مصری جرنیل نے جبرواستبداد میں ایک ’’منفرد ریکارڈ ‘‘قائم
کر دیا *** مصر کے جنرل عبدالفتح السیسی بہت جلدی میں تھے۔ دراصل ان کی
دیرینہ تمنا تھی کہ وہ بھی ان ’’عظیم‘‘ جرنیلوں کی صف میں شامل ہوجائیں
جنہوں نے جمہوریت کا گلا گھونٹ ڈالا…جنہوں نے عوام کے ووٹوں پہ ٹینکوں
وبکتربند گاڑیوں سے بنا روڈ رولر پھیر دیا۔ ان عظیم جرنیلوں کی فہرست خاصی
طویل ہے، پڑھتے جائیے، سردُھنتے جائیے۔ یہ 1952ء کی بات ہے جب مصری جرنیلوں
نے اپنا ہی ملک فتح کیا۔ حالیہ 23جولائی کو اس فتح کی اکسٹھویں سالگرہ
منائی گئی۔تب مصری بادشاہ استعماری مغربی طاقتوں کا پٹھو بن چکا تھا،اسی
لیے سو فیصد عوام نے جرنیلوں کا خیر مقدم کیا۔مگر پچھلے اکسٹھ برسوں میں
مصری فوج نے ملک پہ اپنا اقتدار و تسلط اتنا مستحکم کرلیا کہ اب وہ اسے
چھوڑنے کو تیار نہیں۔ممکن ہے، صحرائوں کے باسی شیراب مرغ وماہی کھانے کے
عادی ہوچکے اور ان گنت مادی لذتوں سے ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ۔ یہ غلبہ
برقرار رکھنے کی خاطر مصر کو آگ اور خون کے سمندر میں بھی دھکیلنا پڑے، تو
مصری جرنیل پروا نہیں کرتے۔ ان اکسٹھ برسوں میں اخوان المسلمون مصری فوج کا
خاص نشانہ رہی۔ جنرلوں نے اخوانیوں پر اتنے زیادہ حملے کیے کہ ویسے
اسرائیلیوں پر بھی نہیں ہوئے۔ اس باعث یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ مصری
فوج نے ایک سال تک صدر محمد مرسی کا اقتدار کیونکر برداشت کیا؟ بہرحال
دوبارہ حکومت سنبھال کر جرنیلوں نے جو ’’کارنامے ‘‘ انجام دیئے، وہ ان کے
دکھ، کرب وغصیّ کی شدت عیاں کرتے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ جنرل السیسی
تاریخ میں اپنا نام ’’سنہرے‘‘ حروف سے درج کراچکے ۔ بلکہ انہوں نے کم سے کم
وقت میں انسانی لاشیں گرانے میں عصر حاضر کے معروف خونخوار آمروں کو بھی
پیچھے چھوڑ دیا۔ چلّی کے سابق آمر، جنرل آگستو پنوشے ہی کو لیجیے۔ جنرل
السیسی اور جنرل پنوشے کا موازنہ بڑے ’’دلچسپ ‘‘ حقائق سامنے لاتا ہے جسے
حساس دل والے شاید دلدوز قرار دیں۔ مزے کی بات یہ کہ جنرل پنوشے اور دیگر
چلیئن جرنیل شروع میں اقتدار سنبھالنے کو تیار نہ تھے۔ مگر عالمی امن کی
ٹھیکے دار امریکی حکومت کو تو کسی پل قرار نہ تھا۔ وہ یہ دیکھ کرتڑپ رہی
تھی کہ لاطینی امریکہ میں پہلی بار عوامی ووٹوں نے ایک سوشلسٹ رہنما،ڈاکٹر
سلوادور الیندے کو صدر بنوا دیا ۔ ’’حسب روایت‘‘ امریکی حکومت کو عوام کا
یہ فیصلہ بالکل پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اپنی شاندار روایات پہ عمل کرتے ہوئے
امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر تن من دھن سے الیندے حکومت گرانے پہ کمر بستہ
ہو گئے۔ یہ امر ریکارڈ پہ ہے کہ انہوں نے چلیئن جرنیلوں کو 10لاکھ ڈالر
بطور رشوت دیئے اور وہ امریکی میزائل بھی جن سے قصرِ صدارت کو نشانہ بنایا
