کراچی آپریشن :ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں ٹھن گئی

پاکستان کا معاشی مرکز کراچی بدامنی و بے سکونی کا استعارہ بن چکا ہے۔اس شہر بے اماں میں ہر طرح کے جرائم ہوتے ہیں۔روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے۔ہر آنے والا دن ان زخموں میں اضافہ اور آتش فشاں بننے کی نوید سناتا ہے۔ اس کی سوگوار فضائیںآہ و بکا اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں۔ پورے شہر میں خوف و ہراس کا سماں اور ہو کا عالم ہے، دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، بھتہ مافیا اور لینڈ مافیا کا راج ہے، دن دیہاڑے ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں بے شمار گھروں کے چراغ گل ہوچکے ہیں۔ کبھی کراچی کے نام سے روشنیوں، رونقوں اور رعنائیوں کا تصور انگڑائی لیتا تھا، آج کراچی کا نام سنتے ہی سفید چادروں میں لپٹی لاشوں، بین کرتی ماو ¿ں، بہنوں، شعلوں میں لپٹی گاڑیوں، بے ہنگم برستی گولیوں، سائرن بجاتی ایمبولینسوں کا منظر نگاہوں میں ابھرتا ہے۔ اس وقت صورتحال اس قدر ابتر اور ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ کراچی میں اس وقت مختلف مافیاﺅں کی غیر قانونی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے شہر پر قبضے کے رجحان نے بھی اس شہر کو بے اماں کیاہے۔ پھرمافیاﺅں کے کارندے سیاسی جماعتوں کی صفوں میں گھس کرشہر میں مسائل کو دوچند کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔کراچی کے شہری تو ایک عرصے سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ کراچی میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔چھوٹے سے چھوٹا تاجر بھی بھتا دینے پر مجبور ہے ۔اگر بھتا نہ دے تو قتل کردیا جاتا ہے۔قتل وغارتگری کا یہ حال ہے کہ بعض علاقے تو ایسے ہیں جہاں روز ہی ٹارگٹ کلنگ کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔صرف گزشتہ دس روز میں ایک سو سے زائد شہری اندھی گولیوں کو نشانہ بن چکے ہیں۔

کراچی کے حالات کے پیش نظر گزشتہ چند دن سے ایم کیو ایم کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ کررہی ہے ۔جبکہ صوبے میں حکمرانی کرنے والی پیپلزپارٹی اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں فوج کو بلانا کوئی بڑی سازش معلوم ہوتی ہے۔گزشتہ روزصدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں منتخب حکومتیں اپنا کام کر رہی ہیں ، منتخب ایوانوں کی موجودگی میں فوج بلانے کے مطالبے کا کوئی جواز نہیں ، صوبائی حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ کیلئے جرائم پیشہ عناصر کونشان عبرت بنائے،عوام کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔پیلزپارٹی کے رضا ربانی کا کہنا ہے کہ کراچی میں فوج آئی تو بنیادی حقوق معطل ہوجائیں گے۔پیپلزپارٹی کے بعض رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ کراچی میں آپریشن کے لیے نصیر اللہ بابر جیسی مضبوط شخصیت کی ضرورت ہے۔ کراچی کے حالات بہت بگڑ چکے ہیں، ان کو سمیٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کا ایک نکتے پر اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنا ضروری ہے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے بھی کہا ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے سے پہلے سوات، وزیرستان اور کوئٹہ میں ہونے والے فوجی آپریشن کی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کی جائے۔ فوج کو کراچی میں اتارا گیا تو پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا،کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ ایسے وقت کیا گیا ہے، جب دشمن ملک بھارت نے لائن آف کنٹرول پر غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے جو بڑھ بھی سکتی ہے۔جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ کراچی میں فوج کا بلانا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ حکومت عوام کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی عمل درآمد کیس کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے آئی جی سندھ اور چیف سیکرٹری کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناحق خون کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومت ہے، چیف جسٹس افتخار چودھری نے ریمارکس دیے کہ جب تک ادارے غیر جانبدار نہیں ہوں گے امن قائم نہیں ہوسکتا، کراچی پورٹ پر 19 ہزار کنٹینر غائب ہوئے ، یہ 19 ہزار کنٹینر افغانستان نہیں پہنچے، کنٹینروں میں موجود جدید ہتھیار کراچی، بلوچستان اور دیگر شہروں میں استعمال ہورہے ہیں، سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے کراچی کی صورتحال اور امن وامان سے متعلق تجاویز پر مشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کی۔جب ڈی آئی جی ساﺅتھ امیر شیخ سے پوچھ گچھ کئی گئی تو اس نے کہا ہے کہ میں اپنی ناکامی کا اظہار کرتا ہوں کیونکہ 1992ءآپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران و اہلکار چن چن کر مار دیے گئے۔ سنی تحریک، کچھی، بلوچ، متحدہ کے ملزمان پکڑتے ہیں تو مسلح افراد شہر جلانے لگتے ہیں، لیاری میں کرمنلز کے پیچھے جاتے ہیں تو بلوچ خواتین اور بچے سامنے آجاتے ہیں، اس وجہ سے پولیس افسران اور اہلکار خوفزدہ ہیں۔ ڈی آئی جی ساﺅتھ نے عدالت کو بتایا کہ اگر اصولوں پر کام کریں تو ٹرانسفر کردیا جاتا ہے، میری پوسٹنگ دیکھ لیں کہیں 2 ماہ اور کہیں 4 ماہ کام کرنے دیا گیا۔ میں اس صورت حال میں خود کہہ رہا ہوں کہ نتیجہ نہیں دے سکتا۔ ہمیں کرمنلز کے خاتمے کے لیے مدد چاہیے، پوسٹنگ اور ٹرانسفر میرٹ پر ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیے کہ آپ سمیت کسی پولیس افسر نے سپریم کورٹ کو کوئی لیٹر نہیں لکھا، کسی پولیس افسر نے نہیں لکھا کہ اسے کام کرنے کی بنیاد پر ہٹایا گیا، پولیس افسران حوصلہ دکھائیں، آپ بہادری سے کام کریں، اگر کوئی رکاوٹ ڈالے یا ہٹائے تو عدالت کو بتائیں، آئی جی صاحب! آپ کچھ نہیں کرسکتے تو بتا دیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈروں پر مشتمل کمیٹی بنانے کی تجویزدے دی ہے، چودھری نثار کا کہنا ہے کراچی میں فوج بلانا سندھ حکومت کے ساتھ زیادتی ہوگا، پورے کراچی میں آپریشن کی ضرورت نہیں، ٹارگٹڈ کارروائی کی جائے گی۔ بھتا خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز ٹارگٹڈ آپریشن کی ضرورت ہے، آپریشن کی سربراہی وزیراعلیٰ سندھ ہی کریں گے۔ وفاقی حکومت اور تمام سول آرمڈ فورسز اور خفیہ ادارے ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔عوامی نیشنل پارٹی نے کہا کراچی میں کسی مخصوص گروپ کے خلاف نہیں بھتا خوروں کے خلاف بلاتفریق آپریشن ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ کراچی کی صورتحال پر وزیر داخلہ کی بریفنگ خوش آیند ہے۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے رکن اسمبلی اکرم درانی نے کہا جمعیت علماءاسلام (ف) کراچی میں جرائم پیشہ افراد اور بھتا خوروں کے خلاف آپریشن کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ شاہ گل آفریدی نے کہا کہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی اس کے بغیر کراچی میں کامیابی نہیں ہوسکتی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ کراچی میں بلوچ‘ پختون‘ سندھی اور پنجابی آباد ہیں‘ کوئی مخصوص گروپ نہیں ہے۔ سب سے پہلے بھتا خوروں کے گروپ کے خلاف آپریشن کریں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے آپریشن کی بات ہونے سے پہلے ہی صوبائی حکومت نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کردیا تھا جس میں سو کے قریب ایم کیو ایم کے کارکنان اور ستر کے لگ بھگ اے این پی کے کارکنان شامل تھے۔جس پر ایم کیو ایم اور اے این پی نے بھرپور احتجاج کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں پر حکومت سندھ کے خلاف علامتی واک آﺅٹ کیا۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ گزشتہ رات حکومت سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم اور اہلیان کراچی کے ساتھ متعصبانہ اور بدترین سلوک کیا گیا۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی گئی ہے ہم نے فوج کا مطالبہ تحفظ کے لیے کیا تھا۔ ہمارے جن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ان کے خلاف ماضی میں کوئی ایف آئی آر نہیں، ہمارے آئینی حقوق مانگنے کو جمہوریت کے منہ پر طمانچا قراردیا تو جو انتقامی کارروائیاں ہمارے کارکنوں کے خلاف ہو رہی ہیں یہ جمہویت کے منہ پر گھونسے کے مترادف ہیں۔متحدہ کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ اگر 1990ءکی دہائی کی سیاست کو دہرایا گیا تو پاکستان کی سیاست کے لیے برا ہو گا۔ ایم کیو ایم کا حزب اختلاف کا کردار ہضم نہیں ہو رہا۔ سندھ حکومت کو تعمیراتی اپوزیشن برداشت نہیں۔ سندھ میں حکومتی طرز عمل آمرانہ ہے۔ نمائشی جمہوریت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایک طرف صوبائی حکومت ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم کا پرزور مطالبہ ہے کہ کراچی میں فوج بلائی جائے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.