مسلح افواج کی شجاعت اور پاکستانی عسکری تاریخ کا سنہرا
باب
دشمن کی مسلط کردہ وہ جنگ جس میں طاقت و تعدا د کو شکست اور قومی اتحاد و
اخوت ‘ یکجہتی و حب الوطنی اورشجاعت و جذبوں کو فتح حاصل ہوئی
جنگ ستمبر پاکستان و بھارت کی عوام کیلئے مستقبل کو خوشگوار و محفوظ بنانے
کیلئے ایک سبق جو دونوں ممالک سے اعتدال و امن پسندی کا تقاضہ کررہا ہے
تحریر: عمران چنگیزی
کمزوروں کو دبانااور انہیں اپنا ماتحت رکھنا نہ صرف انسانی بلکہ حیوانی
جبلت بھی ہے۔ شاید یہی وہ فطرت ہے جس کی وجہ سے تاریخ انسانی میں جنگوں کی
بہتات نظر آتی ہے۔ ہر دور میں ایک قوم نے دوسری قوم، ایک قبیلے نے دوسرے
قبیلے اور ایک ملک نے دوسرے ملک کو زیر کرنے، اسے اپنا باجگزار بنانے اور
اس کے وسائل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ۔جن قوموں نے
اپنا دفاع مضبوط کیا دنیا میں ان کا غلغلہ رہا اور جنہوں نے اپنے وسائل
اپنی تعمیر و ترقی اور دفاعی صلاحیت کے حصول کے بجائے عیش و عشرت میں صرف
کئے غلامی کی زندگی ان کا مقدر ٹھہری۔
وطن عزیز پاکستان اور بھارت‘ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آئے
، لہٰذا ہندووں کی جانب سے اس کے وجود کو تسلیم نہ کرنا اور ایک بار پھر
پاکستان و بھارت کو یکجا کرکے عظیم ہندوستان بنانے کی خواہش اور کوشش ایک
فطری اَمرٹہری۔چونکہ تقسیم ہند کے وقت ایک سازش کے تحت تمام وسائل بھارت کو
ملے اور پاکستان اپنے حق سے محروم رہا اسلئے بھارت کا خیال یہ بھی تھا کہ
وسائل سے محروم پاکستان ایک بہت ہی کمزور ملک ہوگا اور کسی بھی وقت اس پر
حملہ کرکے اسے اپنا باجگزار بنایا جا سکتا ہے جبکہ قائد اعظم کی وفات اور
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستان سیاسی رسہ کشی اور جمہوری عدم استحکام
سے دوچاررہااور چونکہ بھارت ہمارا روایتی حریف تھا اوپر سے ہمارے اپنے
حالات بھی بہت پتلے تھے، اس نے موقع غنیمت جانا اور لاہور میں ناشتے کے
ارادے سے چل نکلالیکن شاید بھارتیوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہ تھا کہ شیر
چاہے سویا ہوا ہی کیوں نہ ہو وہ شیر ہی ہوتا ہے اور اس سے پنجہ آزمائی کا
نتیجہ ہمیشہ نقصان کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
وطن عزیز کے جانبازوں نے جارحیت کا مظاہرہ کرنے والے بھارت کو جرأت و
بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اپنے سے کئی گناہ زیادہ فوج اور کیل کانٹے سے
لیس فوج کو شکست سے دو چار کر دیا، ان کے جدید جنگی ساز و سامان اور جہازوں
کے مقابلے میں جب پاکستانی شاہین پرانے جہازوں اور توپوں کے ساتھ برسر
پیکار ہوئے تو ممولے کو شاہین سے لڑانے کی مثال صادق ہوتی دکھائی دی ۔
قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس
بڑی قربانی مانگتے ہیں۔ یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن
کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے
ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قربانی کی
لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہ
حق و باطل کا رخ کرتے ہیں، آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ
وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر
سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص
برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ ایام فیصلہ کن ہوتے ہیں، اگر قربانی کا حق ادا نہ کیا جائے، جان و مال
