بت شکن(پاکستانی) قوم سے کون لڑ سکتا ہے ؟

 65 ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کو دنیا سے متعارف کروا دیا
اس جنگ میں عسکری تاریخ کے دو عالمی ریکارڈ قائم ہوئے ۔پاکستان کا ہر شہری سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے بھارت کے سامنے کھڑا ہوگیا

تحریر : محمداسلم لودھی

جنگ بظاہر قتل و غارت گری کا باعث بنتی ہیں اور انسانوں کے ساتھ ساتھ املاک کا بے حد نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن 1965ء کی پاک بھارت ٗ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا پیغام لے کر آئی ۔اس سے پہلے دنیا کے بیشتر ممالک پاکستان کو بھارت کا حصہ ہی تصور کرتے تھے لیکن جب پاکستان کی بہادر افواج نے بھارت جیسی دنیاکی چھٹی عسکری طاقت کو میدان جنگ میں ناکوں چنے چبوا دیئے تب لوگوں پر یہ بات آشکارہ ہوئی کہ پاکستان ایک الگ آزاد اور خود مختار ریاست ہے جو ہر مشکل گھڑی میں اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔جب ہم پاک بھارت جنگ کی بات کرتے ہیں تو ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر یہ جنگ شروع کیسے ہوئی اور وہ کونسے محرکات اور عوامل تھے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی افواج کو میدان جنگ میں اتارنا پڑا ۔آئیے ان حقائق سے قارئین کو بھی آشنا کرتے چلیں -:

1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو انگریز وں نے جواہر لعل نہرو کی دوستی کی آڑ میں کئی ایسے علاقے بھی بھارت میں شامل کردیئے جن کومسلمانوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے تھا اس کے علاوہ بھارتی فوج نے انگریزوں کے ایما پر اور اپنی فوجی برتری کی آڑ میں نہ صرف وادی کشمیر میں اپنی فوج اتار کر قبضہ کرلیا جس میں 90 فیصد آبادی مسلمان تھی اور اسے ہر حال میں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا بلکہ ریاست جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن میں بھی بھارتی فوجوں نے قبضہ کرکے ناانصافی اور بددیانتی کی مثال قائم کردی حالانکہ ریاست جونا گڑھ اور حید ر آباد دکن کے مہاراجوں نے ( جو الحمداﷲ مسلمان تھے ) باقاعدہ پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا چونکہ 1947ء میں پاکستان کے پاس نہ تو کوئی وسائل تھے اور نہ ہی اس کی ابھی فوج ہی معرض وجود میں آئی تھی بلکہ فوج کی وہ یونٹیں جن میں مسلمان تعدادمیں زیادہ تھے دانستہ ان کو بھارت کے دور دراز علاقوں میں روک لیا گیا تاکہ ہجرت کے وقت وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بے رحم اور درندہ صفت سکھوں اور ہندووں سے نہ بچا سکیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی ہجرت ہوئی جس میں 9 لاکھ سے زائد مرد عورتیں اور معصوم بے گناہ بچے نہایت درندگی کامظاہرہ کرتے ہوئے شہید کردیئے گئے ۔وادی کشمیر میں کشمیر مجاہدین نے غیور قبائلیوں کے اشتراک سے بھارتی فوج کا راستہ روکنا چاہا لیکن آدھے سے بھی کم حصہ وہ بھارتی فوج سے چھین سکے جو آج آزاد کشمیر کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ۔اس وقت بھی جب مجاہدین سری نگر اور جموں پر قبضہ کرنے والے تھے تو بھارت خود واویلا کرتا ہوا اقوام متحدہ جا پہنچا اور امریکہ اور روس کی حمایت سے جنگ بندی کی قرار داد پاس کروانے میں یہ کہتے ہوئے کامیاب ہوگیا کہ بھارت بہت جلد کشمیر میں استصواب رائے کروائے گا ۔کشمیر ی عوام پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ رہنا پسند کریں گے ان کے فیصلے کااحترام کیاجائے گا اقوام متحدہ کی قرار داد کے بعد جنگ بند ی تو ہوگئی لیکن بھارت وادی کشمیر میں استصواب رائے کروانے کا وعدہ بھی دانستہ بھول گیا بلکہ کشمیر میں بھارتی فوج کی وسیع پیمانے پر مزید آمد اور فوجی چھاؤنیوں کو تعمیر کرکے کشمیر پر نہ صرف اپنا قبضہ مضبوط کرلیا بلکہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا ۔ پاکستان نے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بار بار استصواب رائے کی یاد دہانی کروائی لیکن روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتیں ہی جب بھارت کی سرپرست بن جائیں تو بھارت کشمیر میں کہاں استصواب رائے کروا سکتا تھا ۔چنانچہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف کشمیر مجاہدین مسلسل جدوجہد کرتے چلے آرہے تھے ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے آزادی مانگنے والے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے جبکہ رائے شماری کی قرار داد پاس کرنے والی اقوام متحدہ خاموش تماشائی بن گئی ۔ یہ دیکھ کر کشمیریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے 8 اگست 1965 ء کو بھارت کے جبر و تشدد کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انقلابی کونسل قائم ہوگئی ۔ پوری وادی کا درد و کرب "صدائے کشمیر" کی صورت میں انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے لگا۔

