اگست کا مہینہ پاکستان کی تاریخ
میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔۔۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں برِ صغیر کے مسلمانوں
کورہنے کیلئے ایک الگ ملک دنیا کہ نقشے پر رونما ہوا۔۔۔یہ وہ مملکت ہے جس
کا خواب حکیم الامت شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے دیکھا تھا۔۔۔یہ
وہ مملکت ہے جس کے لئے بابائے قوم محمد علی جناح ؒ نے دن رات میں کوئی فرق
نہیں رکھا اور انتھک محنت ، جدوجہد اور مدبرانہ فیصلوں کی بدولت حاصل
کی۔۔۔یہ وہ مملکت ہے جس کی خاطر ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی جان اور مال کی
بے دریغ قربانیاں دیں۔۔۔اگر اسلامی مہینوں میں ماہ رمضان کو دیگر مہنوں پر
خصوصی فوقیت حاصل ہے تو عیسوی ؑ مہینوں میں ہم پاکستانیوں کے لئے اگست کی
اہمیت ایک برابر ہے۔۔۔گو کہ جب پاکستان آزاد ہوا تو اﷲ کی رضا کا اندازہ اس
بات سے لگا لیں کہ اس وقت اگست کا مہینہ بھی رمضان کے مہینہ میں ہی
تھا۔۔۔یقینا دیگر اور اہم واقعات بھی اس ماہ میں رونما ہوئے جیسے ۔۔۔انڈیا
پاکستان کشمیر پر دوسری جنگ ۔۔۔ 1973 کا آئین اگست کے ماہ میں ہی نافذ
العمل ہوا۔۔۔سانحہ بھاولپور۔۔۔پہلا کیمیائی مواد لے کہ جانے والا کروز
میزائل کا تجربہ بھی اگست کے ماہ کی زینت بنا۔۔۔پاکستان کی تاریخ کا بدترین
سیلاب بھی اسی ماہ میں اپنی تباہ کاریاں دکھاتا نظر آیا۔۔۔شہرت کی بلندیوں
کو چھونے والے نصرت فتح علی خان صاحب نے اسی ماہ میں دارِ فانی سے کوچ کیا۔۔۔
مجھے یقین ہے آپ اس سے کہیں زیادہ ایسے واقعات سے واقف ہونگے ۔۔۔
پچھلے دنوں ایک اور واقع اس فہرست میں اضافہ کرگیا۔۔۔ ایک غیراہم فرد نے
اپنے اہلِ خانہ کہ ساتھ تقریباً سات گھنٹے تک نیوکلیئر پاور پاکستان کی
سکیورٹی کو الجھائے رکھا۔۔۔یہ واقعہ شکارپور یا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رونما
نہیں ہوا۔۔۔نہ کراچی ، کوئٹہ یا پشاور میں ہوا۔۔۔یہ واقعہ پاکستان کے
دارلحکومت اسلام آباد میں ہوا۔۔۔جہاں ہمارے وطن ِ عزیز کو چلانے کے ذمہ دار
سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں۔۔۔یہ وہ شہر ہے جو بہت اہم شخصیات کی اماجگاہ ہے ۔۔۔بہت
سے ایسے بھی ہونگے جن کاپتہ ہی نہیں کون ہیں۔۔۔ایک سکندر نامی شخص(جو شائد
اپنے آپ کو سکندرِ اعظم سمجھ بیٹھا تھا) اپنی بیوی اور دو عدد کمسن بچوں کے
ساتھ اسلام آباد کے انتہائی اہم زون (ریڈ زون ) میں دو عدد گنوں کہ ساتھ
بلا اشتعال فائرنگ کرتا ہوا گھس گیا۔۔۔وہ اپنی کار میں ادھر ادھر گھومتا
رہا ۔۔۔اگر یہ لکھوں کہ اس کہانی کے انجام تک سارا اسلام آباد سکندر نے