کو وطن پر ترجیح دی جائے، ماں کی ممتا اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے سے
گریزاں ہو، بوڑھا باپ اپنا اور خاندان کا سہارا کھونے کے لئے تیار نہ ہو تو
پھر وطن اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں، قومیں تاریخ کا حصہ اور پارینہ قصہ بن
جاتی ہیں، اور آزادی کی بجائے غلامی کی زندگی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر اسوقت آیا جب بھارت نے اپنے خبث باطن
سے مجبور ہو کرپاکستان کوآسان شکار سمجھتے ہوئے 6ستمبر 1965ء کو پاکستان پر
شب خون مارامگر اس پاکستان کی عوام اور مسلح افواج نے تنظیم ‘ توحید ‘ حب
الوطنی ‘جذبہ ایمانی اور قربانی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے جارح دشمن سے
دیوانہ وار مقابلہ کیااور ہندو بنیہ کے ناپاک عزائم کو رزق خاک بنا دیا۔
طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا
لیکن ہمیشہ کے لئے ناکامی کا بد نما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس گیا۔ وہ
شاید اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جو زمین شہداء کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ
بڑی زرخیز و شاداب ہوتی ہے۔ اس کے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر
انگلی کو توڑنے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔ جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے اور اس
کا بہترین مظاہرہ 6 ستمبر 1965ء کو کیا گیا، انتہائی بے سر و سامانی کے
عالم میں بھی عسکری تجربہ و مہارت اور جرأت و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں
قائم کی گئیں کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔
یہ6 ستمبر 1965ء کا دن تھا۔ بھارت لاہور پر اپنے جھنڈے گاڑنے نکلا تھا اور
پاکستانی سپوتوں کی جواں مردی کے باعث یہ دن تاریخ میں بھارت کے لئے ’’یوم
ہزیمت ‘‘ بن کر رہ گیا اور وطن عزیز پاکستان اس دن کو ہر سال ’’یوم دفاع ‘‘
کے طور پر مناتا ہے۔
ہر سال یوم دفاع آتا ہے اور پاکستانی قوم ’’یوم قراردادپاکستان ‘‘ یعنی
23مارچ اور ’’یوم آزادی پاکستان ‘‘ یعنی 14؍اگست کی طرح 6ستمبر یعنی ’’یوم
دفاع پاکستان ‘‘پورے جوش و جذبے سے مناتی اور دفاع وطن کیلئے قربان ہونے
والوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔
آج ہم پھر ’’یوم دفاع پاکستان ‘‘ ان حالات میں منارہے ہیں سرحدوں پر بھارتی
جارحیت جاری ہے ‘نکیال اور پونچھ سیکٹر میں بھارتی گولہ باری و فائرنگ سے
ہمارے کئی فوجی شہید ہوچکے ہیں اور بھارتی افواج کے سربراہ و وزیر دفاع
مسلسل پاکستان سے جنگ کے خدشات کا اظہار کرکے پاکستان کو مسل دینے کی
دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں مگر ہم یکجا و متحد ہوکر بھارت کی ان دھمکیوں
پر سنجیدہ لائحہ عمل طے کرنے کی بجائے سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہیں اور
سیاسی مفادات کی خاطر اس دشمن سے ہاتھ ملانا ہماری فطرت بن چکا ہے جو ہمارا
ہی وجود مٹادینے کیلئے بے چین و بیقرار ہے جبکہ اپنوں کے حق پر ڈاکہ ‘ قوم
کا استحصال اور وسائل پر قبضے اور ظلم کی روایت نے جن مایوسیوں کو جنم دیا
ہے ان کی وجہ سے دہشتگردی کا عفریت وطن عزیز کو اپنے خونیں پنجوں میں پوری
طرح جکڑ چکا ہے۔ وطن عزیز کا کوئی سا حصہ ‘ کونا ‘ قریہ ‘ گاؤں ‘ دیہات اور
شہر دہشتگردی سے محفوظ نہیں ہے‘ لاقانونیت عا م ہوچکی ہے جس کی وجہ سے
جرائم پیشہ عناصر کھلے عا م عوام کو شکار کررہے ہیں اور بدامنی نے ہماری
