انسانی زندگی کی تحریر تضاد سے
عبارت ہے.اس پیکر خاکی میں مختلف رنگوں کی آمیزش ہے ان رنگوں میں بظاہر تو
تضاد نظر آتا ہےلیکن جب انسان افکار عمیق کا لبادہ اوڑھ کر اس خاکےکو
دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ یہ تضاد ایک ایسے خیابان کی طرح ہے جس میں
رنگ برنگ کےپھول کھلے ہیں جو اس باغ ہستی کو رونق بخشتے ہیں اس میں کانٹے
بھی ہیں جو کبھی تو اس پیکر بے پیرہن کو خون آلودہ کر دیتے ہیں اور کبھی اس
متاع جمیل کیلے چشم بدورکا کام سر انجام دیتے ہیں.کبھی اس بحر حیات میں وہ
لہریں بھی اٹھتی ہیں جو اس کے وجود تک کو بحر فنا سے ہمکنار کرتی ہیں اور
کبھی اس طلاطم خیز قلزم میں وہ سفینے بھی رواں ہوتے ہیں جو اس گودام زنگی
کو متاع کل سے لبریز کر دیتے ہیں .کبھی تو اس کے صراط مستقیم میں ناگن جیسے
بل آتے ہیں اور کبھی اس کے شجر حیات پر سنبل جیسے پیچ وخم ,کبھی وہ ہوس کی
شمع سے خود کو جلاتا ہے اور کبھی شعور آتش اپنے آپ کو منور کرتا ہے.کبھی اس
صحرا کے دامن میں ایسے گل وگلزار بھی اگتے ہیں جو آبلہ پا راہ گیر کو تسکین
دیتے ہیں اور کبھی اسی صحرا میں وادی پرخار بھی ھوتی ھے جو اس جادہ پیما کو
لباس خون سے پنہاں کرتی ہے.اس کے ساز ہستی میں کبھی بلبل کا ترنم ہوتا ہے
تو کبھی شورش محشر کی صدا بلند ہوتی ہے.اس کے لب کبھی صدا ے حق بلند
کرتےہیں تو اس کی زبان کبھی آتش نمرود اگلتی ہے.اس کے ہاتھ کبھی دست مسیحا
بن کر اٹھتے ہیں تو کبھی دم تیشہ سے مزین ہوتے ہیں.وہ کبھی درماندہ کارواں
کے انتظار میں کوہ گراں ہوتا ہے تو کبھی ہستی کارواں پر گراں گزرتا ہے.وہ
کبھی گل افشاں تو کبھی گل چیں ہو تا ہے.کبھی چارہ گر تو کبھی ستم گر ہوتا
ہے.کبھی نا خدا تو کبھی اپنے پہ خدا کا گمان کر بیٹھتا ہے.کبھی جان دے کر
زنگی حاصل کرتا ہے تو کبھی زندہ رہ کر آغوش موت میں پرورش پاتا ہے.کبھی ناز
پرور تو کبھی کینہ پرور,کبھی سخنور تو کبھی سخن فہم,کبھی متاع گراں تو کبھی
متاع کس مخر,کبھی طا ںر صحرا نوردی تو کبھی مرغ آشوب شہر,کبھی قلزم ہستی کا
گراں موتی,تو کبھی جوںے کم آب کا سنگ گراں ,کبھی انسانیت کے ماتھے کا جھو
مرتو کبھی حیوانیت کے مرقد کا کتبہ-
انسانی عقل اور حواس بھی تضاد کے آںینے میں اپنا عکس دکھا تے ھیں.عقل علم
کی گتھی کا سرا ڈھونڈتی ہے اور حواس اس الجھی ہوںی گتھی کی گرہیں کھولتے
ہیں.کبھی عقل حواس کی دہلیز پر ماتھا ٹیکتی ہے اور کبھی حواس عقل کی قندیل
لے کر منزل مقصو د کا سراغ ڈھونڈتے ہین.آنکھیں جب آسمان کی طرف زاویہ نگاہ