یرغمال بنا رکھاتھا تو شائد غلط نہ ہو۔۔۔اور پھر جو کچھ ہوا ہمارے میڈیا نے
ساری دنیا کو دکھایا۔۔۔
لگتا یہ ہے ۔۔۔اب کوئی بھی، کہیں بھی، کبھی بھی، جب چاہے۔۔۔پاکستان کی اہم
ترین تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔۔۔اب تک تو مخصوص اداروں اور ان کے
علاقوں پر اس قسم کے واقعات ہوا کرتے تھے ۔۔۔اس ایک شخص نے تو نیوکلئیر
پاور ملک کے دارلحکومت کو ہی نشانہ بنا لیا۔۔۔نہ جانے کیا معاملہ ہے کہ اس
شخص نے اپنی تو اپنی ، بیوی بچوں کی جان بھی داؤ پر لگا دی۔۔۔دیکھتے ہیں
آگے۔۔۔
اس ساری صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔۔دل پر خوف سا طاری ہوگیا۔۔۔ میں
دو پہلوؤں کی جانب آپکی توجہ مبذول کرانا چاہونگا۔۔۔پہلی بات یہ کہ ہم بلکل
غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔۔۔ایک طرف ہمارے فوجی جوان بلا خوف و خطر اپنے سینوں
کو سیسہ پلائی دیوار بنائے بزدل دشمن کے سامنے کھڑے ہیں ۔۔۔اور بہادری اور
جرات کی داستانیں رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں ۔۔۔تو دوسری
طرف صورتحال داخلی حفاظتی ادارے اسکے برعکس نااہلی کی داستانیں رقم کرتے
نظر آرہے ہیں۔۔۔آخر یہ دوہرہ میعار کیوں ہے۔۔۔میں اس سے آگے کچھ نہیں کہنا
چاہونگا۔۔۔
دوسری اہم بات یہ کہ ہمارے سیاست دانوں کو اب آنکھیں کھول لینی چاہیے۔۔۔یہ
سکندر ایک جگانے والا عنصر تھا۔۔۔اب جاگ جانا چاہئے۔۔۔اس وقت سے ڈرنا چاہیے
جب پاکستان کی پسی ہوئی اٹھارہ کروڑ عوام سکندر کی طرح سڑکوں پر نکل آئے گی
اور پھر کہیں آپ کے لئے زمین تنگ نہ پڑ جائے۔۔۔اقتدار کے غاصبوں کا انجام
ساری دنیا ابھی کچھ ماہ قبل ہی دیکھا ہے۔۔۔تاریخ کی باتیں اب قصہ پارینہ بن
چکیں ۔۔۔اب فیصلے سڑکوں اور میدانوں میں ہونے لگے ہیں۔۔۔بھوک افلاس میں
مبتلا لوگوں نے توپوں مشین گنوں سے ڈرنا چھوڑدیا ہے۔۔۔اب لوگ روز روز کہ
مرنے سے تنگ آچکے ہیں۔۔۔اب نہ بلٹ پروف گاڑیوں میں جان بچتی ہے۔۔۔نہ سنگلاخ
قلعے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔۔۔
خدارا اس سکندر کے کھیل کو یہیں ختم کردیں۔۔۔لوگوں کو سکندر بننے سے بچا
لیں۔۔۔عوامی نمائندے ہو تو عوام میں آجائیں ۔۔۔سب زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔۔۔
انہیں زندہ رہنے دو ۔۔۔لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کردیں ۔۔۔ انصاف عام
کردیں ۔۔۔ہمارے ٹیکس سے اپنی عیاشیوں پر قدغن لگا لیں۔۔۔ورنہ اٹھارہ کروڑ
لوگ سکندر بن کر باہر نکل آئینگے۔۔۔آپ سے تو ایک سکندرنہیں سنبھالا گیا
۔۔۔کہیں ایسا نہ ہوجائے۔۔۔ |