تجارت و معیشت کو تباہ کردیا ہے ‘صنعت و ذراعت کا پہیہ رکتا جارہا ہے
اوربیروزگاری عام ہوچکی ہے ‘ پیداواری عمل مفقود ہے جس کی وجہ سے مہنگائی
بام عروج پرپہنچ چکی ہے اور غریب انسان کیلئے عزت سے جینا مشکل ہوچکا ہے۔آج
وطن عزیز جن حالات سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اندرونی اور
بیرونی طور پر دشمنان پاکستان ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہیں،
ایک طرف بھارت ہے جس کو چین نصیب نہیں، دوسری جانب افغان سرحد پر استعماری
قوتیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔بد امنی و شورشوں
اور مذہب کے نام پر اپنی حکومت کیلئے کی جانے والی دہشت گردی و جبر نے
قبائلی علاقوں میں فوج کو اپنی ہی عوام سے بر سرپیکار ہونے پر مجبور کردیا
ہے جبکہ پاکستان کی آن ‘ شان اور پاکستان کے تحفظ و سلامتی کے امین مانے
جانے والے قبائلی آج اپنے ہی وطن کی فوج اور عوام کیخلاف صف آرأ ہیں ۔
بلوچستان میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے باعث آزادی کی تحریک دن بدن زور پکڑ
رہی ہے۔امریکہ بہادر پاکستان کے اندر تک گھس آیا ہے‘ بلیک واٹر کی پاکستان
میں موجودگی کے شواہد سامنے آچکے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کا ضامن ایٹمی
پروگرام خطرات میں گھرتا جا رہا ہے۔
ان مشکل حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ ایک بار پھر اسی جذبے کے ساتھ دفاع
وطن کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ وہی جرات‘ بہادری، عزم‘ استقلال اور وہی جہد
مسلسل ہمارا زاد راہ ہو۔ اس سے ایک طرف ہم بیرونی دشمن کا منہ توڑ جواب
دینے کے لئے تقویت حاصل کریں تو دوسری جانب اندرونی مشکلات کا مقابلہ کرنے
میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ تاکہ ہماری طرف سے اٹھنے والا کوئی
جذباتی قدم دشمن کو فائدہ نہ دے۔
اسلئے آج کا یوم دفاع روایتی انداز سے منانے کی بجائے متحد و مجتہد ہونے کا
تقاضہ کرتا ہے اور اگر ہم نے ہر سال کی طرح محض دعاؤں ‘ توپوں کی سلامی ‘
نجی و سرکاری تقریبات کے انعقاد اور پریڈ شو کے ذریعے اس دن کو منایا اور
شام ہونے تک پھر اسی روایتی رویئے کو اپنا لیا جس کی وجہ سے آج ہم زبوں
حالی ‘بد حالی ‘م سائل و مصائب اور بحرانوں کے ساتھ عدم استحکام کا شکار
ہیں اور پھر اسی کاروبار زندگی، سیاست کی سیاہ کاریوں، دولت کی ہوس، اقتدار
کی جنگ، کاسہ لیسی، غیروں کی غلامی، ازلی دشمنوں سے دوستی کی پینگوں کا
شاکر ہوکر وہی سارے کام کرنے لگے جو دفا وطن کے تقاضوں کے خلاف اور شہدأ کے
مقدس لہوو قربانی سے غداری کے مترادف ہیں تو پھر قیامت کے ان ان ماؤں کو
کیا جواب دیں گے جنہوں نے اپنے بیٹے وطن کیلئے وارے تھے ۔
اگر شہیدوں نے پوچھ لیا کہ کیا ہم اسی لئے جان سے ہارے تھے تو کیا جواب
ہوگا؟
آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور نعمت قربانی مانگتی ہے۔ جتنی بڑی نعمت ہو اتنی
بڑی قربانی ہوتی ہے۔ ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں ہم آج
آزاد فضا میں جی رہے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد وطن اور آزاد قوم کے
طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے قربانی کا جذبہ
ماند پڑتا ہے اسی طرح آزادی کا تصور بھی دھندلاتا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم نے قربانی سے انحراف کیا تو
دشمنوں نے ہر محاذ سے ہماری آزادی کو چیلنج کر دیا۔ ڈرون حملوں سے لے کر