بھارت نے کشمیری مجاہدین کو پاکستانی حملہ آور قرار دے کر ان کا قتل عام شروع کردیا ان کے گھر جلنے لگے ان کے بچے ذبح کردیئے گئے ۔ وادی کشمیر کی مشک بیز فضا دھوئیں اور انسانی گوشت کی سڑاند سے معمور ہوتی چلی گئی پھر ایک رات بھارت نے اچانک پاکستان کے ایک سرحدی گاؤں اعوان شریف پر گولہ باری کرکے کئی نہتے پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس کے بعد بھارتی فوجوں نے آزاد کشمیر پر بھی حملہ کردیا۔ پاکستان نے یکم ستمبر 1965ء کو جوابی کاروائی شروع کی ۔پاکستانی فوجیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مضبوط ترین قلعوں کو توڑتی ہوئی آگے بڑھنے لگیں پھر 6 ستمبر کو علی الصبح بھارت نے اعلان جنگ کیے بغیر مغربی پاکستان پر زبردست حملہ کردیا ۔ اس کے بعد سیالکوٹ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی ۔ راجستھان بھی میدان جنگ بنا ۔ فضائی اور بحری فوجیں بھی حرکت میں آگئیں ۔ پاکستانی افواج نے بھارت کی چھ گنا فوجی طاقت کا حملہ نہ صرف پسپا کردیا بلکہ اسے واضح شکست سے بھی ہمکنار کردیا ۔17 روزہ گھمسان کی جنگ کے بعد فائر بندی ہوگئی اس وقت تک بھارت کے 130 ہوائی جہاز تباہ ٗ 500 ٹینک تباہ اور 7000 سے زائد فوجی جہنم واصل ہوچکے تھے جبکہ 800 قیدی بن کر پاکستان کی جیلوں میں بند ہوچکے تھے ۔ سینکڑوں توپیں ٗ ہزاروں فوجی گاڑیاں اور بہت سا دوسرا جنگی سازو سامان غارت ہوچکاتھا جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا نقصان ایک چوتھائی بھی نہیں تھا ۔

پاکستانی افواج نے ان سترہ دنوں میں ہماری تاریخ کا روشن ترین باب رقم کردیا۔ یہ جنگ نہ صرف ہماری تاریخ میں بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی ۔ یہ جنگ پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے بہت بڑا چیلنج تھی یہ قومی آزمائش کا بہت کٹھن مرحلہ تھا پاکستان او رپاکستانی قوم نے اس چیلنج کا جواب جس جوانمردی ٗ بہادری ٗ شجاعت اور عزم واستقلال سے دیا اس پر پوری دنیا حیرت زدہ رہ گئی لیکن ان دنوں میں وقت لمحہ بہ لمحہ اور ساعت بساعت کس طرح گزرا ء جنگ روز بروز کیاصورت اختیار کرتی گئی پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کی کیفیت کیا رہی ؟ انتظار ٗ اضطراب اور جوش و خروش کی گھڑیاں کس طرح گزرتی رہیں ان تمام کیفیات کو الفاظ میں بیا ن کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اس جنگ میں پاکستانی فضائیہ ٗ بحریہ اور بری فوج نے جو عظیم جنگی کارنامے سرانجام دیئے ان کی مختصرتفصیل ذیل میں درج ہے -:

پاک فضائیہ کے کارنامے
بھارتی فضائیہ ٗ مجموعی طور پر پاک فضائیہ سے پانچ گنا بڑی اور طاقتور تھی تاہم اس سترہ روزہ جنگ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے ایک سو گیارہ جنگی جہاز تباہ کیے ۔ 19 جنگی جہازوں کو نقصان پہنچایا ۔ 149 ٹینک تباہ کیے اور 56ٹینکوں کو نقصان پہنچایا 62 توپیں تباہ کیں 19 توپوں کو نقصان پہنچایا 666 فوجی گاڑیاں تباہ جبکہ بھارت کے سات ہوا باز گرفتار کرلیے ۔ اس کے برعکس پاکستان کے صرف 14ایف 86 جہاز اور دو بی 57 طیارے تباہ ہوئے ۔ ان میں سے بھی دو جہاز اپنی توپوں کی زد میں آکر ضائع ہوئے جبکہ چار تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ضائع ہوئے پاک فضائیہ کا صرف ایک ہوا باز اور دو نیو ی گٹیر دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔

پاکستان بحریہ
پاکستانی بحریہ نے اپنے کسی نقصان کے بغیر بھارت کا ایک جہاز" فرنگیٹ " غرق کیا اور کاٹھیا وار کے ساحل پر دشمن کاایک بحری اور فضائی اڈہ دوارکا ( سومناتھ ) تباہ کیا ۔ اس اڈہ پر دشمن کاساحلی توپ خانہ ٗ راڈر سٹیشن اور ہوائی اڈہ بھی تھا جو مکمل طور پر تباہ کردیاگیا اس جگہ پاکستانی بحریہ کی توپوں سے دشمن کے تین ہوائی جہاز بھی تباہ ہوئے ۔

بری فوج
پاکستان کی بری فوج نے کارگل اور ٹٹیوال سے لے کر راجستھان تک دشمن کی کئی گنا زیادہ طاقت کانہ صرف مقابلہ کیا بلکہ ہر محاذ پردشمن کو پسپاکرکے اس کے 1617 مربع میل علاقے پر بھی قبضہ کرلیا ۔ ہر جگہ پاکستانی فوج کو اپنے سے کم از کم چھ گنا زیادہ فوج اور جنگی سازو سامان کامقابلہ کرنا پڑا ۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں بھارت کے سات ہزار سے زائد فوجی ہلاک اور آٹھ سو سے زائد گرفتار ہوئے ۔ اس کے 516 ٹینک تباہ کیے گیے اور 18 ٹینک ٹھیک حالت میں پاکستانی فوج کے قبضے میں آئے ۔دشمن کا بہت سا جنگی سازو سامان ٗ گولہ بارود ٗ توپیں ٗمشین گنیں اورہزاروں رائفلیں ٗ امریکی اسلحہ کے انبار اور بے شمار فوجی گاڑیاں ہاتھ لگیں ۔ان گاڑیوں میں بھارتی جرنیل راجندر پرشادکی ایک جیب بھی شامل تھی جس میں سے بھارت کے جنگی منصوبوں سے متعلق دستاویزات بھی موجود تھیں بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ 72 گھنٹے میں مغربی پاکستان پر قبضہ کرکے مشرقی پاکستان پر چڑھائی کردے گا لیکن 72 گھنٹے کی یہ مدت گزرنے پر بھارت کے جنگ باز وزیر دفاع نے انتہائی مایوسی کے عالم میں بھارتی پارلیمنٹ میں بتایا کہ بعض وجوہ کی بنا پر لاہور اور قصورکے محاذپر ہماری فوجیں کچھ پیچھے ہٹ گئی ہیں اور اس وقت پاکستانی توپوں کے گولے فیروز پور شہر کے قریب گر رہے ہیں ۔

23ستمبر 1965ء کی صبح تین بجے فائر بندی ہوئی اس وقت مختلف سیکٹروں میں دونوں ملکوں کے تسلط میں ایک دوسرے کا جو علاقہ تھا اس کی تفصیل یہ ہے ۔
پاکستان کے زیر قبضہ بھارتی علاقے
اکھنو ر سیکٹر 340 مربع میل
لاہور سیالکوٹ ایک مربع میل

(3)
کھیم کرن فاضلکا 36 مربع میل
سلیمانکی ٗ فاضلکا 40 مربع میل
راجستھان میرپور خاص 1200 مربع میل
کل 1617 مربع میل علاقہ
بھارت کے زیر قبضہ پاکستانی علاقہ
کارگل 10 مربع میل
ٹیٹوال 2 مربع میل
اوڑی پونچھ 170 مربع میل
سیالکوٹ 140 مربع میل
لاہور 100 مربع میل
راجستھان میرپور 24 مربع میل
کل 446 مربع میل علاقہ

کہنے کا مقصدیہ ہے کہ بھارتی جرنیلوں نے پاکستان پر قبضہ کرنے اور لاہورمیں جم خانہ کلب میں شراب کے جام ٹکرانے کا جو سنہرا خواب دیکھا تھا پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اس خواب کو نہ صرف اپنے جذبہ حیرت سے پاش پاش کردیا بلکہ بھارت کو یہ بات بتا دی کہ پاکستان بظاہر اس سے کہیں زیادہ چھوٹا اور کم وسائل ملک ہے لیکن پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے جوان بھارت سے کہیں زیادہ جذبہ حیریت سے لبریز ہیں وہ دیکھنے میں تو گوشت پوشت کے انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن جب میدان جنگ میں ڈٹ جاتے ہیں تو فولاد سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ۔

