دنیا کے مختلف ممالک کے امن و مان کی صورتحال کا سرسری
جائزہ لیں تو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ اس وقت دنیا کے مسلم
ممالک میں عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور ماضی کی عالمی جنگوں میں اس بار
اس جنگ کا ہدف مسلمان ہیں اور انھیں اپنے مسلکی اختلافات کے بنا ء پر پوری
دنیا میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔سعودی عرب اورایران کی جانب سے شام میں
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مذمتی بیان سامنے آیا ۔ امام کعبہ نے
شام کے واقعات کی شدید مذمت کی تو دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی
پہلی بار کہا کہ" کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جس نے بھی کیا ہو اس کے
سدباب کیلئے عالمی برادری کو طاقت بروئے کار لانی چاہیے۔"شام میں کیمیائی
ہتھیاروں سے معصوم جانوں کی جس قدر بھیانک ہلاکتیں ہوئیں ہیں اس کی بربریت
کی مثالیں تاریخ انسانی میں بہت کم ملتی ہیںْ سعودی عرب اور ایران کی جانب
سے مذمتی بیانات یکساں اور واضح تھے۔ ایران کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی
گئی ہے کہ" شام میں1300سے زائد ہلاتیں کیمیائی ہتھیاروں ہی کی وجہ سے ہوئی
ہیں" ، حسن روحانی کا کہنا تھا کہ" اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی برداری
سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی تمام تر طاقت کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف بروئے کار
لائے ، خواہ یہ دنیا کے کسی بھی حصے میں استعمال کئے گئے ہوں"۔1980اور1988
کی ایران عراق جنگ میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا تھا اس لئے
ایران کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مذمت کی گئی
ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر امریکہ کی جانب
سے عراق پر لشکر کشی کی گئی تھی اور فرقہ وارانہ قتل عام کے الزام میں صدام
حسین کو سزائے موت بھی دے دی گئی لیکن شام کی جانب سے سفاکانہ طور پر
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بھی امریکہ اور روس کی جانب سے شام سے
اپیل کی جارہی ہے کہ اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کیلئے اجازت دے،
امریکی بیڑا صدر امریکہ کی جانب سے اجازت کا منتظر ہے۔شامی حکومت کی جانب
سے اس اپیل پر کوئی عندیہ نہیں دیا گیا اور معائنہ کاروں کو مبینہ مقام تک
جانے کی کوئی اجازت نہیں دی جارہی ۔ دمشق کے علاقے غوطہ میں کیمیائی
ہتھیاروں کے حملے میں سینکڑوں ہلاکتوں پر اقوام متحدہ کی بے حسی و سست روی
بڑی حیران کن ہے کہ جہاں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں وہاں سلامتی کونسل کا
اجلاس بلا کر کسی بھی ملک پر بغیر ثبوت چڑھائی کرنے کی امریکہ کو اجازت دے
دی جاتی ہے لیکن جب ان کے نزدیک مسلمانوں کی تباہی و بربادی ہو رہی ہو تو
پھر انھیں کسی بھی معاملے پر جلد ردعمل کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ شام
میں خانہ جنگی کے نتیجے میں دس لاکھ کے قریب بچے نقل مکانی کرنے پر مجبور
ہوئے ہیں اور یونیسف کی رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ بچے اپنے ملک میں اپنے گھر
وں سے بے گھر اور دربدر ہوچکے ہیں۔دوسری جانب لبنان کے شہر طرابلس کی دو
مساجد میں ہونے والے دہماکوں کے نتیجے میں بیس افراد سے زائد افراد جاں بحق
اور پانچ سوسے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق لبنان کے ہمسایہ
ملک شام میں جاری فرقہ وارانہ جنگ کے اثرات لبنان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں
اور دونوں مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔کچھ ایسی ہی
صورتحال پاکستان میں بھی دیکھنے کو آئی جب پنجاب کے ضلع بھکر میں فرقہ
وارانہ تشدد کے نتیجے میں 11افراد ہلاک ہوئے جبکہ کوئٹہ ،ہنگو، کوہاٹ ،
بنوں ، پشاور ، کراچی اوردیگر شہر دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں حالیہ
اسلام آباد میں ایک مدرسے پر فائرنگ کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ،
جمعہ کی نماز کے بعد ہونے والی فائرنگ سے 3افراد جاں بحق ہوئے۔فرزندان
اسلام کا ہولناک قتل عام مذہبی اختلاف کی بنا ء پر دنیا کے سامنے آرہا ہے
اور اسلام کا ایک غلط رخ غیر مسلم دنیا میں پیدا ہورہا ہے کہ مسلک اور فرقہ
کے نام پر جب مسلمانوں میں متشدد اختلاف موجود ہے تو پھر اسلام ، امن و
آشتی کا مذہب کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔مصر میں جس طرح جمہوریت پر امریکہ کی
آشیر باد پر شب ِ خون مارا گیا اور نہتے نمازیوں پر فوجی ٹینکوں سے چڑھائی
کی گئی اس نے ہلاکو خان کی چنگیزیت کو شرما دیا تو کسی نے ایسے فرعون کی
واپسی قرار دیا یہاں بھی امریکہ جیسے ممالک فوج کے آمرانہ اقدام پر لب سلے
