خود بھی روشن، دوسرے بھی روشن

راجو بے انتہا خوش تھا، اس نے باہر جاکر تمام بچوں کو فخریہ بتایا کہ آج ہمیں چندا ماموں نے چاند نگر سے روٹیاں بھیجی تھیں لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ الٹا اس کا مذاق اڑانے لگے جس کی وجہ سے راجو کی کئی لڑکوں سے لڑائی بھی ہوگئی۔

”اماں چندا ماموں کتنے پیارے لگتے ہیں، ہیں ناں؟“ راجو نے سیاہ آسمان پر چمکتے تاروں کے جھرمٹ میں روشن چودھویں کے چاند کو دلچسپی سے تکتے ہوئے کہا تو اس کی ماں نے پیار سے راجو کے سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔”ماں! ماں! مجھ کو چاند بہت اچھا لگتا ہے، مجھے یہ دلا دو، میں اس سے کھیلوں گا اور باتیں بھی کروں گا۔“

راجو تیری ضد بڑھتی جارہی ہے، کبھی تجھے اچھے کپڑے چاہیے، کبھی اچھا گھر، کبھی کھلونے اور آج تو مجھ سے چاند مانگ رہا ہے، پاگل ہوگیا ہے؟“راجو ماں کے اس طرح ڈانٹنے پر بالکل اداس نہ ہوا، وہ جانتا تھا جب سے بابا کا انتقال ہوا ہے تب سے ماں اسی طرح اکثر اس پر غصہ کرنے لگی ہے۔

راجو کو تیسری جماعت سے سکول بھی چھوڑنا پڑا تھا، کیونکہ اب اس کے ابو دنیا میں نہیں رہے تھے، لہٰذا اب گھر میں رہ کر وہ اپنے الٹے سیدھے سوالات کرکے ماں سے جھڑکیاں کھاتا رہتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ماں کی ڈانٹ سننے کے بعد پھر چندا ماموں کے سحر میں کھوگیا۔”ماں! چندا ماموں بالکل گول ہیں جیسے سکہ اور ایسے جیسے روٹی۔“ اب راجو کی نظریں چاند پر سے ہٹ کر اپنی ماں پر ٹک گئی تھیں۔”ماں! مجھے روٹی چاہیے، بہت بھوک لگ رہی ہے“ اس کے لہجے میں ایک دم نقاہت اتر آئی اور اس کی ماں کی آنکھوں میں بے بسی۔ کوئی نہیں جانتا تھاکہ یہ دونوں ماں بیٹے آج پھر فاقے سے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی جب راجو کو ماں پیار سے نہ بھلا پائی تو مجبوراً ماں کو اس پر ہاتھ اٹھانا پڑا۔ کچھ دیر بعد راجو روتے روتے سوچکا تھا۔ اس کے بعد ماں نے راجو کے معصوم وجود کو خود سے لپیٹ لیا اور اپنی آنکھوں میں چھپے آنسوﺅں کو پونچھ کر خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

اتفاق سے آج جب یہ دونوں ماں بیٹے صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹے باتیں کررہے تھے تو گھر کے سامنے سے گزرنے والے ایک نیک آدمی نے ان کی باتیں سن لیں۔ تمام حالات کا اندازہ ہوتے ہی اس نے دل میں ان کی مدد کرنے کی ٹھان لی، دوسرے روز صبح جب راجو اور اس کی ماں کی آنکھ کھلی تو صحن میں چند میٹھی روٹیاں پڑی ملیں جن پر لکھا تھا”چاند نگر“

