موسمِ برسات میں جس طرح کیڑے مکورے جابجانظرآتے
ہیں،جھینگروں،اورمینڈکوں کی مہیب آوازیں لوگوں کے دل و دماغ پرجس طرح
اثراندازہوتی ہیں اسی طرح ہمارے یہاں کاانتخابی موسم میں بھی بھانت بھانت (طرح
طرح) کے لیڈران نمودار ہوتے ہیں اورعوام کاچین وسکون اپنے قبیح نظریات
وخیالات،پُر فریب نعروں اوردلکش وعدوں کی نذرکر دیتے ہیں اورپھرانتخابات کے
ختم ہوتے ہی اسی طرح غائب ہوجاتے ہیں جس طرح موسمِ برسات کے بعدبرساتی
کیڑے۔لیکن ان میں اورہمارے لیڈروں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ برساتی کیڑے
اپنی فطری ضرورت پوری کرکے رخصت ہوجاتے ہیں اوراس وقت تک روپوش رہتے ہیں جب
تک کہ ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے ان کی فطرت کے مطابق آب و ہوا
اورموسم میں تبدیلی نہیں آجاتی۔مگرہمارے لیڈر احباب کی حیات اورافزائش نسل
کادار و مدارذرامختلف ہے یہ ان ذی روح چیزوں کی طرح فطری ضروریات تک ہی
محدودنہیں ہیں بلکہ ان کی فطرت انسان وحیوان کاملغوبہ ہے جب الیکشن ہو جائے
اوروہ پردۂ سیمیں سے غائب ہوں توشیطان بھی شرمایاشرمایانظرآتاہے۔یہ کسی
موسم کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ اپنی غرض،اپنی خواہشات اورہوسِ اقتدارکی
تکمیل کے لئے انسانیت کے بدن کالباس تار تارکرڈالنے میں نہیں چُوکتے۔اس کی
تازہ مثال عوام پرپیٹرول،ڈیزل،مٹی کا تیل،اوردیگرسامان پرہوشربااضافہ ہے۔یہ
اضافہ نہ صرف عوام کے کپڑے اُتارنے کے مترادف ہے بلکہ یہ عمل انہیں سرِ
بازار ننگااوررُسواکرنے کے زمرے میں آتاہے۔اورپھراپنی ہزاررنگی سیاسی
پیراہن کے ذریعے عوام کے دل ودماغ،بصارت وسماعت سبھی کچھ تاراج کردیتے
ہیں۔جس طرح آج بساطِ عالم میں شطرنج بنی ہوئی ہے،وہی حال ہمارے ملک کابھی
ہے ۔انتخابات کے موسم میں سیاسی پرندوں کی چہچہاہٹ سے عوام کے کان پکنے
لگتے ہیں بالکل اُسی طرح انتخابات کے بعد یہ چہچہاہٹ عوام کے لئے سنسناہٹ
میں تبدیل ہوجاتاہے۔اوریہ بات لوگوں کی سمجھ سے بالاترہے کہ یہ آیاموسمِ
خزاں ہے یاموسمِ بہار!شاطر کھلاڑی اپنے اپنے مہرے پوری بساطِ سیاست
پرپھیلاتے جاتے ہیں اورہرمہرہ اپنااپناکرداراداکررہاہوتا ہے اوراپنی اپنی
چال چل رہاہوتاہے۔
ہمارے پیارے لیڈران نے اقتدارکے لئے جس موسم کااختراع کیاتھااسے عرفِ عام
میں انتخابی موسم کہتے ہیں جوبڑی دلچسپ اورپُر فریب موسم کہلاتاہے۔ہماراملک
کبھی سونے کی چڑیاہواکرتاتھا، سوناتوجاتے جاتے اورپارٹیشن کے وقت انگریزلے
اُڑے، بچ گئی چڑیاتواسے ہمارے دیسی لیڈران اُڑانے کے لئے ہرانتخابی موسم
میں سوسوجتن کرتے رہتے ہیں۔انگریزوں نے تولڑاؤ اورحکومت کروکی حکمتِ عملی
اپنائی اوراپنی یہی حکمت اپنے پیروکاروں کے حوالے کرگئے جس پرہمارے احباب
صدقِ دل سے عمل پیرا ہیں۔ہمارے لیڈران کی خوش نصیبی ہے کہ اس ملک میں کئی
قومیں اورلاتعدادسیاسی جماعتیں ہیں جن کی وجہ سے انتخابی موسم کافی
سہانااور رنگین بن جاتاہے اورجب ہمارے ملک کی طرح غریب،لاچار،کمزوراوربے بس
قوم ہوں توسیاسی بساط میں مزیدچارچاندلگ کرسارا منظراوربھی دمک ہوجاتاہے۔اس
ملک میں سب ہی قوم بے بس اورکمزورہیں جبھی توحکومتیں جوبھی آئی ہوں مہنگائی
کاسارابوجھ عوام پر منتقل کردیتے ہیں اورعوام مہنگائی ،کسمپرسی کی زندگی
گزارنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔آج بھی یہ سلسلہ زوروں پرہے۔یکم ستمبر کوہی
مہنگائی کا ایک نیاطوفان عوام پرمسلط کردیاگیاہے۔کل ہی ایک نیوز چینل
پرسلائیڈچل رہاتھاجس میں ایک وزیرموصوف کابیان تھاکہ پیٹرول وغیرہ کی
قیمتیں بڑھانے کاایک الگ ادارہ ہے جوکئی سالوں سے کام کررہاہے ہم نے نہیں
بڑھایا۔میرے بھائی!اگر وہ ادارہ پہلے کی حکومت نے بنایاتھااورآپ کے خیال
میں وہ مفید نہیں ہے اورعوامی مفادِ عامہ کے برعکس ہے توآپ اس وقت میجوریٹی
میں حکومت کر رہے ہیں آپ اس ادارے کوختم کیوں نہیں کر دیتے ۔ کیونکہ آپ نے
بھی توعوام سے ووٹ مہنگائی کم کرنے کے نام پرہی لیاہے۔اور عوام کو سنہرے
سپنے دکھائے تھے ،توعوام کی داد رسی کرنے کے بجائے اس طرح کے بیان داغ
کرعوام کوشدیدذہنی الجھن میں مبتلاکرناکہاں کا انصاف ہے۔
اس ملک کی بے بس قوم جسے ہرانتخابات میں ہرسیاسی پارٹی سونے کی
چڑیاقراردیتے ہیں۔اسے زندہ رہنے کے لئے خوش کن وعدوں کے معجون دیئے جاتے
ہیں،پیاس بجھانے کے لئے گندے اور مستیٔ گفتارسے لبریزمٹکے لڑھکائے جاتے
ہیں،حالت یہ ہو جاتی ہے کہ جو بڑھ کرتھام لے میان اُسی کاہے‘ کے مصداق اس
وقت یہ جماعتیں عوام کوگھیرنے میں ہی لگی ہوتی ہیں یعنی ان کاسارازور
ووٹرکواپنے قبضہ میں کرلینے کی دوڑ میں لگ جاتاہے۔اورجب انتخابات گزرجائے
تویہی لوگ عوام کی طرف پلٹ کردیکھتے تک نہیں کہ اس بے کس،مجبورعوام کاحال
کیاہے۔
اس عرضِ وطن کااتحاد،اس کی یگانگت صحیح معنوں میں اس وقت قائم رہ سکتی ہے
جب یہاں حقیقی معنوں میں نظام عدل و انصاف قائم ہو۔لیکن قومیتوں کے حقوق
پامال کرکے عملاً وحدانی طرزِ حکومت قائم کرہو چکا ہے ۔اداروں میں تنخواہوں
کے لئے رقم موجود نہیں،کئی ادارے بربادی کے دہانے پرہیں۔معیشت تباہی کے
کنارے پرہے،قتل وغارت گری،بے روزگاری،کرپشن اپنے عروج پر ہے،اورسب کے سب
سوائے بیان بازی کے کوئی عملی قدم اٹھانے کوتیارنہیں ہیں۔اس لئے عوام کے
اندراحساسِ عدم تحفظ کاپیداہوجانا لازمی امر ہے بلکہ وہ خوفزدہ بھی ہیں ،آپ
سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں،شہری آزادیاں غارت
ہورہی ہیں لوگ سرِ شام ہی گھروں کولوٹنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں،معصوم
لوگ مارے جا رہے ہیں ،بے گناہ لوگ تختۂ مشق بن رہے ہیں، زبانوں پرتالے
لگائے جا رہے ہیں،سخت گیرانہ قوانین وضع نہیں ہو رہے،یہ سب ان خوابوں کی
نفی ہے جوعوام نے دیکھے تھے ۔بقول شاعر!
دال آٹا سبزیاں مہنگی ہوئی اس قدر
اب تو بنیا بھی نہیں دیتا کوئی سودا ادھار
یہ نہ سمجھو رو رہے ہیں لوگ اس مہنگائی پر
پیاز کی خوشبو سے آنکھیں ہو رہی ہیں اشکبار
بہرحال یہ الیکشن کئی معنوں میں بڑی اہمیت کاحامل ہوتاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ
کون کتنا فائدہ اٹھاتاہے ۔ویسے توظاہرہے کہ فائدہ سیاست والوں کاہی ہوتاہے
مگرپھربھی اُمید و یاس کی تصویر یہ عوام انتظارکی گھڑیاں گن گن کرگزارتے
ہیں کہ شایدانہیں اس عوام کا بھی خیال آ جائے کہ جن سے انہوں نے ووٹ
کامٹکابھراتھا۔اب توووٹ دینے اورلینے کاوقت گزرچکاہے اورہماری یہ عوام صرف
انتظارہی کرسکتی ہے کہ ملک کے مستقبل کاساراانحصارہی انہی پرہے جوحکمرانی
کاتاج سجائے بیٹھے ہیں۔دیکھئے کب ان کی آنکھیں عوام کی طرف پلٹتی ہے اورکب
عوام کاچین وسکون واپس ملتاہے۔ہم بھی انتظار کر رہے ہیں آپ بھی انتظار
کیجئے؟ |