vجنین کی نشوونما کے پہلے چالیس دن :
ڈاکٹر جولے سمپسن ، ہیوسٹن ( امریکہ ) کے بیلور کالج آف میڈیسن میں شعبہ
حمل و زچگی و امراض نسوانی ( Ob-Gyn ) کے چیئرمین اور سالماتی و انسانی
توارث کے پروفیسر ہیں ، اس سے پہلے وہ میمفس کی یونیورسٹی آف ٹینٹیسی میں
شعبہ ” اوب گائن “ کے پروفیسر اور چیئرمین رہے ، وہ امریکی باروری انجمن کے
صدر بھی تھے ۔ 1992ءمیں انہیں کئی ایوارڈ ملے ، جن میں ایسوسی ایشن آف
پروفیسرز آف اوب گائن پبلک ریلکنیشن ایوارڈ بھی شامل تھا ۔ پروفیسر سمپسن
نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل دواحادیث کا مطالعہ کیا ۔
(( ان احدکم یجمع خلقہ ، فی بطن امه اربعین یوما )) ( صحیح البخاری ، كتاب
بدءالخلق ، باب ذکر الملائکۃ ، حدیث : 3208 ، صحیح مسلم ، القدر ، باب
کیفیۃ خلق الآدمی ، حدیث : 2643 )
” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کے تمام اجزاءاس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن
تک ( نطفے کی صورت ) میں جمع رہتے ہیں ۔ “
(( اذا مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ ، بعث اللہ الیھا ملکا ، فصورھا
وخلق سمعھا وبصرھا وجلدھا ولحمھا وعظامھا )) ( صحیح مسلم ، القدر ، باب
کیفیۃ خلق الآدمی.... حدیث : 2645 )
” جب نطفہ قرار پائے بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ ایک فرشتے کو اس کے
پاس بھیجتا ہے جو ( اللہ کے حکم سے ) اس کی شکل و صورت بناتا ہے ، اور اس
کے کان ، اس کی آنکھیں ، اس کی جلد ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے
۔ “
پروفیسر سمپسن ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دوحدیثوں کا بالاستیعاب
مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جنین کے پہلے چالیس دن اس کی
تخلیق کے ناقابل شناخت مرحلے پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی ان احادیث میں جس قطعیت اور صحت کے ساتھ جنین کی نشوونما کے مراحل
بیان کئے گئے ہیں ان سے وہ خاص طور پر متاثر ہوئے ، پھر ایک کانفرنس کے
دوران انہوں نے اپنے درج ذیل تاثرات پیش کئے ۔
دونوں احادیث جو مطالعے میں آئی ہیں ، وہ ہمیں پہلے چالیس دنوں میں بیشتر
جنینی ارتقاء کا متعین ٹائم ٹیبل فراہم کرتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج
صبح دوسرے مقررین نے بھی بار بار اس نکتے کو دہرایا ہے ۔ یہ احادیث جب
ارشاد فرمائی گئیں اس وقت کے میسر سائنسی علم کی بنا پر اس طرح بیان نہیں
کی جا سکتی تھیں ۔ میرے خیال میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ صرف جینیات
( Genetics ) اور مذہب کے درمیان کوئی تصادم نہیں ، درحقیقت ، مذہب بعض
روایتی سائنسی نقطہ نظر کو الہام سے تقویت پہنچا کر سائنس کی رہنمائی کر
سکتا ہے اور یہ کہ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو صدیوں بعد درست ثابت
ہوئے اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں دی گئی معلومات اللہ تعالیٰ کی
طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔
انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :
(( اذا اکل احدکم من الطعام فلا یمسح یدہ حتی یلعقھا او یلعقھا )) ( صحیح
مسلم ، الاشربۃ ، باب استحباب لعق الاصابع.... حدیث : 2031 )
” جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ اسے
( انگلیاں ) چاٹ لے یا چٹوالے ۔ “
کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے
چودہ صدیاں پہلے دیا اور اس میں جو حکمت کار فرما ہے اس کی تصدیق طبی
سائنسدان اس دور میں کر رہے ہیں ۔
ایک خبر ملاحظہ کیجئے :
جرمنی کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کے
پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست ، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے
بچاتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ” ای کولائی “ کہتے ہیں ، جب
انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا
کو ختم کر دیتی ہے ۔ اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا
نہیں کرتے خاص طور پر جب انسان کو پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک
ہو جاتی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے
، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں ۔ ( روزنامہ نوائے وقت 30 جون
2005ء )
ااہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فعل کو غیرصحت مند ( Unhigienic )
قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں ، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر
رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے کیونکہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں
جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں ۔ نیز انگلیوں کے پوروں پر
موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس چمچے یا
کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے
اور یہ بے حد غیرصحت مند عمل ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں پر
جراثیم کش پروٹین پیدا کی ہے تو ہاتھ سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیاں
چاٹنا دونوں صحت مند افعال ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ
بالا حدیث میں انہی دو باتوں پر عمل کی تلقین کی گئی ہے ، یعنی ( 1 ) کھانا
ہاتھ ( دائیں ) سے کھایا جائے ، ( 2 ) ہاتھ پونچھنے سے پہلے انگلیاں چاٹی
جائیں ۔
دائیں ہاتھ سے کھانے اور اس کے بعد انگلیاں چاٹنے کی اس اسلامی روایت بلکہ
سنت کو عربوں نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جسے ماضی میں یورپ والے غیر صحت
مند عمل ٹھہراتے رہے ، مگر اب انہی کے طبی محققین کی تحقیق کہہ رہی ہے کہ
یہ ہرگز مضر عمل نہیں بلکہ عین صحت مند اور فائدہ مند ہے ۔
کتا چاٹ جائے تو برتن کو مٹی سے دھونے کا حکم :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :
(( طھور اناءاحدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولاھن بالتراب ))
( صحیح مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 )
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : فلیرقه اسے چاہئے کہ اس ( میں موجود کھانے
یا پانی ) کو بہاد دے ۔ “ ( مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث :
279(89) )
ااور ترمذی کی روایت میں ہے :
(( اولاھن او اخراھن بالتراب )) ( جامع الترمذی ، باب ما جاءفی سور الکلب ،
حدیث : 91 )
” پہلی یا آخری بار مٹی کے ساتھ دھونا چاہئے ۔ “
اس کی توضیح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ( انگریزی ) میں یوں کی گئی ہے :
یہ واضح رہے کہ کسی چیز کی محض ناپاکی سے صفائی کے لئے اسے سات دفعہ دھونا
ضروری نہیں ، کسی چیز کو سات دفعہ دھونے کا فلسفہ محض صفائی کرنے سے مختلف
ہے ۔ آج کے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کتے کی آنتوں میں جراثیم اور تقریبا 4
ملی میٹر لمبے کیڑے ہوتے ہیں جو اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے ہیں اور اس
کے مقعد کے گرد بالوں سے چمٹ جاتے ہیں ، جب کتا اس جگہ کو زبان سے چاٹتا ہے
تو زبان ان جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے ، پھر کتا اگر کسی برتن کو چاٹے یا
کوئی انسان کتے کا بوسہ لے جیسا کہ یورپی ااور امریکی عورتیں کرتی ہیں تو
جراثیم کتے سے اس برتن یا اس عورت کے منہ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ
انسان کے معدے میں چلے جاتے ہیں ، یہ جراثیم آگے متحرک رہتے ہیں اور خون کے
خلیات میں گھس کر کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں چونکہ ان جراثیم کی
تشخیص خوردبینی ٹیسٹوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ شریعت نے ایک عام حکم کے تحت
کتے کے لعاب کو فی نفسہ ناپاک قرار دیا اور ہدایت کی کہ جو برتن کتے کے
لعاب سے آلودہ ہو جائے اسے سات بار ضرور صاف کیا جائے اور ان میں سے ایک
بار مٹی کے ساتھ دھویا جائے ۔ ( بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ) ( انگریزی )
مطبوعہ دارالسلام ، صفحہ : 16 حاشیہ : 1 )
مکھی کے ایک پر میں بیماری ، دوسرے میں شفا :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :
(( اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احدی جناحیہ داء
وفی الاخرٰی شفاء )) ( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب اذا وقع الذباب....