اس کے باوجود کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کو ہوئے 48 سال کا عرصہ گزر چکاہے جن پاکستانیوں نے یہ جنگ شعور کی حالت میں دیکھی یا اس میں خود بھی حصہ لیا ان میں سے اکثر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں یا رخصت ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جبکہ موجود نسل کو یہ تو پتہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ایک جنگ 1965 میں ہوئی تھی لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس وقت ہواکیا تھا اور پاک فوج اور پاکستانی قوم کس طرح اور کن کن لمحات میں بھارت کی ٹڈی دل فوج اور عسکری طاقت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تھی کہ بھارت کو لاہور پر قبضے کاشوق چھوڑ کر اپنی سلامتی کی فکر کرنی پڑی ۔ یہ سچ ہے کہ جنگیں اسلحے اور فوجوں کی تعداد سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ میدان جنگ میں وہی کامیاب وکامران ٹھہرتے ہیں جو ایمان کی طاقت ٗخدا پر کامل بھروسہ اور اپنے قوت بازو پر اعتماد کرتے ہیں ۔کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والا ملک پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی فوج کا ہر جوان اور افسر صرف شہادت کا خواب لے کر فوج میں شامل ہوتا ہے اس جذبے اور ولولے میں نہ پٹھان قوم پیچھے ہے نہ پنجابی ٗ نہ سندھی اور نہ ہی بلوچی ۔ بلکہ علامہ اقبال کے فلسفہ قومیت کی طرح پاکستان کا ہر شہری اپنی شناخت کو بھول کر خود کو ایک ذمہ دار اور وطن کی حفاظت کرنے والا پاکستانی ہی تصور کررہا تھا ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس جنگ نے 10 کروڑ پاکستانیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا یہ سوچے بغیر کہ وہ خودکون ہے اور کہاں کارہنے والا ہے اس کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد تھاکہ بھارت کو ہر محاذ پر اور ہر حال میں شکست دینی ہے فوج کی وردی پہننے والے تو فرنٹ لائن پر بھارتی سے دست بدست جنگ کررہے تھے لیکن شہریوں کاعالم بھی یہ بھی تھا وہ اپنے فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے ان کے مورچوں تک پہنچ گئے تھے بطور خاص لاہور میں زندہ دلان شہری جو ہاتھوں لاٹھیاں لے کر واہگہ سرحد کی جانب چل پڑے تھے کہ فوج کے جوانوں نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ جب تک پاک فوج کا ایک بھی جوان زندہ ہے بھارت ٗ پا ک سرزمین پر قدم رکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا اس وقت تک آپ اپنے گھر واپس جائیں اور شہروں کا نظم ونسق سنبھالیں تاکہ دشمن کو شہروں میں اپنے چھاتہ بردار اتارنے اور پروپیگنڈہ کرکے شہریوں کو خوفزدہ کرنے کاموقع نہ ملے ۔تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ جتنے دن بھی یہ جنگ جاری رہی سرحد پر دشمن کے سامنے برسرپیکار فوجی جوانوں کا ناشتہ لاہور کے شہری ہی انہیں پہنچاتے رہے ۔

جب بھارتی جنگی طیارے لاہور کی فضاؤں میں بمباری کے لیے نمودار ہوتے تو سرگودھا سے پاک فضائیہ کے شاہین بھی ان کی خاطر مدارت کرنے کے لیے پہنچ جاتے پھر لاہور کے شہری خوفزدہ ہوکر مورچوں اور پناہ گاہوں میں پناہ لینے کی بجائے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر بھارتی طیاروں کے ساتھ شاہینوں کے سلوک کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ۔ یہ بات بھی تاریخ کا اہم حصہ ہے کہ بھارتی فضائیہ 17 روزہ جنگ کے دوران لاہور کے قریب دریائے راوی کے واحد پل کو بھی بمباری کرکے توڑ نہیں سکے ۔ بعداز اں بھارتی پائلٹوں نے اپنی مشاہداتی کتابوں میں لکھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم نیچے پرواز کرکے راوی کے پل پر بم گراتے ہیں لیکن کوئی بھی بم ٹھیک نشانے پر نہیں لگتا اس پل پر سبز لباس والا ایک بزرگ کھڑا دکھائی دیتاہے جو پل پر گرنے والے بمبوں کو کرکٹ گیند کی طرح کیچ کرکے اپنے بغلی تھیلے میں ڈال لیتا ہے وہ بزرگ کون ہے ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں ۔(وہ بزرگ حضرت داتا گنج علی ہجویری ؒ ہیں جنہیں محافظ لاہور کا خطاب بھی دیا جاتا ہے )

اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ( المعروف کرماں والے ) کی کتاب میں درج ہے کتاب کامصنف لکھتاہے کہ 1965 کی جنگ سے چار پانچ دن پہلے حضرت کرماں والے بزرگ لاہور کے میوہسپتال میں داخل تھے جہاں ان کا مثانے کاآپریشن تھا زخم تازہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع کررکھاتھا اس لیے وہ واپس اپنے گاؤں جانے کی بجائے لاہور میں ہی اپنے ایک مرید ( گلبرگ ) میں عارضی طور پر قیام پذیر تھے کہ تین ستمبر 1965 کی صبح آپ ؒ نے حکم دیا کہ وہ واہگہ بارڈ ر پر جانے کاارادہ رکھتے ہیں ان کے جانے کا انتظام کیا جائے ۔ قریبی مریدوں نے کہا حضرت صاحب آپ کے زخم تازہ ہیں اور ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کررکھا ہے آپ واہگہ بارڈر پرکیا کرنے جارہے ہیں مریدوں کی یہ بات سن کر حضرت کرماں والی سرکار ؒ نے فرمایا جس بات کا پتہ نہ ہو اس پر اصرار نہیں کرتے آپ کو جو کہا گیاہے اس پر عمل کرو ۔چنانچہ کار پر بیٹھ کر ( جبکہ آپ کو پیشاب کے نکاس کی نالیاں بھی لگی ہوئی تھیں ) واہگہ بارڈر جا پہنچے وہاں بھارت کی جانب رخ کرکے کچھ دیر قرآنی آیات کا ورد کرتے رہے پھر دائیں ہاتھ میں مٹی اٹھا کر بھارت کی جانب پھینک دی اور واپس گھر آگئے ۔سفر کی وجہ سے زخموں سے خون بہنے لگا تکلیف میں حد درجہ اضافہ ہوگیا طبیعت میں بے چینی پہلے کی نسبت زیادہ بڑھ گئی لیکن چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے ۔ اگلی صبح پھر آپ نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کرو برکی ہڈیارہ سرحد پر جانا ہے ۔ مریدوں نے پھر آپ کو روکنا چاہا لیکن آپ نے اشارہ کرکے سب کو خاموش کردیا اور گاڑی پر برکی ہڈیارہ سرحد پر جا پہنچے کچے پکے راستوں پر سفر کرنے کی وجہ سے تکلیف میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا لیکن آپ نے وہاں بھی چند قرآنی آیات کاورد کر کے بھارت کی جانب پھونک ماری پھر مٹی کو مٹھی میں لے کر بھارت کی جانب پھینکا اور گھر واپس آگئے ۔زخموں میں خون بہنے کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکے تکلیف اور بھی پریشان کردیا لیکن اگلی صبح پھر آپ نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کریں مریدوں نے پوچھا آج کہا ں جانے کاارادہ ہے آپ ؒ نے فرمایا آج گنڈا سنگھ قصور کی سرحد پر جانے کاحکم ملا ہے ۔چنانچہ آپ لاہور سے 65 کلومیٹر دور گنڈا سنگھ بارڈر پرجا پہنچے اور وہی عمل دھرائے جو اس سے پہلے واہگہ اور برکی کے مقام پر ہو چکے تھے ۔جب آپ تھکے ماندے اور زخموں سے چور واپس لاہور پہنچے تو سجدے میں گر کر آپ اس قدر زارو قطار روئے کہ مریدوں کی بھی چیخیں نکل گئیں آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے -:
"اے اﷲ ٗ نبی کریم ﷺ نے پاکستان کی سرحدیں محفوظ کرنے کی مجھے جو ذمہ داری سونپی تھی وہ میں نے پوری کردی ہے اب تو ہی پاکستان کوہر قسم کی جارحیت اور پریشانی سے محفوظ رکھ ۔"

