جیسا کہ نام سے ظاہر ہے دہشت کا مطلب ڈرانا، دھمکانا اور
خوفزدہ کرنا ہے۔دہشت گردی کا مفہوم بہت وسیع ہے اور یہ اس وقت جنم لیتی ہے
جب صبرو تحمل اور برداشت کے جذبات اور احساسات ناپید ہوجائیں۔ عملی شکل میں
یہ ذہنی بھی ہوتی ہے اور جسمانی بھی۔دہشت گردی عالمی بھی ہوتی اور مقامی
بھی۔ اس میں ایک فرد بھی ملوث ہوسکتا ہے اور سینکڑوں لوگوں پر مشتمل
گروہ۔جب ایک معاشرے کا طاقتور طبقہ یا گروہ جو مذہبی بھی ہوسکتا ہے، لسانی
بھی ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے دہشت گردی کا ہتھکنڈہ استعمال کرتے
ہیں۔جسے مقامی دہشت گردی کہتے ہیں۔ ایک ملک کی دوسرے کے خلاف جارحیت کو بھی
دہشت گردی سے گردانا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بعض طاقتور ممالک جب کمزور اور
ترقی پذیر ممالک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہیں تو اسے عالمی دہشت گردی
قراردیا جاسکتا ہے۔
دہشت گردی کی بہت سی صورتیں اور جہتیں ہیں۔ ہر صورت اور ہر جہت میں دہشت
گردی کے مرتکب افراد ، گروہ، ملک یا پھر عالمی طاقتیں کوئی نہ کوئی
مقاصدرکھتی ہیں۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اگر فرد کا جائزہ لیا جائے
تو شاید وہ چند ٹکوں کے حصول کے لئے بہت سی جانوں کو ضائع کردیتا ہے۔ اگر
وہ کسی نظریے کی بنیاد پر ایسا کررہا ہے تو اس کی حالت ایک ذہنی مریض سے کم
نہیں ہوتی جو اپنے اس نظریے کے حصول کے لئے معصوم جانوں کی زندگی کو خطرے
میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن یہاں معاشی ناہمواری کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یہ
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرے جس
سے معاشرہ فلاحی مملکت قرار پائے۔ بنیادی سہولیات کے علاوہ، انصاف، روزگار
اور امن عامہ کو یقینی بنا کر ہی معاشرے میں ہم آہنگی اور دہشت گردی اور
انتہاء پسندی کے جذبات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت دہشت گردی
کا سب سے بڑا موجب معاشی ناہمواری ہے۔ ایک طبقہ اقتدار بھی قابض ہوکر ایسی
پالیسیاں ترتیب دیتا ہے جس سے وہ اپنے اور اپنے جیسے لوگوں کے لئے مراعات
جبکہ غریب غرباء کے لئے دو وقت کی روٹی ناپید ہوجاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر
دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے جذبات ابھرآتے ہیں۔
جہاں تک مذہبی دہشت گردی کا تعلق ہے تو دنیا کے کسی بھی مذہب میں دہشت گردی
کی کوئی گنجائش نہیں۔ خاص طور پر اسلام میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جس نے
ایک شخص کی جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کرڈالا۔ اسلام تو دین
روشن ہے۔ یعنی برداشت اور تحمل کے اظہار کا دوسرا نام۔ اگر یہ دونوں کسی
بھی معاشرے میں ناپید ہوجائیں تو دہشت گردی اکا عفریت اسے نگلنے میں دیر
نہیں لگاتا۔پاکستان میں مذہبی عدم برداشت نے ہمیشہ خطرناک رخ اختیار کیا ۔
شیعہ سنی فسادات میں بہت سے معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔ آج کل بھی مذہب کے
نام پر دہشت گردی عروج پر ہے۔ طالبان اور القاعدہ مذہب کے نام پر پاکستان
میں دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہیں ۔ ایسی دہشت گرد تنظیموں نے اپنی مذموم
کارروائیوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان
میں تو ان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں میں ہزاروں معصوم افراد جاں بحق ہوچکے
ہیں۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے خود مذہبی مقامات پر حملے کئے
اور بہت سے عبادت میں محو بہت سے افراد کو قتل کرڈالا۔ پاکستان کے امن کو
خطرے میں ڈالنے والے یہ دہشت گرد مسلمان ہوسکتے ہیں نہ پاکستانی۔ دہشت گردی
کی ایک اور بڑی وجہ انصاف کی عدم فراہمی بھی ہے۔ غریب عوام زندگی بھر انصاف
کی تلاش میں عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ جب انہیں انصاف فراہم نہیں کیا
جاتا تو وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور انصاف کی عدم فراہمی کا بدلہ
معاشرے سے لیتے ہیں ۔
جہاں تک عالمی دہشت گردی کا سوال ہے تو اس سلسلے میں مغربی طاقتوں اور
امریکہ کی جانب سے مسلمانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔یہ حقیقت کہ عالمی سطح
پر دہشت گردی کے فروغ کا سب سے بڑا محرک سیاسی ناانصافی ہے۔ فلسطین اور
کشمیر کے علاوہ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضہ نے مسلمانوں میں امریکہ
اور یورپ کے خلاف نفرت کے ان جذبات کو دوچند کردیاہوا ہے۔برطانیہ نے
ناانصافی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور کشمیر کے مسائل کھڑے کرکے دنیا کے
امن وامان کو تہہ وبالا کردیا تھا۔عالمی سطح پر امن اور انصاف کے جھوٹے
دعوے داروں نے اس ناانصافی کے خاتمے میں کوئی کردار ادا نہ کیا اور مسلسل