بیٹھے ہیں۔جامعہ الازھر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے امریکہ پر زور دیا
ہے کہ وہ مصر میں افراتفری کی حمایت سے گریز کرے ، ان کا کہنا تھا کہ مصر
ایک نازک دور سے گذر رہا ہے عالمی برادری کو اس نزاکت کا احساس کرنا
چاہیے"۔عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو
جواز بنا کر ملت کو جس طرح تباہ و برباد کیا جارہا ہے اس کی مثال تاریخ
اسلامی میں بہت کم ملتی ہے۔فرقہ وارنہ کشیدگی عراق میں جس قدر ہیبت ناک
طریقے سے پھیل رہی ہے ایسے عالمی طاقتوں کی جانب سے کنٹرول کے بجائے اشتعال
انگیزی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔صرف رمضان المبارک کے مہینے میں عراق میں
دہشت گردی کے واقعات کی بنا ء پر کم از کم670افراد ہلاک ہوئے ۔اس سال
تقریبا چار ہزار افراد ہلاک جبکہ ساڑھے نو ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں،
بغداد میں عید کے دن11 دہماکے ہوئے جس میں60افراد جاں بحق اور 170زخمی ہوئے
۔ 2003ء کے بعد رواں سال سب سے زیادہ خونی قرار دیا گیا ہے اور امریکی
انخلا ء کے بعد اس سال فرقہ وارنہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔عراق
میں خود کش حملوں میں تیزی اور متشدد رجحان نے عام مسلمانوں کی زندگیوں کو
خطرے میں ڈال دیا ہے ، ماہ جولائی میں دیالی صوبے کے وجیہیہ شہر کی ابوبکر
الصادق مسجد میں خود کش دہماکے سے کم از کم 20افراد جاں بحق اور چالیس زخمی
ہوئے۔دیالی صوبے کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ تمام مسالک دہشت گردی کے
نشانے پر ہیں ، دو مذہبی گروہوں کی مساجد ، جنازے اور فٹ بال کے میدان دہشت
گردی کا نشانہ بنتے ہیں ، اس صوبے کو مسلکی جنگ کا اکھاڑہ بھی کہاجاتا
ہے۔عراق میں فرقہ وارنہ تشدد کا ذمے دار وزیر اعظم نوری مالکی کو قرار دیا
جاتا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ ایک مخصوص گروہ کی قیادت کرتے ہیں ، 2011ء
میں امریکی انخلا ء کے بعد تشدد کی حالیہ لہر کو بد ترین تشدد قرار دیا
جارہاہے۔اسی طرح عراق کے شمالی شہر کرکوک میں ماہ جولائی میں متعدد بم
دہماکوں اور فائرنگکے واقعات میں تیس افراد سے زائد ہلاک ہوئے ، شام کے صدر
بشار الاسد کی طرح عراق کے وزیر اعظم نوی المالکی کو فرقہ وارنہ متشدد
واقعات کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اپریل سے
جولائی 2013تک ڈھائی ہزار عراقی مارے جاچکے ہیں۔عراق کے شہر ، بغداد ،موصل
،کرکوک ، تاکی ، تکریت میں خود کش دہماکے میں ان گنت جانیں فرقہ وارنہ تشدد
کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔پاکستان بھی عالمی سازشوں کا شکار ہے اور یہاں بھی
کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی وجہ سے آئے دن مساجد ، جنازوں اور بے گناہ
عوام کے ساتھ سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔مذہبی
انتہا پسندی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایسے کوئی دو فریق بیٹھ کر حل
کرلیں گے بلکہ یہ ایک عالمی اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کا سب سے
متشدد مسئلہ ہے جس کا فائدہ امریکہ اور اسلام دشمن قوتیں اٹھا رہی ہیں۔وزیر
اعظم کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش اور طالبان کی جانب سے
مذاکرات پر منقسم ہوجانا اور جماعت اسلامی کے ساتھ جمعیت علما اسلام (ف) پر
عدم اعتماد کا اظہار بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک جانب
طالبان کا ایک گروپ مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے تو دوسری جانب وزیراعظم کی
تقریر کو اعلان جنگ قرار دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کے درمیان باہمی چپقلش کو
دور کرنے کیلئے تمام اسلامی ممالک کو السلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد
کرنا چاہیے اور نیٹو کے طرز پر اپنی اسلامی فوج بنا کر متاثرہ ممالک میں
امن کے قیام کیلئے اپنا کردار ادا چاہیے۔شام ، لبنان، مصر،عراق،افغانستان
اور پاکستان میں فرقوں اور مسالک کے نام پر جدال کا سدباب اسلامی ممالک کو
خود ہی حل کرنا ہوگا۔یہ ایک عالمی جنگ ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات
کے سبب مسلم ممالک میں لڑی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک اپنے وسائل و دولت کو
باہمی اختلافات کی اس عالمی جنگ میں جھونک رہے ہیں ، کوئی بھی ایک اسلامی
ملک اس آگ سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ سب اتحاد بین المسلمین کا
مظاہرکریں۔تاکہ فرقہ وارنہ عالمی جنگ کا خاتمہ ہو۔لیکن عالمی استعماری
قوتیں بھی یہ یاد رکھیں کہ اس جنگ کا رخ ضرور ان کی جانب منتقل ہوگا وہ غلط
فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ یہ جنگ مسلم ممالک تک محدود رہے گی۔ |