مرکوز کرتی ہیں تو بتاتی ھیں بادلوں کے پیچھے چاند محو سفر ہے لیکن عقل اس
غلطی کو ٹھیک کرتی ہے کہہ حقیقت میں بادل چل رہے ھیں چاند نہیں.آنکھیں صحرا
کا طواف کرتی ہیں تو بتاتی ہیں جیسے سمندر میں لہریں مدو جزر کا منظر پیش
کر رہی ہیں لیکن عقل بتاتی ہیے حقیقت اس سے مختلف ہے.آنکھیں دور افق کی طرف
دیکھتی ہیں تو بتاتی ہیں جیسے آسمان اور زمین متصل ہیں لیکن عقل اس غلطی کو
واضح کرتی ہے.کان بہت سی دورکی آوازیں تو سماعت کر لیتے ہیں لیکن باطن کی
آوازیں جو شہ رگ سے پھی قریب ہیں ان سے گراں گوش ہیں بہت سے معاملات میں
عقل کی دی ہوںی معلومات میں تضا د ہو تا ہے.کسی بہرے شخص کو آپ لکھ لکھ کر
بتاںیں کہ کہ بانسر ی کی لے ایسے ہوتی ہے ,آبشاروں کا ترنم ایسے ہوتا ہے ,کوںل
کی کو کو ایسے ہوتی ہے اس شخص کو ان آوازوں کا جو علم عقل فراہم کرے گی وہ
تضاد پر مبنی ہو گا.آپ کسی اندھے شخص کو بول بول کریہ بتاںیں کہ سبز رنگ اس
طرح کا ہوتا ہے,گلاب اس طرح کا لگتا ہے,اس کا اپنا چہرہ اس طرح کا ہے,اس کی
حاصل کردہ معلومات تضاد کا پیش خیمہ ہونگی.عقل اور حواس کی سفید چادر پر
تضاد کے دھبے جابجا نظر آتے ہیں-
زندگی کی بلبل شجر تضاد پر نغمہ سنج ہوتی ہے.انسان سوچتا کچھ ہے اور ھوتا
کچھ ہے.وہ خواہشات کے محل بناتا ہے اور سوچتا ہےکہ یہ اتنے مضبوط ھیں کہ
طوفان نوح سے بھئ لڑکھڑا نہیں سکتے لیکن وقت کا طلاطم ایک لمحے میں انہیں
بنیادوں تک سے اٹھا کر لے جاتا ہے.وہ زمیں پر اس طرح رہتا ہے جیسے زندگی کا
پیرہن اس نے ہمیشہ کیلے پہنا ہوا ہے لیکن اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ
پیرہن تو رہ گا لیکن اس کی رنگت بدل جاںے گی.وہ سانسوں کی تسبیح میں
خواہشوں کے موتی پروتا ہے ابھی ان دانوں کا ورد بھی نہیں کر پاتا کہ یہ
مالا ٹوٹ جاتی ہے اور موتی بکھر جا تے ہیں.وہ زندگی کی تگ و دو میں کبھی
کبھی ان چیزوں کے حصول میں زندگی صرف کر دیتا ہے جو پہلے سے ہی اس کے دامن
میں ہوتی ہیں.وہ اس غم دہر میں آنکھ کھولتا تو خود روتا ہے آنکھ بند کرتا
ہے تو دوسروں کو رلاتا ہے.وہ زندگی کا سفر چا ر ٹانگوں سے شروع کرتا ہے
لیکن منزل مقصود تک پہنچتا ہے توتین ٹانگیں باقی رہ جاتی ہیں .وہ ننگا پیدا
ہوتا ہے اور زندگی کا متاع کل تتین کپڑے لے کر تنہا عالم عدم کی طرف رواں
ہوتا ہے. زندگی کے اس بنھور وہ کبھی ڈوبتا ہے کبھی بچتا ہے اور کبھی گرداب
وقت کے تھپیڑے اسے موت سے بغل گیر کر دیتے ہیں.وہ پیدا اپنی مرضی کے بغیر
ہوا لیکن چاہتا ہے زندگی اپنی مرضی سے گزارے.وہ اپنی حیات پر نوحہ گراں