گیا۔ یوں امریکی حکومت کی آشیر باد سے چلیئن جرنیلوں نے اپنے ملک میں 48
برس سے چلی آرہی جمہوریت کی گردن پہ چھری پھیر دی۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ جنرل
پنوشے اپنے دور حکومت (1973ء تا 1990ء ) میں عوام پر خاصا ’’مہربان‘‘ رہا۔
اس نے تین ہزار سے زائد انسانوں کو قید حیات کی ’’سختیوں ‘‘ سے آزاد کیا۔
2279 مرد و زن کوئی نام ونشان چھوڑے بغیر ہی غائب ہوگئے۔ 31ہزار سے زائد
افراد کی ایسی ’خاطر مدارت ‘‘ ہوئی کہ وہ عمر بھر کے لیے معذور ہوئے۔ دوسری
سمت مصری فوج تو اقتدار سنبھالنے کو تُلی بیٹھی تھی، امریکی حکومت کو خاص
پاپڑ نہیں بیلنے پڑے۔ ویسے بھی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے امریکہ مصری
جرنیلوں کو 66ارب ڈالر کی خطیررقم کھلا چکا۔ اب یہ احسان اتارنے کا وقت بھی
آپہنچا تھا۔ چنانچہ جنرل السیسی جوش وجذبہ دکھانے میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔
انہوں نے اقتدار کے پہلے ہی ماہ کم ازکم ایک ہزار مصری مردوزن مارکر نہ صرف
جنرل پنوشے کا ریکارڈ توڑا بلکہ نیا قائم کردیا۔ راقم کے ایک دوست کا خیال
ہے، اگرکرنل ناصر کے زمانے سے اب تک حساب لگایا جائے، تو مصری جرنیلوں نے
اتنے زیادہ عام مصریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا کہ ان کی گنتی کرنا ممکن
نہیں رہا۔ صدر الیندے اور صدر مرسی، دونوں اس لحاظ سے بدقسمت رہے کہ انہوں
نے جن جرنیلوں کو فوج کی باگ ڈور سونپی، بعدازاں وہی آستین کا سانپ ثابت
ہوئے۔ تاہم چلّی اور مصر میں ایک بڑا فرق بھی موجود ہے ۔چلّی میں فوجی
حکومت آنے کے بعدہر لبرل، لیفٹسٹ، رائٹسٹ، کالا ،گورا کوشش کرتا رہا کہ
آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت کا بول بالا ہو جائے۔ آخر چلیئن عوام کو فتح
نصیب ہوئی۔ بعد ازاں یکے بعد دیگرے عوامی حکومتیں آنے کی وجہ ہی سے آج چلّی
خوشحال اور ترقی یافتہ ملک شمار ہوتا ہے۔ لیکن مصر میں جب جنرل السیسی کے
ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں سڑکوں پر نکلیں، تو ان پہ خوشی سے شایانے بجاتے
لیفٹسٹ، لبرل اور سیکولر سوارتھے۔ آمریت کی پشت پناہی کرنے والے مصریوں کی
موجودگی میں کیا اس اسلامی مملکت میں جمہوریت راج کرسکتی ہے ؟ اس سوال کا
جواب آپ اپنے ضمیر سے دریافت کیجیے۔ مصر ہی نہیں کئی اسلامی ممالک کے حالات
دیکھ کر اسرائیلی حکومت تو خوشی سے نہال ہے۔ اس کا دل مسّرت سے بلّیوں اچھل
رہا ہے کہ کسی مسلم ملک میں سیکورٹی ادارے اپنے ہی بھائیوں سے برسرپیکار
ہیں تو کہیں مسلمان گروہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔دوسری سمت اسرائیلی اپنی
مملکت کو زیادہ سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کی خاطر علمی،معاشی ،معاشرتی
غرض ہر سطح پہ تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔ |