عجیب و غریب رسومات٬ شادی ہوئی مشکل

شادی دو انسانوں کا ایسا بندھن ہے، جس میں بندھنے کے بعد میاں بیوی زندگی کا ہر دُکھ سکھ مِل جُل کر بانٹتے ہیں۔ شادی اُن کی زندگی میں خوشیاں لاتی ہیں۔ آنگن میں جب پھول کھلتے ہیں تو زندگی کا مفہوم ہی بدل جاتا ہے۔ انسان خاندان کے بغیر اُدھورا ہے اور خاندان شادی سے بنتا ہے۔ شادی کے موقع پر ہر خطے کے اپنے مخصوص رسم و رواج ہوتے ہیں،جن کا مقصد شادی کی تقریب سے بھرپور طور پر لطف اٹھانا ہوتا ہے۔ لیکن بعض رسم و رواج انتہائی انوکھے اور عجیب و غریب بھی ہوتے ہیں اور ان کا پورا کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہوتا- یہ خرافات اور نام نہاد شرائط خوشی مہیا کرنے کے بجائے کوفت کا باعث بن جاتی ہیں اور شادی جیسے آسان فریضے کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ چند ایسے ہی رسم و رواج اور رجحانات سے متعلق ایک رپورٹ دنیا میگزین نے شائع کی جو کہ یہاں ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی پیشِ خدمت ہے-
 

اسکاٹ لینڈ
اسکاٹ لینڈ کے جزائر ایبرڈینشائر، اینگوش اور فیفی میں دولھا اور دلہن کو شیطانی روحوں کے حملوں سے بچانے کے لیے شادی سے پہلے اُن کے قریبی دوست انھیں سر سے پاؤں تک انتہائی گندے محلول سے بھگوتے ہیں۔ یہ محلول گندے انڈوں، مختلف اقسام کی چٹنیوں، پرندوں کے پَر اور دیگر گندی اشیا سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس دوران بے چارے دونوں پنچھی سر جھُکائے خاموشی سے کراہت بھرے یہ لمحات برداشت کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ان کی جان نہیں چھوٹتی اور ایک اور تکلیف دہ عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس بار اُن کے اوپر گُڑ کا راب، کالک اور خشک آٹا پھینکا جاتا ہے۔

image


چین
دلہن پر گندے انڈوں سے بنا محلول پھینکنا پھر بھی قابل برداشت ہوسکتا ہے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ چین میں شادی کی ایک ایسی رسم بھی ہے، جس میں دلہن کو دولھا کی طرف سے پھینکے گئے تیر برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ چین کا اقلیتی قبیلہ ’’یوگور‘‘(Yugur) میں شادی سے پہلے لڑکے کو لڑکی پر تین بار ایسے تیر مارنے پڑتے ہیں، جن کی نوک نہیں ہوتی۔ تاہم ان تیروں کی مار بھی ربر کی گولیوں سے کم نہیں ہوتی۔تیر مارنے کے بعد لڑکا تیر اور کمان توڑ دیتا ہے۔ قبیلے والوں کا عقیدہ ہے کہ اس رسم کے ادا کرنے کے بعد میاں بیوی کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوتا اور دونوں پیار و محبت سے رہتے ہیں۔

image


براعظم افریقہ
براعظم افریقہ کے ملک موریطانیہ میں ایک خطرناک رجحان نے لڑکیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ رجحان گھریلو معاملے سے زیادہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور بچوں پر تشدد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔موریطانیہ میں رہنے والی بعض برادریوں میں یہ تصور ہے کہ موٹی لڑکیاں صحت مند بچے جنم دیتی ہیں۔ چناں چہ دبلی پتلی اور نارمل لڑکیوں کو پسند نہیں کیا جاتا اور اُن کی شادیاں نہیں ہوپاتیں۔ اس رجحان کے باعث پانچ برس کی عمر سے ہی لڑکیوں کو موٹا کرنے کی کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں اور بچیوں کی مائیں زبردستی اُنھیں ٹھونس ٹھونس کر کھانا کھلاتی ہیں۔ ان معصوم بچیوں کو گنجائش سے زیادہ کھانا کھلانے کے بعد دودھ کا بڑا پیالہ بھی زہر مار کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی بچی زیادہ کھانے پینے سے انکار کر دے تو اُس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ دودھ پلانے کے دوران لڑکی کے پیروں کی انگلیوں کو دو لکڑیوں کے درمیان پھنسا کر زور سے دبایا جاتا ہے۔ تکلیف کے باعث لڑکی رونے لگتی ہے، لیکن پھر بھی اس پر ترس نہیں کھایا جاتا ۔ اکثر اوقات زیادہ کھانا کھانے یا دودھ پینے کے دوران بچیاں قے کر دیتی ہیں، لیکن پھر بھی اُنھیں دودھ کا پورا پیالہ ختم کرنا ہوتا ہے۔ ان معصوم بچیوں پر اس قسم کا وحشیانہ ظلم کوئی غیر یا سوتیلا نہیں کرتا، بلکہ اُن کی سگی مائیں کرتی ہیں، جنہیں ہمہ وقت یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ اگر اُن کی لڑکیاں موٹی نہ ہوئیں تو اُن سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔

image


جنوب مغربی ایتھوپیا
جنوب مغربی ایتھوپیا میں رہنے والا ’’ہامر‘‘ (Hamer)قبیلے میں لڑکے کو اپنے بالغ پن کا ثبوت دینے کے لیے ایک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ دس پندرہ گائیوں کو ایک قطار میں بالکل ملا کر کھڑا کیا جاتا ہے ۔لڑکے کو ان گائیوں کی پیٹھ پر کودتے ہوئے چار بار گزرنا پڑتا ہے۔ اس دوران اگر لڑکا کسی پھیرے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر پڑے تو اُسے چاروں پھیرے دوبارہ کرنے پڑتے ہیں۔ اس دوران لڑکے کی ماں اور بہنیں اُس کی کامیابی کے لیے ناچتے ہوئے گیت گاتی رہتی ہیں۔

image


وسطی چین
رخصتی کے وقت دلہن کا رونا عام بات سمجھی جاتی ہے، لیکن وسطی چین میں ’توجیا‘‘ (Tujia) قبیلے کی دلہنوں کو نکاح سے ایک ماہ پہلے روزانہ ایک گھنٹے تک بغیر رُکے زور زور سے رونا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے مخصوص وقت مقررک یا جاتا ہے۔ الارم کی گھنٹی بچتے ہی دلہن رونا شروع کر دیتی ہے۔ قبیلے کے عقیدے کے مطابق اگر دلہن ایک ماہ تک نہ روئے تو وہ بہت زیادہ کم زوری کا شکار ہو جائے گی۔ شروع کے 20 دنوں تک دلہن کی ماں اُس کے ساتھ روتی ہے، بعد کے دس دن لڑکی کے ساتھ اُس کی دادی، بہنیں اور کزنز سب مل کر ایک گھنٹے تک زور زور سے روتے ہیں۔ نکاح کے روز دلہن سب براتیوں کے سامنے روتے ہوئے مختلف لے میں ’’رونے کا گیت‘‘(The Crying Marriage Song) گاتی ہے۔ دلہن کے اچھے اور بُرے گانے کا فیصلہ دولھا کے رشتے دار کرتے ہیں۔ شادی کے لیے رونے کی اس رسم کو نوبیاتا جوڑے اور پورے قبیلے کے لیے اچھا شگون مانا جاتا ہے۔

image


جنوبی کوریا
جنوبی کوریا کی چند برادریوں میں شادی کی ایک رسم میں نکاح کے بعد دولھا کے دوست اُس کے جوتے اور موزے اُتار کر اُس کے تَلووں پر ڈنڈے یا Yellow Corvina (مچھلی کی قسم)سے زور زور سے ضرب لگاتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے دولھا پُر سکون رہتا ہے۔

image


جرمنی
جرمنی کے بعض علاقوں میں نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی کے قریبی رشتے دار اور دوست احباب اُن کے سامنے مختلف اشیا توڑتے ہیں، جن میں کانچ کے گلاس، کراکری اور ہر وہ چیز شامل ہوتی ہے، جو آسانی سے توڑی جا سکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں کے آس پاس ٹوٹی اشیاء کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ دولھا اور دلہن دونوں کو مل کر یہ سارا گند کچرا صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس رسم کا مقصد دونوں کو سخت جان بنانا ہوتا ہے، تاکہ شادی کے بعد وہ ہر تکلیف مِل جُل کر دُور کر سکیں۔

image


بورنیو
شادی کی جن رسم و رواج کا ذکر اب تک کیا گیا، ان کا تعلق شادی سے پہلے کی رسم ورواج سے تھا۔ اب ذکر ہو جائے ایک ایسی اذیت ناک اور کوفت سے بھری رسم کا، جو شادی کے بعد تین دن تک میاں بیوی کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرے بورنیو کے شمال میں آباد ’’ٹیڈونگ‘‘ (Tidong) قبیلے میں شادی کے بعد میاں بیوی پر تین دن تک رفع حاجت کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ اس دوران انھیں اکیلے نہیں چھوڑا جاتا بلکہ خاندان کے افراد ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔اس سخت امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے دونوں تین دن تک غذا اور پانی کی انتہائی قلیل مقدار لیتے ہیں۔ اس رسم کے ادا کرنے کا مقصد شیطانی طاقتوں کو میاں بیوی اور گھر کے دوسرے افراد سے دُور رکھنا ہوتا ہے۔ ٹیڈونگ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر یہ رسم اد ا نہ کی گئی تو اُن کے یہاں مردہ بچے پیدا ہوں گے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

The one thing every human society has in common is marriage. It doesn’t matter how isolated or backwards it is, if you stick around long enough then you’ll find yourself at something at least resembling a wedding.