ہوتا ہے لیکن موت کے سنگ گراں پہ ماتھا ٹیکنے کو بھی تیار نھیں.ایک طرف ااس
کی بادشاہت اتنی عارضی ہے کہ پل کی خبر نہیں اور ایک طرف اتنی ابدی کہ حضرت
عیسی علیہ سلام نے فرمایاکہ انسان الله کی ابدی بادشاہت ہے. اس کا آغاز اور
انجام مٹی ہے اور مٹی سے ہی نفرت کرتا ہے.اس کے ظاہر اور باطن میں بھی تضاد
ہے دن رات کی طرح وہ جوکچھ نظر آتا ہے وہ ہے نہیں اور جو کچھ ہے وہ نظر
نہیں آتا ایک طرف تو اس پر شیطان کا داؤکمزور ہے اور دوسری طرف شیطان اس کی
رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے-
مظاہر فطرت اور انسانی فطرت کے منڈیر پر بھی تضاد کی کو ںل کو کو کرتی
ہے.انسانی فطرت میں مٹی بھی ہے اور آگ بھی ہے اسی طرح مظاہر فطرت بھی تضاد
کی روشنی میں اپنے خدوخال واضخ کرتے ہیں یہاں بہار کا آباد نگر ہے تو خزاں
کی اجاڈ رت بھی, زمین کی کوکھ زرخیز ہے تو اسی کوکھ میں ویرانے اور صحرا
بھی ھیں,دن کی روشنی نور کی شمعیں روشن کرتی تو رات اپنے سیاہ بال کاںنات
کے شانوں پر بکھیرتی ہے,دھرتی کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے ہیں تو اس کے
گلے میں کانٹوں کی مالا بھی,فلک بوس پہاڑ ہیں تو تو کھلے میدان بھی
,آبشاروں کا ترنم ہے تو آندھیوں کا شور بھی.اسی طرح فطر ت انسانی میں خیرکے
حسن کدے بھی ہیں اور شر کے آتش کدے بھی ,زندگی کے رخت سفر میں سکھ کا
ساںبان بھی ہے اور دکھ کی کالی چادر بھی,عقل کی آب جو بھی ہے اور جزبات کا
تلاطم خیز سمندر بھی,آواذوں کی گنگناہٹ بھی ہے اور خموشی کی اندھیری شب
بھی,زندگی تضاد کا بگولہ ہے اسی لیے اہل حکمت و دانش کی تحریریں اور تقرریں
بھی زندگی کئ تعریف میں تضاد کا شکار ہیں کسئ کے ہاں زندہ رہنا زندگی ہے
اورکسی کے ہاں مرنا زندگی ہے,کسی کے ہاں اپنی جان بچانا زنگی تو کسی ہاں
کسی کی خاطر جان دینا زندگی ہے,کوںی کہتا ہے زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ
بھی نہیں اور کوںی کہتا ہے زندگی متاع کل ہے,کوںی کہتا ہے زندگی نغمہ
اجنبیت ہے تو کوںی کہتا ہے آواز شناساںی ہے,اس زندگی سے انسان اتنا پیار
کرتا ہے کہ موت کا نام سن کر بھی وحشت ہہوتی ہیں لیکن جب اسی دنیا کی زندگی
کے بارے میں جنت میں رب ذوالجلال سوال کرے گا ہے کوںی جو واپس دنیا میں
جانا چاہتا ہے سواںے شہید کے اور کوںی تیار نہیں ہو گا,,اس کے قول و فعل
میں تضاد بھی اس کی زنگی کےتضاد کی طرح .وہ اتنا طاقتور ہے کہ پوری کاںنات
کو تسخیر کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اتنا کمزور ہے ایک مجھر سے بھی مر جاتا
ہے · |