خدا کی قدرت کہ 5 ستمبر کی رات حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری المعروف کرماں والے گنڈا سنگھ بارڈر پر قرآنی آیات پڑھ کر واپس لوٹے تھے کہ 6 ستمبر کی صبح انہی مقامات پر بھارت نے ٹینک ٗ توپوں سے مسلح ایک ڈویژن فوج سے زبردست حملہ کردیا اس وقت یہ تینوں مقامات بالکل خالی تھی پاک فوج کشمیر میں برسرپیکار تھی پاک فوج کی صرف ایک کمپنی میجر شفقت بلوچ کی کمانڈ میں برکی ہڈیارہ سیکٹر پر ابھی رات کے پچھلے پہر آکر ٹھہری تھی کہ چند گھنٹے بعدہی اسے بھارتی یلغا ر کا سامنا کرنا پڑا ۔میجر شفقت بلوچ نے مجھے خود بتایاکہ بھارتی ٹینک اور فوج ہڈیارہ ڈرین کے دوسرے کنارے پر صرف 200 فٹ دور رہ گئی تھی وہ ہڈیارہ ڈرین کے بند پر کھڑے مجھے واضح طور پر دیکھ رہے تھے جبکہ میں بھارتی ٹینکوں میں بیٹھے ہوئے بھارتی فوجیوں کو دیکھ رہا تھا لیکن قدرت کا کرم ایساہوا کہ انہوں نے مجھ پر جتنی بھی گولیاں چلائیں ان میں سے صرف ایک گولی میرے بازو کو چھوتی ہوئی گزرگئی جس سے ایک خراش لگی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بھارتی فوجی مجھے دیکھنے کے باوجودان کی بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں کارخ کوئی غیبی طاقت موڑ دیتی تھی ۔میجر شفقت نے بتایا کہ اگر میں ہڈیارہ بند کے نیچے اتر آتا تو بھارتی ٹینکوں اور فوج ہمیں روندتے ہوئے چند گھنٹوں میں لاہور فتح کرچکے ہوتے ۔جب بھارتی ٹینک بہت قریب آگئے تومیں نے ان پر ٹینک شکن توپ کو فائر کرنے کا حکم دیا بھارتی اتنے قریب پہنچ چکے تھے کہ میری آواز کو بھی سن رہے تھے لیکن چند ہی لمحوں بعد ہماری ٹینک شکن توپ کے گولوں نے ٹینکوں کو تباہ کرکے بھارتی فوج کی پیش قدمی روک دی ۔ہمارے پاس چونکہ اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے ہم بھارت کی فائرنگ کے جواب میں صرف چند فائر ہی کرتے تاکہ انہیں احساس ہو کہ پاک فوج ہڈیارہ ڈرین کے اس پار موجود ہے ۔ میجر شفقت بلوچ نے مجھے بھارتی جرنیلوں کی چند کتابیں بھی دکھائیں جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ واہگہ سرحد عبور کرنے کے بعد ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ وہ کونسی فولادی دیوارہے جو بھارتی فوج کو پیش قدمی نہیں کرنے دے رہی اور دس گھنٹے تک کئی بھارتی بریگیڈ کو روکے رکھا ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ ریکارڈآج تک ناقابل تسخیرہے کہ صرف ایک کمپنی جس میں صرف 110 جوان ہوتے ہیں اس نے پورے بریگیڈ کونہ صرف دس گھنٹے تک روکے رکھابلکہ اسے تباہ بھی کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فولادی طاقت اس روحانی طاقت کی تھی جس نے حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کو سرحدیں محفوظ کرنے کے لیے بیماری کی حالت میں بھی بھارتی سرحد پر بھیجا تھا اور ان کے ہاتھوں سے نکلی ہوئی وہ مٹی تھی جو بھارتی فوجیوں کی آنکھوں کو اندھا کرگئی کہ وہ 200 فٹ دور ہڈیارہ ڈرین بند پر کھڑے ہوئے پاکستانی فوج کے میجر شفقت بلوچ کا نشانہ نہ لے سکے ۔اسی جنگ میں بی آر بی کا دفاع کرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی شہید نے بھی جام شہادت نوش کیا جس کے صلے میں انہیں پاکستان کی عسکری تاریخ کا دوسرا نشان حیدر بعدازشہادت عطاکیا گیا ۔ یاد رہے کہ بی آربی نہر دفاع لاہور اور دفاع پاکستان کا وہ آخری دفاعی لائن تھی جس کے بعد لاہور شہر پر بھارتی قبضے کو روکنا تقریبا ناممکن تھا اس عظیم جنگی معرکے میں میجر عزیز بھٹی شہید ٗ میجر حبیب شہید کے علاوہ پاک فوج کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں نے اپنے لہو سے ایسی لکیر کھینچ دی جس کو تمام تر کوشش اور اسلحی برتری کے باوجود بھارتی فوج عبور نہ کرسکی ۔آج بھی بی آربی کے کنارے بنی ہوئی وہ یادگار اپنے شہیدوں کے عظیم جنگی کارناموں کی داستان سناتی ہے ۔بی آر بی کو اگر شہیدوں کی نہر کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کا پانی شہیدوں کے لہو سے سرخ ہوچکا تھا اور اس لہو کی سرخی تاقیامت پاکستان کی حفاظت کرتی رہے گی ۔

قرآن پاک میں سورہ الانفال میں اﷲ فرماتا ہے " اے میرے حبیب جنگ بدر میں جب آپ نے اپنی مٹھی میں کنکر بھر کر دشمنوں کی طرف پھینکے تھے وہ مٹھی آپ کی نہیں آپ کے رب عظیم کی تھی ۔" سوچنے کی بات ہے پھر اس کے آگے دنیا کی کونسی طاقت رک سکتی ہے ۔

ایک اور واقعہ عمار صدیقی کی کتاب "مجاہدین صف شکن" میں درج ہے ۔ یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے جو مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضر تھا جس روز لاہور پر بھارت کا حملہ ہوا اسی رات مدینہ منورہ کے کئی افراد نے ایک ہی خواب دیکھا کہ روضہ اقدس سے حضرت محمد ﷺ بہت عجلت میں ایک بہت خوبصورت تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر باب اسلام میں تشریف لے گئے ۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول ﷺ اس قدر جلد ی گھوڑے پر کہا ں تشریف لے جارہے ہیں ۔ فرمایا کہ پاکستان میں جہاد کے لیے ٗ پھر یکدم برق کی مانند روانہ ہوگئے آپ کے پیچھے مواجہ شریف سے ہی پانچ حضرات اسی راستے پرواز کرتے ہوئے نکل گئے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جنگ صرف پاکستانی فوج یا قوم نے نہیں لڑی بلکہ حضور ﷺ سمیت صحابہ کرام بھی اس جنگ میں کفار کے خلاف صف آراء تھے انہوں اﷲ تعالی کے حکم سے فرشتوں کی تائید خداوندی بھی حاصل تھی ۔ جن لوگوں نے اپنی ہوش میں یہ جنگ دیکھی ہے ان کو یقینا یہ بات یاد ہوگی کہ عین جنگ کے دوران آسمان پر ایک مکمل تلوار نموار ہوئی تھی جس کا رخ بھارت کی جانب تھا اور پکڑنے والے ہتھی پاکستان کی جانب تھی ۔

یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ذوالفقارعلی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے تاشقند معاہدے کے خلاف پاکستان واپس آکر اس قدر واویلا کیا جیسے جنرل محمدایوب خان تاشقند میں پاکستان کا سودا کرآئے ہیں اور یہ شوشہ چھوڑ کر نوجوانوں کو اس عظیم شخص کے خلاف کھڑا کردیا جس نے میدان جنگ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی نہ صرف جنگ جیتی تھی بلکہ ہر محاذ پر بھارت کو منہ توڑ جواب بھی دیا تھا ۔اگر بھٹو کے اس شوشے کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا ۔
بھارت کمانڈر انچیف بی ایم کول اپنے کتاب "کہی ان کہی " میں لکھتے ہیں کہ میری بیوی نے مجھے سویرے جگا کر بتایا کہ اسے تھوڑی دیر پہلے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم شاستری کا تاشقند میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا ۔ شاشتری کی موت یقینا اس ذہنی دباؤ کا نتیجہ تھی جو مذاکرات کے میز پر انہیں جنرل محمد ایوب کے سامنے بیٹھ کر کرنا پڑا تھا ۔ شاستری کی موت کاذکر کرتے ہوئے جے بی کرپلانی نے لوک سبھا میں کہا میرا خیال ہے تاشقند میں جو دباؤ ڈالا گیا تھا اس کی وجہ سے شاستری کے دل و دماغ میں ایک کشمکش پیدا ہوگئی ہوگی جس کے نتیجے میں وہ اپنے عوام سے کیا ہوا یہ وعدہ بھول گئے کہ یقین دہانی کے بغیر فوج پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ شاستری نے اس ذہنی کشمکش سے نجات حاصل کرنے کے لیے اعلان تاشقند پر دستخط کردیئے ۔

