دہشت گردی کی جنگ نے میدان جنگ کی تمام جہتوں کو یکسر
تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک روایتی میدان جنگ جہاں دو یازیادہ سے اتحادی
ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں اور بڑے چھوٹے ہتھیار استعمال کرتے
ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ اس سے یکسر مختلف ہے جس میں دوست دشمن مبہم
ہوتے ہیں۔ اس جنگ میں کوئی سرحدہ نہیں ہوتی بلکہ اس نے پوری دنیا کو میدان
جنگ کا روپ دے رکھا ہے اوریہ اس وقت دنیا کے کونے کونے میں اپنی تمام تر
حشر سامانیوں کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ کا سب سے سفاک پہلو یہ ہے کہ یہ
کسی کی تمیز نہیں کرتا اور چھوٹے بڑے معصوم اور مسلح ہر کوئی اس کے نشانے
پر ہے۔ اس میں مرنے والے فرد کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس جرم کی سزا
دی گئی اور مارنے والے کو واضح نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہاتھ عام اور معصوم
شہریوں کے خون سے کیوں رنگ رہا ہے۔ دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں کو بے
خوف ہوکرعملی جامہ پہناتا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس کے سامنے سیکورٹی ادارے بے
بس ہوجاتے ہیں۔ ان کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور دہشت گرد
دیدہ دلیری سے اپنی مذموم کارروائیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب
ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں اعلیٰ سول اور فوجی افسر بھی نشانہ بنے
اور جدید ہتھیاروں اور بہت سے دفاعی حصاروں کے باوجود دہشت گرد اس لئے
کامیاب ہوگئے کہ وہ مرنے کے لئے آئے تھے اوراس چیز کے سامنے کوئی ہتھیار،
کوئی ایکشن اور تمام حفاظتی انتظامات بے کار سے نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کے
باوجود کہ دہشت گردی کی جنگ عالمی ہے، بدقسمتی سے اس وقت پاکستان اس کا
مرکز بنا ہوا ہے اور اسے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دہشت گرداپنی
اس غیر روایتی جنگ میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ ہماری بہت سی خامیوں
سے دہشت گردفائدہ اٹھا رہے ہیں اورافواج پاکستان کی بہت سی کوششوں کے
باوجود یہ عفریت پھن پھیلائے کھڑا ہے اور اس کی سرکوبی کا مرحلہ انتہائی
دانش مندی، منصوبہ بندی اور ٹھوس کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔
دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کی جڑیں بین الاقوامی ہیں اور مختلف ممالک کے
عناصر ان میں موجود ہیں۔ ان تنظیموں کے مختلف مقاصد اور عزائم ہیں۔ پاکستان
میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی نوعیت اورمقاصد جاننے کے لئے چند سوالات کے
جوابات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے اس کے بعد ہی تعین کیا جاسکتا ہے کہ
انہیں کیسے نمٹا جائے۔ ان سے مذاکرات کئے جائیں یا انہیں سختی سے کچلنے کی
حکمت عملی اپنائی جائے۔ سوالات یہ ہیں کہ ان دہشت گردوں کے حتمی مقاصد کیا
ہیں․․․ کیا وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی جائز راستہ بھی اختیار
کرسکتے ہیں؟ انہیں دہشت گرد بنانے کا ذمہ داری کون ہے؟ان دہشت گردتنظیموں
کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی کیا ہے․․․کون ان کو مالی امداد فراہم کررہا
ہے اور یہ کس سماجی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی اخلاقیات کی پیروی کررہے
ہیں؟
ان سوالات کے جوابات پر سیکڑوں صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں۔ ان پر تحقیق
ایسی بھول بھلیوں کی مانند ہے جس میں صرف کھویا جاسکتا ہے، حاصل کچھ نہیں
کیا جاسکتا۔ کسی جگہ پہنچا تو جاسکتا ہے مگر واپسی کا راستہ اختیار نہیں
کیا جاسکتا۔ جتنا دماغ پر زوردیا جائے اتنی کنفیوژن جنم لے گی اور اپنے
