امریکا کے افغانستان پر جارحیت کے بعد سے پورے خطے کے
حالات انتہائی خراب ہیں۔جہاں ایک طرف افغانستان سے ملحق ممالک خصوصاً
پاکستان کی معیشت کا پہیہ جام ہوگیا ہے، وہیں ان ممالک میں امن و سکون بھی
مفقود ہے۔ پورے خطے کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔اس حوالے سے افغانستان
پورے خطے کے لیے دل کی حیثیت رکھتا ہے، اگر افغانستان مستحکم ہوگا تو دوسرے
ممالک بھی مستحکم ہوسکتے ہیںاور افغانستان کا استحکام پاکستان کے تعاون کے
ساتھ بندھا ہے۔اس طرح افغانستان اور پاکستان کا آپس میں تعاون کرنا ایک
دوسرے کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔فی الحال افغان حکومت کو پاکستان کے
تعاون کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ وہاں غیرملکی قابض افواج نے سب کچھ ملیامیٹ
کرکے رکھ دیا ہے اور بہت سی مشکلات پیدا کردی ہیں، ان مشکلات سے چھٹکارہ
حاصل کرنے کے لیے انتہائی زیادہ محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ویسے بھی اگلے
سال افغانستان میں موجود تقریبا 87 ہزار نیٹو فوجی ملک چھوڑنے کے وعدے
کررہے ہیں جس کے بعد وہاں امن قائم کرنا افغان حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج
سے کم نہیں ہوگا۔اسی حوالے سے حامد کرزئی اپنے تازہ اور غالباً بطور صدر
آخری دورہ پاکستان سے بہت کچھ حاصل کرنے کی امید اور چند مطالبات کے ساتھ
اتوار کے روز اسلام آباد آئے۔ جہاں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور
سرتاج عزیز نے ان کا استقبال کیا۔ ان کے جہاز کو چکلالہ ائیر بیس پر اتارا
گیا اور حامد کرزئی کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ روایتی لباس میں ملبوس
بچوں نے پھولوں کے گلدستے پیش کیے ۔یاد رہے کہ صدر حامد کرزئی نے پاکستان
کا آخری دورہ تقریباً ڈیرھ سال قبل کیا تھا۔صدر کرزئی تقریباً 19 مرتبہ
پاکستان آ چکے ہیں لیکن گیارہ مئی کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ
(ن) کی واضح اکثریت سے کامیابی اور میاں محمد نواز شریف کے وزیراعظم بننے
کے بعد پہلی بار حامد کرزئی پاکستان آئے ہیں۔صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ
پاکستان آکر بہت خوشی ہوئی ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستانی وزیر اعظم اور صدر سے ملاقات کی اور
دوطرفہ تعلقات اور خطہ کی ابھرتی ہوئی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے تمام
امور پر توجہ مرکوز کی گئی۔صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ افغانستان
میں پائیدار امن و سلامتی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ صدر زرداری کے بقول
پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے۔جبکہ وزیراعظم محمد
نوازشریف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان مستحکم اور مضبوط افغانستان کو انتہائی
ناگزیر سمجھتا ہے،پرامن افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔پیر کی دوپہر
اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے
کہا کہ ان کے وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف سے جامع مذاکرات ہوئے
ہیں۔پاکستان کی طرف سے مذاکرات میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، وزیرِاعظم کے
مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز، وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی
اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی ، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق
پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے، جبکہ پاکستانی وفد کی
سربراہی وزیرِاعظم نواز شریف نے کی۔افغانستان کی طرف سے مذاکرات میں ملک کے
وزیرِ خزانہ، نائب وزیرِ خارجہ اور افغان اعلیٰ امن کونسل کے چیئرمین شریک
ہوئے اور افغان وفد کی سربراہی صدر حامد کرزئی نے کی۔
پاکستان اور افغانستان نے تجارتی و اقتصادی تعاون کے فروغ اور دوسرے کئی
معاملات کے معاہدے پر دستخط وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور ان کے افغان ہم منصب
حضرت عمر زخیل وال نے دستخط کیے۔ وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر حامد
کرزئی بھی اس موقع پر موجود تھے۔افغان صدر حامد کرزئی نے آمد کے فوری بعد
وزیر اعظم نوازشریف سے ون آن ون ملاقات کی جو ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دیر
تک جاری رہی، ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعمیری رابطوں کے عمل کو
آگے بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماﺅں نے پاکستان
اور افغانستان کو درپیش مشترکہ چیلنجوں پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے کا
ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر پاکستان اور افغانستان نے
مشترکہ چیلنج کے خلاف مل کر لڑنے ،تجارت، توانائی اور مواصلات کے شعبوں میں
تعاون کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ،افغان صدر نے وزیراعظم کو افغانستان کے
دورے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔افغان صدر حامد کرزئی نے اس موقع پر
کہا کہ بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ پاکستان کا دورہ کر رہاہوں، مجھے
امید ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان کی مدد کرے گا۔
انتہاپسندی مشترکہ چیلنج ہے ۔ہم توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان انتہا پسندی کے
خلاف لڑائی، افغانستان میں امن و مفاہمت اور افغان امن کونسل اور طالبان کے
درمیان مذاکرات کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے کرے گا، اس ایجنڈے کے ساتھ ہم آگے
بڑھ سکتے ہیں۔ افغان صدرنے یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی نازک موڑ پر
افغانستان پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا، پاکستان سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ
مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دے گا۔افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان میں قید
طالبان رہنماﺅں جن میں ملا برادر سرفہرست ہیں کی رہائی پر زور دیا۔ ان کا
کہنا تھا طالبان رہنماﺅں کی رہائی کے بعد مذاکرات کا عمل آسانی سے آگے
بڑھایا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ افغان عوام کی مرضی اور خواہش کے مطابق
افغانستان میں قیام امن کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ افغان
عوام کے مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں، ہم نے تجارتی، توانائی اور مواصلاتی
رابطوں کو تقویت دینے کے لیے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان اقدامات
سے پاکستان، افغانستان اور پورے خطے کو ثمرات ملیں گے۔ وزیراعظم نے
مواصلاتی منصوبہ جات، بجلی کے منصوبہ جات، ریل کے منصوبہ جات سمیت باہمی
طور پر متفقہ چند منصوبہ جات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مواصلات کے شعبے میں
طورخم جلال آباد اضافی کیرج وے کی جلد تکمیل اور دیگر شاہراتی منصوبے شامل
ہیں، توانائی کے منصوبوں میں ”کاسا 1000“ کی جلد تکمیل اور دریائے کنڑ پر
مشترکہ ہائیڈل پاور منصوبے کی تعمیر جبکہ ریل منصوبہ جات میں طورخم اور
جلال آباد کے ساتھ ساتھ چمن سے سپن بولدک تک نئے ریل رابطے استوار کرنا
شامل ہے۔ ان منصوبوں کے علاوہ ہم نے پاک افغان راہداری تجارت معاہدے پر جلد
اور بھرپور عملدرآمد پر بھی اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعمیری رابطہ دونوں ممالک کے عوام، خطے
اور دنیا کے لیے بہتر ہے۔ نوازشریف نے کہا کہ افغانستان نہ صرف پاکستان کا
پڑوسی ملک ہے بلکہ دوست بھی ہے اور دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان محبت کا
رشتہ قائم ہے۔ پاکستان کا مستقبل مستحکم افغانستان سے منسلک ہے، ہم
افغانستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور
افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت، قیام امن اور استحکام کے لئے کوششیں
جاری رکھیں گے۔ پاکستان افغانستان کو متحد، پرامن اور مستحکم دیکھنا چاہتا
ہے۔واضح رہے کہ چند ماہ پہلے ہیپاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے خارجہ
امور اور قومی سلامتی کے خصوصی مشیر سرتاج عزیز نے افغانستان میں قیام امن
کے حوالے سے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر افغان رہنما
چاہیں تو پاکستان افغانستان میں استحکام کے لیے افغان دھڑوں کے درمیان
مذاکرات میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان امن کونسل کی
درخواست پر ہم نے طالبان کے 26 قیدیوں کو رہا کیا اور انھیں محفوظ راستہ
بھی فراہم کیا۔سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ ’پرامن اور مستحکم افغانستان
پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے‘۔ افغانستان میں امن اور سلامتی کے بغیر
پاکستان میں امن اور سلامتی کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔
خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی درخواست پر صدر حامد کرزئی نے پاکستان
میں ایک دن مزید قیام کیا ہے۔ صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان صرف ایک روز
کا تھا صدر زرداری سے ملاقات کے بعد وطن روانہ ہونا تھا تاہم سفارتی ذرائع
کا دعویٰ ہے صدر کرزئی نے مذاکرات میں پاکستانی قیادت سے بعض گرفتار افغان
رہنماﺅں کی رہائی کا مطالبہ کیا ان میں ملا عبدالغنی برادر شامل ہیں۔ کرزئی
ملا برادر کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔ حامد کرزئی مفاہمتی عمل کی کامیابی میں
پاکستان کا بھرپور تعاون چاہتے ہیں۔اس لیے انہوں نے اپنے دورے کا وقت بڑھا
دیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک آپس میں تعاون کریں تو یہ ایک
اچھی بات ہے۔پاکستان کو بھی چاہیے کہ افغان صدر کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے
طالبان رہنماﺅں کو رہا کرے تاکہ امن کا عمل آگے بڑھے،طالبان رہنماﺅں کی قید
کے صورت میں امن کے قیام میں دشواری ہوسکتی ہے۔ |