حدیث : 3320 )
” اگر تم میں سے کسی کے مشروب ( پانی ، دودھ وغیرہ ) میں مکھی گر پڑے تو
اسے چاہئے کہ اس کو مشروب میں ڈبکی دے ، پھر اسے نکال پھینکے ، کیوں کہ اس
کے ایک پر میں بیماری ہے تو دوسرے میں شفا ۔ “
ڈاکٹر محمد محسن خاں اس ضمن میں لکھتے ہیں : ” طبی طور پر اب یہ معروف بات
ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق
بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے ( Organisms ) اور
دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم ( Pathogenes ) کو ہلاک کر دیتے ہیں ،
مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔
حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ
ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا
کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں
ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو
جراثیم کامداوا کرے گا ۔
میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس موضوع پر جامعۃ الازہر قاہرہ ( مصر ) کے
عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی کو خط بھی لکھا جنہوں
نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں
نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات ( Microbiologists ) نے ثابت کیا ہے
کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast Cells ) طفیلیوں ( Parasites )
کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی
تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع
میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان
خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ (
مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656
حاشیہ : 3 )
اس سلسلے میں ” الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم لابن القیم “ کے انگریزی
ترجمہ : Healing with the Madicine of the Prophet طبع دارالسلام الریاض
میں لکھا ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں
ڈبویا جائے ، اس طرح مکھی مر جائے گی ، بالخصوص اگر غذا گرم ہو ، اگر غذا
کے اندر مکھی کی موت غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ
وسلم اسے پھینک دینے کا حکم دیتےاس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے
محفوظ بنانے کی ہدایت کی ۔ شہد کی مکھی ، بھڑ ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی
گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں ، کیوں کہ اس حدیث سے ماخوذ حکم نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم عام ہے ۔ مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں ؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ
ان کا خون ان کے جسموں کے اندر رہتا ہے ، اس لئے کیڑے مکوڑے یا حشرات جن
میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں ۔
بعض اطباءنے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی
جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے ، اگر
گھریلو مکھی کا سر الگ کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی
پھنسی پر ملا جائے تو انشاءاللہ آرام آجائے گا ۔ ( الطب النبوی : 105,104 )
طاعون زدہ علاقے سے دور رہنے کا حکم اور اس کی حکمت :
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :
(( الطاعون رجز ، ارسل علی بنی اسرائیل ، او علی من کان قبلکم فاذا سمعتم
بہ بارض فلا تقدموا علیہ ، واذا وقع بارض وانتم بھا ، فلا تخرجوا فرارا منہ
)) ( صحیح مسلم ، الطب ، باب الطاعون ، حدیث : 2218 )
” طاعون عذاب ہے ، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر اور تم سے پہلوں پر نازل
ہوا ، چنانچہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ
جاؤ اور جب وہ اس علاقے میں پھوٹ پڑے جہاں تم مقیم ہو تو فرار ہو کر اس
علاقے سے باہر مت جاؤ ۔ “
صحیحین ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( الطاعون شھادۃ لکل مسلم )) ( صحیح البخاری ، الطب ، باب ما یذکر من
الطاعون ، حدیث : 5732 )
” طاعون ہر مسلم کے لئے شہادت ہے ۔ “
طبی اصطلاح میں طاعون ایک مہلک گلٹی ہے جو بہت شدید اور تکلیف دہ متعدی
عارضہ ہے اور یہ تیزی سے متاثرہ حصے کے رنگ کو سیاہ ، سبز یا بھورے رنگ میں
تبدیل کر دیتا ہے پھر جلد ہی متاثرہ حصے کے اردگرد زخم نمودار ہونے لگتے
ہیں ۔ طاعون عموماً جسم کے تین حصوں ، بغلوں ، کان کے پیچھے اور ناک پھنک
یا جسم کی نرم بافتوں ( Tissues ) پر حملہ کرتا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ
کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا گیا تو
آپ نے فرمایا :
(( غدۃ ، کغدۃ البعیر یخرج فی المراق والابط )) ( التمھید لابن عبدالبر :
6/212 )
” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں
اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ “
اامام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف الطب النبوی صلی اللہ علیہ
وسلم میں ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو طاعون زدہ علاقے میں
داخل نہ ہونے کا حکم دیا ہے ، کے زیر عنوان لکھا ہے :
طاعون کے نتیجے میں جسم میں تعدیہ یا عفونت ( Infection ) زخم ( Ulcers )
اور مہلک رسولیاں نمودار ہوتی ہیں ، اطباءاپنے مشاہدے کی رو سے انہیں طاعون
کی علامات قرار دیتے ہیں ۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا سے بچنے کے
لئے ضروری ہے کہ جسم کو مضر رطوبتوں سے نجات پانے میں مدد دی جائے ۔ اسے
پرہیزی غذا ملے اور جسم کی خشکی عموماً محفوظ رہے ۔ انسانی جسم میں مضر
مادے ہوتے ہیں جو بھاگ دوڑ اور غسل کرنے سے متحرک ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم
کے مفید مادوں سے مل کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، اس لئے جب کسی جگہ
طاعون حملہ آور ہو تو وہیں ٹھہرنے میں عافیت ہے تا کہ انسان کے جسم میں مضر
مادے متحرک نہ ہوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو طاعون سے متاثرہ علاقے میں نہ جانے یا
وہیں ٹھہرنے کا جو حکم دیا ، اس میں بڑی حکمت پنہاں ہے ، اس کا مقصد یہ ہے
:
( 1 ) آدمی نقصان اور نقصان کا باعث بننے والی شے سے بچ جائے ۔
( 2 ) اپنی صحت برقرار رکھے ، کیوں کہ ضرورت زندگی کے حصول اور عاقبت کے
تقاضے پورے کرنے کا دارومدار اسی پر ہے ۔
( 3 ) آلودہ اور مضر ہوا میں سانس لے کر بیمار نہ پڑ جائے ۔
( 4 ) طاعون سے متاثرہ لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرے ، تا کہ خود اسے
طاعون نہ آئے ۔
( 5 ) جسم اور روح کی چھوت اور توہم سے تحفظ ہو ، جن کا نقصان صرف انہیں
ہوتا ہے جو ان پر یقین رکھتے ہوں ۔
غرض یہ کہ طاعون سے متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت ایک احتیاطی
تدبیر اور ایک طرح کی پرہیزی غذا ہے ، جو انسان کو نقصان کی راہ سے پرے
رکھتی ہے ، اور یہ طاعون سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اللہ
کی رضا اور اس کے فیصلوں کے آ گے سرجھکانے کا سبق ہے ۔ پہلا حکم تعلیم و
تربیت ہے جب کہ دوسرا تسلیم و اطاعت اور تمام امور اللہ کی رضا پر چھوڑ
دینے کا درس دیتا ہے ۔ ( الطب النبوی ( انگریزی ) کے صفحہ 53 کے حاشےے میں
” ایڈیٹر کا نوٹ “ کے زیر عنوان لکھا ہے : ” ہمارے مصنف ( ابن قیم ) کے
زمانے میں ابھی قرنطینہ کا طبی تصور قائم نہیں ہوا تھا مگر یہ حدیث مصنف سے
بھی تقریبا 700 سال پہلے ارشاد ہوئی تھی ۔ اس حدیث نے ایمان کی وساطت سے
قرنطینہ نافذ کر دیا تھا ، اگرچہ طب کے علماء کو اس سے متعلق علم کئي صدیوں
بعد حاصل ہوا - |