یہ حالات ثابت کرتے ہیں کہ 1965 میں اگر پاکستانی قیادت ذمہ دار اور جرات مند نہ ہوتی تو بھارت کب کا پاکستان کو ہڑپ کرچکا ہوتا ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں کامیابی کا سب تمام انحصار جنرل محمدایوب خان کو جاتا ہے جن کے ایک ایک لفظ میں پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کے بجلی بھری پڑی تھی ۔اس عظیم جنگی معرکے کا کریڈٹ افواج پاکستان کے ہر اس افسر اور جوان کو جاتا ہے جس نے مشکل ترین حالات میں بھی موت کے خوف سے بالاتر ہوکر بھارتی فوج کے پرخچے اڑا دیئے ۔چونڈہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ ٗ ( جس میں بھارت نے 600 ٹینک سے حملہ کیا تھا ) کا تذکرہ کیے بغیر پاکستان کی عسکری تاریخ نامکمل ہے یہ ایسی جنگ تھی جس میں ایک لمحے کی ناکامی بھی پاکستان کی واضح شکست میں تبدیل کرسکتی تھی لیکن شواہد کے مطابق اپنے جسموں سے بم باندھ کر جس طرح پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے نیچے لیٹ کر ٹینکوں کے کچھ اس طرح پرخچے اڑ ا دیئے کہ بھارتی فوج اپنے حواس کھو بیٹھی اور ذہنی طور پر اپنی شکست تسلیم کرلی ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے تین اہم ترین عسکری ریکارڈ قائم ہوئے جن کا ذکر دنیا کی جنگی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے شامل ہوچکا ہے ان میں ایک ریکارڈ یہ ہے کہ لاہورہڈیارہ سیکٹر پر بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ کو پاک فوج کی ایک کمپنی نے میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں دس گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ پورے بریگیڈ کو تباہ کردیا ۔دوسر ا عالمی ریکارڈ ائیر کموڈور ایم ایم عالم کا ہے جنہوں نے صرف چند منٹوں میں بھارت کے پانچ جنگی طیارے گرا کر بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ 1965ء جنگ کی یہ خاص بات ہے کہ بھارت کی بری فوج میدان جنگ میں واضح شکست سے ہمکنار ہوئی ٗ بھارتی فضائیہ کو جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیاگیا جبکہ حجم کے اعتبار سے بھارتی بحریہ طاقتور ہونے کے باوجود پاکستانی بحریہ کے ہاتھوں پے درپے شکست سے ہمکنار ہوتی رہی ۔اس جنگ کے حوالے سے ممتاز شاعر اور ادیب جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک خوبصورت اور برمحل نظم ذیل میں درج ہے جو جنگ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔

چھ ستمبر
احمد ندیم قاسمی
چاند اس رات بھی نکلا تھا مگر اس کا وجود
اتنا خوں رنگ تھا جیسے کسی معصوم کی لاش
تارے اس رات بھی چمکے تھے مگر اس ڈھب سے
جیسے کٹ جائے کوئی جسم حسین قاش بہ قاش
اتنی بے چین تھی اس رات مہک پھولوں کی
جیسے ماں جس کو ہو کھوئے ہوئے بچے کی تلاش
پیڑ چیخ اٹھے تھے امواج ہوا کی زد میں
نوکِ شمشیر کی مانند تھی جھونکوں کی تراش
اتنے بیدار زمانے میں یہ سازش بھری رات
میری تاریخ کے سینے میں اتر آئی تھی
اپنی سنگینوں میں رات کی سفاک سپاہ
دودھ پیتے ہوئے بچوں کو پرو لائی تھی
گھر کے آنگن میں رواں خون تھا گھر والوں کا
اور ہر کھیت پہ شعلوں کی گھٹا چھائی تھی
راستے بند تھے لاشوں سے پٹی گلیوں میں
بھیڑ سی بھیڑ تھی‘ تنہائی سی تنہائی تھی
تب کراں تابہ کراں صبح کی آہٹ گونجی
آفتاب ایک دھماکے سے افق پر آیا
اب نہ وہ رات کی ہیت تھی نہ ظلمت کا طلسم
پرچم نور یہاں اور وہاں لہرایا
جتنی کرنیں بھی اندھیرے میں اتر کر ابھریں
نوک پر رات کا دامانِ وریدہ پایا
میری تاریخ کا وہ باب منور ہے یہ دن
جس نے اک قوم کو خود اس کا پتہ بتلایا
آخری بار اندھیرے کے پجاری سن لیں
میں سحر ہوں میں اجالا ہوں حقیقت ہوں میں
میں محبت کا تو دیتا ہوں محبت سے جواب
لیکن اعدا کے لئے قہرہ قیامت ہوں میں
امن میں موجۂ نکہت مرا کر وارِ سہی
جنگ کے دور میں غیرت ہوں حمی ہوں میں
میرا دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں؟
خاک کا طیش ہوں افلاک کی دہشت ہوں میں
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.