راجو بڑی حیرت اور خوشی سے چلایا: ”ماں دیکھو! ماموں نے ہمیں چاند نگر سے روٹیاں بھیجی ہیں۔“ ماں کا بھی حیرت سے برا حال تھا، لیکن چونکہ یہ دونوں کل سے بھوکے تھے اور روٹی دیکھ کر ان کی بھوک مزید چمک اٹھی تھی، لہٰذا انہوں نے جلدی جلدی مزے سے روٹی کھا لی۔ راجو بے انتہا خوش تھا، اس نے باہر جاکر تمام بچوں کو فخریہ یہ واقعہ سنایا کہ آج ہمیں چندا ماموں نے چاند نگر سے روٹیاں بھیجی تھیں لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ الٹا اس کا مذاق اڑانے لگے جس کی وجہ سے راجو کی کئی لڑکوں سے لڑائی بھی ہوگئی اور وہ جلد ہی گھر واپس آگیا۔ اب اسے شدت سے رات ہونے کا انتظار تھا تاکہ جلدی سے وہ اپنے چندا ماموں کا شکریہ ادا کرسکے۔

اس دن کے بعد سے راجو نے ماں سے فرمائشیں کرنا چھوڑ دیں بلکہ اب وہ اپنی تمام فرمائشیں چندا ماموں سے کرتا تھا، کیونکہ چندا ماموں اس کی تمام فرمائشیں پوری ضرور کرتے تھے، اب چاند نگر سے راجو کیلئے روٹیوں کے ساتھ ساتھ اچھے کپڑے، جوتے، کھلونے اور رنگ برنگی کتابیں بھی آنے لگی تھیں۔ اب کبھی انہیں بھوکا نہیں سونا پڑتا تھا۔ گویا چندا ماموں نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔ ایک چندا ماموں نے چاند نگر سے رقعہ لکھ کر بھیجا جس میں راجو کو تاکید کی گئی تھی کہ اب وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردے کیونکہ چندا ماموں کو سکول جانے والے، محنت سے پڑھنے لکھنے والے بچے پسند ہیں، ساتھ ہی اس کام کیلئے ایک معقول رقم بھی لفافے میں تھی۔ ماں نے اسی دن راجو کو ایک اچھے سکول میں داخل کرادیا، کیونکہ راجو کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اب جب چندا ماموں نے اسے دل لگا کر پڑھنے کی تاکید کی تھی تب سے اس کا ذوق شوق کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ بہترین نمبروں سے پاس ہوتا اور چندا ماموں خوش ہوکر اسے اور بھی تحفوں سے نوازتے۔

دیکھتے دیکھتے راجو کامیابیوں کی سیڑھیاں طے کرتا ہوا میڈیکل کالج میں پہنچ گیا۔ جس دن وہ ڈاکٹر بنا، اس روز وہ بیک وقت انتہائی خوش بھی تھا اور اداس بھی۔ خوشی ڈاکٹر بن جانے کی تھی وہ جانتا تھا کہ اب بھی مزید کئی کامیابیاں اس کی منتظر ہیں اور اداس اس لیے کہ وہ اب تک اس نیک انسان کو نہیں دیکھ سکا جس نے چندا ماموں کے نام سے اس کی مدد کرکے زندگی بنائی تھی اور آج ہی اسے چندا ماموں کا آخری خط موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا: ”راجو بیٹا! یہ میرا آخری خط سمجھو، کیونکہ اب تمہیں اپنے چندا ماموں کی ”چاندنی“ کی کوئی ضرورت نہیں رہی، اب تم صرف راجو نہیں رہے بلکہ دھرتی کے آسمان پر چمکنے والا ستارہ بن گئے ہو۔ ایک نیا اور روشن ستارہ۔ راجو! تمہارے لیے تمہارے چندا ماموں کا ایک پیغام ہے اگر ہوسکے تو کوشش کرنا کہ تم بھی زمین کے کسی ذرے کو ستارہ بناسکو۔ اس حقیر ذریعے کو، جسے دنیا بغیر دیکھے روندتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے، مگر جب تم اسے اپنے ہی جیسا ستارہ بنادو گے تو یہی دنیا سر اٹھا کر اسے دیکھنے پر مجبور ہوجائے گی۔ یقینا تم دیکھو گے کہ ایسا کرنے سے تمہاری روشنی اور جگمگاہٹ میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔“

abdul razzaq wahidi
About the Author: abdul razzaq wahidi Read More Articles by abdul razzaq wahidi: 52 Articles with 86993 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.