پرائے سبھی سازش بننے میں مصروف نظر آئیں گے۔ پاکستان بھی کچھ اسی قسم کی
صورتحال کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کو لے کر یہاں ہر کسی فرد اور تنظیم کے
مختلف خیالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کوئی ان کی شدید مذمت کرتا ہے تو کوئی ان
کی حمایت میں بچھا بچھا جاتا ہے۔ اسی طرح ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوسکا
کہ حکومت کی جانب سے اس کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں گے۔ یہ
معاملہ بھی مخمصے کا شکار ہے کہ ہمارے پاس اس عفریت سے نمٹنے کے لئے ابھی
تک کوئی ٹھوس اور حتمی سٹریٹجی نہیں ہے۔ حکومتی اور عسکری سطح پر بھی مختلف
رائے پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن اور دیگر پارٹیاں بھی اس حوالے سے
بھانت بھانت کی بولیاں بولتی ہیں۔ پاکستان کے عوام اس حوالے سے کافی
کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ اسی طرح ہمیں اپنی ناکامی کی وجوہات اور کب تک
پاکستان کے عوام اس عفریت کے بھینٹ چڑھتے رہے گے کے بارے میں کچھ معلوم
نہیں۔ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے دوران ضروری ہے کہ مقاصد، ذرائع
اور متوقع نتائج پر گہری نظر رکھی جائے۔ اب تک ہمیں اس سلسلے میں جو
ناکامیاں دیکھنی پڑی ہیں ان کی وجوہات کے بارے میں متعلقہ اداروں کو یقینا
فکر مند ہونا چاہے اور انہیں فوری طور پر اپنی خامیوں، کمزوریوں کی نشاندہی
کرکے ان کی اصلاح احوال کرنی چاہئے کیونکہ دہشت گرد ہماری سالمیت کو نگلنے
لینا چاہتے ہیں۔
گزشتہ دس سال کے دوران ہم نے اس حوالے سے جو بھی اقدامات کئے وہ حفاظتی
حصار کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ تنصیبات کا دفاعی حصار مضبوط کردیا گیا،
سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں، خطرناک حملے کے بعد کچھ دہشت گردوں کو
پکڑا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے اقدامات سے ہماری دفاعی حکمت عملی واضح
ہوتی ہے۔ اس سے ایک چیز توطے ہے کہ کارروائی میں پہل کاری اورجگہ اور وقت
کا انتخاب دہشت گردوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے حملہ
کریں اور سیکورٹی ادارے اس کا دفاع کریں یہ معمول ہم گزشتہ ایک دہائی سے
دیکھ رہے ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کو
بوتل میں بند کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔ سب سے پہلے
ریاست کی رٹ کو چیلنج اور بغاوت کرنے والوں کے خلاف کاؤنٹر آپریشن کیا
جائے۔ اس کے بعد ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو باہرسے پاکستان
میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف خلاف جارحانہ کارروائی کی حکمت
اپنائی جائے اور پہل کاری کا عنصر مدنظر رکھا جائے۔ وہ دنیا میں جہاں کہیں
بھی موجود ہیں انہیں قابو کیا جائے اور تیسرا یہ کہ دہشت گردی سے متاثر
ہونے والے افراد کی داد رسی کی جائے ان کے دل ودماغ جیتنے کے لئے تمام
وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اس طرح دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے ایسی
سیاسی و فوجی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں ڈپلومیسی اورمذاکرات کا پہلو
بھی شامل ہو اور طاقت کے مسلسل جارحانہ استعمال کا عنصر بھی موجود ہو۔ اس
حکمت عملی پر اس طرح عملد آمد کیا جائے کہ یہ دہشت گردوں کے دلوں میں خوف
اور دہشت طاری کردے اور ان سے پہل کاری کا عنصر چھین لے اور انہیں ریاست کی
رٹ تسلیم کرنے کے لئے مذاکرات پر آنے پر مجبور کردے۔اس حوالے سے ڈپلومیسی
اور مذاکرات کے دوران قومی مفادات کو مدنظر رکھا جائے ۔ یہ حکمت عملی تمام
ریاستی اداروں کے مابین تعاون اور ہم آہنگی اور اس عفریت سے نجات پانے کے
لئے بھرپور عزم کا تقاضا کرتی ہے اور یہی اس کے خاتمے کی سب سے بڑی کنجی
ہے۔ |