دنیا میں مسلمانوں پر جس وحشت وبربریت کا مظاہرہ کیا جا
رہا ہے،اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ، شام میں کیمیائی ہتھیاروں سے سنی عوام کو
ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بیدردی سے
شہید کیا جا رہا ہے ،پورے پورے خاندان کو موت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے،
سیکڑوں بچوں کو یتیم کیا جا رہا ہے ،عورتوں پر بھی سر عام تشدد کیا جا رہا
ہے ،امن وسلامتی کے دعوے داروں کے لبوں پر پر اسرار چپ سی لگ گی ہے،شہروں
کے شہر نیست ونابود کیے جا رہے ہیں کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی،ان
امن کے ٹھیکداروں نے مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ امتیاز ی سلوک رکھا ہے،ایک
سازش کے تحت مسلمانوں پر ظلم وستم کا بازار گرم کیا جا رہا ہے،شام میں شیعہ
سنی جنگ پاکستان پہنچائی جا رہی ہے جس کی مثال بھکر اور کراچی میں حال ہی
میں دیکھی گی،شام اور مصر کے بعد یہ جنگ مکمل پلان کے ساتھ پاکستان میں
دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے، جہاں جہاں مسلمان ہیں انکو کسی نہ کسی طرح
تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،اب شیعہ سنی کے نام پر اس جنگ کو ہوا دینے
کی کوشش کی جا رہی ہے،غیروں کی جنگ میں پڑ کر جو کچھ ہم نے گنوایا ہے شاید
دشمن کی نظر میں وہ کم ہے، نائن الیون میں بش نے جو صلیبی جنگ کا تذکرہ کیا
تھا اس جنگ کا آغاز تو اسی دن سے ہی شروع ہو گیاتھا،اب تو دشمن نے منافقت
کی چادر بھی اتار کے رکھ دی ہے ، اب کھل کر سامنے آگیا ہے، پرویز مشرف کی
مسلط کی گی جنگ نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،آپس میں اعتما د ختم
ہوتا جا رہا ہے،ہمیں اس جنگ سے نکلنا ہو گا،ان سازشوں کا ادراک بروقت کرنا
ہو گا،ابھی حال ہی میں وزیر اعظم کا بیان خوش آئندہ ہے کہ طالبان سے
مذاکرات کرنا چاہیے،یہی واحد حل ہے یہ ہمیں بہت پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا
،لیکن دیر آیددرست آید ، پاکستان میں امن امان کی صورت حال پہلے ہی بہت
خراب ہے، اب مزید ہم کسی واقعے کے متحمل نہیں ہو سکتے،اب شام اور مصر کے
بعد سب کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں،ہمیں مذہبی طور پر معتدل سوچ
رکھنا ہو گی ،مذہبی دل آزاری سے اجتناب کرنا ہو گا، ایک دوسرے کے مذہبی
جذبات کی قدر کرنا ہو گی،دشمن ہماری تمام حرکات کو نوٹ کر رہا ہے، آپ نے
دیکھا کہ جس انداز میں بھکر کا واقعہ رونما ہوا اس کے فورا بعد کراچی میں
مذہبی لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ،دشمن کسی واقعے کی انتظار میں تھا جس کا اس
نے کراچی میں بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی،اور اگے بھی اس سے فائدہ
اٹھایا جا سکتا ہے،ہمیں چاروں طرف دھیان رکھنا ہو گا،ایسے قانوں بنانا ہوں
گے کہ جس سے کوئی مسلکی دل آزاری نہ کر سکے،ورنہ پھر تھوڑی سی حرکت کا دشمن
نے بھر پور فائدہ اٹھانا ہے،اور ہم اس جنگ کے قطعا متحمل نہیں ہو سکتے ،بہت
نقصان برداشت کر لیا گیا ہے،اس سلسلے میں جہاں حکومت کو موثر قانون بنانے
کی ضرورت ہے وہاں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری علمائے کرام پر بھی عائد ہوتی ہے،
ان کو صبر وتحمل کا درس دینا چاہیے اور اپنے اپنے حلقوں میں اتحاد واتفاق
پیدا کریں اور دشمن کی طرف نظر رکھیں،کسی ایسے واقعے کا حصہ مت بنیں جو ملک
اور اسلام کے خلاف ہو،ہم سب کو اس کی کوشش کرنا ہو گی تب جا کر یہ مسائل حل
ہونگے۔ |