چشم پوشی اختیار کئے رکھی۔اقوام متحدہ کی متعدد قرارد ادوں کے باوجود
امریکہ ‘برطانیہ ‘روس ‘ فرانس جیسے طاقتور اور بااثر ممالک خاموش تماشائی
بنے رہے۔اس عالمی بے حسی نے ان علاقوں کے پرسکون اور امن پسند آزادی کے
متوالوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا چنانچہ بوسنیاہرزوگوینا ‘ چیچنیا
اور افغانستان میں قابض فوجوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا جس کے نتیجے
میں امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ میں شدت آئی۔ روس کی افغانستان پر
چڑھائی کے بعد امریکہ نے اس خطے کے حریت پسندوں کے لئے نہ صرف تربیتی مراکز
قائم کئے بلکہ انہیں بھاری مقدار میں اسلحہ بھی فراہم کیا۔افغانستان میں
روس کی پسپائی کے بعد امریکہ نے افغانستان کے تمام معاملات سے فورا بے رخی
اختیار کرکے وہاں کے عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ جس کا نتیجہ خانہ جنگی
کی صورت میں برآمد ہوا۔بیرونی جارحیت کے خلاف ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا
ملا کر چلنے والے اقتدار کے نشے میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے۔وہی
اسلحہ جو چند سال قبل روسی یلغار کو روکنے کے لئے استعمال ہورہا تھا‘اب
اپنی ہی صفوں کو تباہ و بربادکرنے میں پھونکا جانے لگا۔ بعد ازاں طالبان
حکومت کے قیام کا موجب بھی یہی خانہ جنگی بنی۔اسی طرح بوسنیا ہرزوگوینا اور
چیچنیا میں مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ ان گنت انسانی جانوں
کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔مردوں اور جوانوں کو زندہ درگور کردیا گیا۔
عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور معصوم بچوں کی زندگیوں کو ذہنی و جسمانی روگ
کا مستقبل دیا گیا۔ خون مسلم کی ارزانی ایسے ہوئی کہ ہزاروں کی تعداد میں
مسلمانوں کو کف بربندوق رکھ دیا گیا اور آج دریافت ہونے والی اجتماعی قبریں
عالمی امن کے دعوے داروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت پیش کررہی ہیں۔
کشمیر یوں کی داستان غم بھی بوسنیا اور چیچنیا سے مختلف نہیں۔ اقوام متحدہ
کی متعدد قراردادوں کے باوجودبھارت روایتی ہٹ دھرمی اور مکاری سے کشمیریوں
کوان کا بنیادی حق خودارادیت دینے سے انکار کرتا رہا ہے ۔بھارتی حکومت نے
اپنی فوج کو وہاں انسانی جانوں سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور
گذشتہ چھ دہائیوں سے تحریک آزادی کو کچلنے میں مصروف ہے لیکن جتنا ظلم
وتشددبڑھتاہے ‘ اتنی ہی شدت سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اب
صورتحال یہ ہے کہ جدید ہتھیاروں‘ سازوسامان سے لیس سات لاکھ سے زائد بھارتی
فوج اپنی بے بسی اور لاچارگی کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہے ۔ مسئلہ
کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ
بناہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت نے اگرچہ امن مذاکرات کا عمل شروع کر رکھا ہے
لیکن مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے جتنے
اقدامات ہوئے ہیں ‘وہ بے کار دکھائی دیتے ہیں ۔ انصاف کا تقاضا تویہی تھا
کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے بھارت پر
دباؤڈالتی لیکن وہ اس سلسلے میں بالکل لاتعلق اور بے حس نظر آئی۔اسی طرح
مشرق وسطی میں مسئلہ فلسطین پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اسرائیل نے وہاں کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی پروا کئے بغیر ظلم وتشدد کا
بازار گرم کررکھا ہے۔جون1967ء میں اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کر کے وہاں
اپنی نوآبادیاں قائم کرنا شروع کردی تھیں۔ غزہ میں 21‘مغربی کنارے میں
121اور گولان کی پہاڑیوں میں 70یہودی بستیاں تعمیر کرکے لاکھوں یہودیوں کو
باہر سے لا کرآباد کیا۔اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد میں اسرائیل کو فلسطینی
علاقے خالی کرنے کا کہا تھا لیکن اس نے ان پر کان دھرنے کی بجائے مقبوضہ
علاقوں میں آبادکاری جاری رکھی۔اس طرز عمل پر فلسطینیوں نے اپنی تحریک
آزادی کو تیز کردیا۔ خودکش حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور دوسری
گوریلاکارروائیوں سے اسرائیل کو اپنی سلامتی خطرے میں نظر آنے لگی۔اس تناظر
میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی تنازعات کا حل نہ ہونا اور اس سلسلے میں
عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کے مشکوک اور غیر سنجیدہ کردار نیا میں
انتہاء پسندی کے جذبات ابھارنے کی ایک وجہ ہے۔امریکہ کے افغانستان اور عراق
پر قبضے نے اس نفرت کو دوچند کردیا ہے ۔لہذا اگر دنیا دہشت گردی کے مسئلے
کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے تو اسے مسلمانوں کے دیرینہ سیاسی مسائل حل کروانے
میں سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔ |