ایک کوا روٹی کا ٹکڑا اپنی چونچ میں لیے ہوئے ایک درخت کی
ٹہنی پر بیٹھا تھا۔ ایک لومٹری کا گزر ادھر سے ہوا۔ منہ میں پانی بھر آیا (
لو مڑی نے ) سو چا کہ کوئی ترکیب کی جائے کہ یہ اپنی چونچ کھو ل دے اور
روٹی کا ٹکڑا میں جھپٹ لوں۔ اس نے مسکین صورت بنا کر اورمنہ اوپر اٹھا کر
کہا : ” کوے میا ں ! سلام۔ تیرے حسن کی کیا تعریف کرو ں ، کچھ کہتے ہوئے جی
ڈرتا ہے۔ واہ واہ ، چو نچ بھی کا لی ، پر بھی کا لے آج کل تو دنیا میں
مستقبل کالو ں ہی کے ہا تھ میں ہے۔ افر یقہ میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی
ہے ، لیکن خیر یہ سیاست کی با تیں ہیں۔ میں نے تیرے گانے کی تعریف سنی
ہے۔تو اتنا خوب صور ت ہے تو گا نا بھی اچھا گا تا ہو گا۔ مجھے گانا سننے کا
شوق یہا ں کھینچ لایا ہے ، ہا ں تو ایک آدھ بول ہو جائے۔ “ کوا پھو لا نہ
سمایا ، لیکن کوے نے سیا نے پن سے کا م لیا۔ روٹی کا ٹکڑا منہ سے نکال کر
پنجے میں تھاما اور لگا کائیں کائیں کرنے۔ بی لومڑی کا کام نہ بنا تو یہ
کہتی ہو ئے چل دی : ”ہٹ تیرے کی بے سرا بھانڈ۔ معلوم ہوتا ہے تونے بھی حکا
یا تِ لقمان پڑھ رکھی ہے۔ “ |