراتر آئینگے ،لیکن
انہیں سختی سے کچل دیاجائے گا ،چنانچہ وہی ہوا اور خوفناک ،وشرمناک حد تک
ہوا، ورنہ دھرنوں کو ختم کرانے کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی جاسکتی تھیں
،مگر پری پلان کے تحت یہ سب کچھ کیاگیاا ،اس پر احتجاجا ًالبردعی نے استعفی
دیا، تو اب ان کے خلاف خیانت کا مقدمہ بھی بنایاگیا، اخوان المسلمین پر
پابندی کے اشارے بھی مل رہے ہیں ،خلیجی ممالک نے بھی اپنا پوراوزن فوج کے
جانب ڈال دیاہے ، دنیا میں اسلام پسندوں کے لئے دہشت گردی کا لیبل اور اس
کے پاداش میں ان کی بیخ کنی آئے روز کا معمول ہے، وہ لیبل بھی ان پر چسپاں
کیاگیاہے ، امریکہ اور دیگر استعماری قوتوں نے رابعہ عدویہ اور نہضہ میں
قتل عام کی وجہ سے اپنے ملکوں میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں سے ڈرتے
ہوئے فوج اور عبوری حکومت کی مکمل تائید تونہیں کی، مگر اندر سے خلیجی
ممالک جو ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں ،کے ذریعے ان کی ہر طرح کی مدد کا
اعلان کردیاہے ، اب موجودہ منظر میں یاتو اخوان کو بہت زیادہ قربانی دے کر
عبدالفتاح السیسی کو ہٹانا ہوگا، یا پھر گزرتے دنوں کے ساتھ وہ کسی سمجھو
تے پر راضی ہوجائینگے ، ملک خانہ جنگی کی طرف بھی جاسکتاہے ، اس صورت میں
شام او رصومالیہ کی طرح مصر کے تتّر بتّر ہونے کا بھی اندیشہ ہے ،اگر عالم
عرب یاعالم اسلام کے سربراہوں میں سے کچھ حضرات قاہرہ چلے جائیں ، اور وہاں
کئی روز بیٹھ کر دونوں اطراف سے مفصل اور طویل مذاکرات کریں ، پھر دونوں کے
درمیان مصالحت کراکے ایک میز بٹھایا جائے ، کچھ لو اور کچھ کے فارمولے پر
اتفاق کیاجائے تو یقینا بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ، دور بیٹھ کر بیانات
جلتی پر تیل کے کام کے سوا کچھ نہیں ۔ |