اسلام آباد میں امریکہ کے 200 گھر کرائے پر لینے، بلیک واٹر کی کاروائیوں،
بلوچستان میں آزادی کی تحریک اور سرحد پر بھارتی اشتعال انگیزی تک سب اسی
سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
زندہ قومیں اپنے ایک ایک لمحے کا حساب کر تیں ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے
سبق سیکھتی ہیں۔ وطن عزیزپاکستان زبان، نسل اور علاقے کے بجائے محض اخوت
اسلامی اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ مادی اور دنیوی فا ئدوں
سے بے نیاز تحریک پاکستان میں ان لوگوں کا نمایاں کردار ہے جن کے علاقوں کو
کبھی بھی اس کا حصہ نہیں بننا تھا اور جنہیں پاکستان کے شجر سایہ دار سے
محروم ہی رہنا تھا۔ یہ ایثار و قربانی صرف نظریہ اسلامی کے لیے تھی جس کی
بنیا دوں پر پاکستان وجود میں آیا۔
6ستمبر یعنی یوم دفاع پا کستان ہر قسم کے تعصبات کو پاک کر کے، مسلمانوں کے
باہم اتحاد و یگانگت کا عملی مظہر ہے جس نے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند
کر دیا تھا۔ آج سوالیہ نشان ہے کہ وہ پاکستان جس کو اسلام کا قلعہ کہا گیا
تھا، لسانی منافرت، عصبیت، و بد امنی کی آگ میں کیوں جل رہا ہے؟ آج پاکستان
کی شناخت بدعنوان ملک کی بن گئی ہے۔ کسی بھی ملک میں دفاع قومی سلامتی کو
ادلین ترجیح حاصل ہوتی ہے مگر افسوس فوجی آمریت و مداخلت نے سب سے زیادہ
دفاع ہی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہر طبقہ غیرمطمئن ہے ‘ پاکستان سخت اقتصادی
گرداب میں ہے۔ بغض، عناد، کینہ پروری، آپس کی نااتفاقی نے مسلمانوں کو
ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ مسلم قومیت کی بنیاد رنگ، نسل، علاقہ اور زبان سے
ماورا محض دین اسلام کی بنیاد پر ہے جو انہیں آپس میں جوڑے رہنے کے بعد
سیسہ پلائی دیوار بنا دیتی ہے اور جس کا عملی مظہر 6 ستمبر کا وہ سنہرا دن
تھا جس میں محض جذبہ ایمانی کے ذریعے بھارت کے شب خون کا منہ توڑ جواب دیا
گیا تھا اور آج دین اسلام سے دوری نے قومیت کی بنیاد کو دین کے بجائے رنگ،
نسل، زبان، علاقہ بنا کر مسلمان کو مسلمان کا دشمن بنادیا ہے۔
یوم وفاع تجدید عہد کا دن ہے۔ اپنے اندر جذبہ ایمانی و غیرت ایمانی بیدار
کرنے کا دن ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان کے درمیان نفرتوں، عداوتوں، کی
خلیج کو پاٹ کر ایک کلمہ، ایک رسول، ایک قرآن کے ماننے والے اپنی گم کردہ
راہ کو پا لیں، قرآن سے رشتہ جوڑ کر غیروں کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں
لیں، متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرادیں
کہ ابھی ایمان کی حرارت دلوں میں زندہ ہے اور جب تک مسلمان ایمان پر قائم
رہے گا، ایک جسم، ایک جتھے کی مانند رہے گا جس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں
کر سکے گا۔
آئیے مل کر عہد کریں کہ وطن عزیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اپنے اپنے
دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی فلاح اور دفاع کے لئے کردار ادا کریں گے۔
اور اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے وطن عزیز کی عزت
پر حرف آ سکے۔
دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگ دنیا کی کسی قوم ‘ ملک اور معاشرے
کیلئے پسندیدہ چیز نہیں ہے اور عقل مند قومیں حتی الوسع اس سے بچنے کی کوشش
کرتی ہیں اور 6ستمبر 1965ء کی جنگ بھارت کے چند سیاستدانوں اور وحشی
جرنیلوں کی حماقت تو کہلائی جاسکتی ہے اسے بھارتی قوم کا فیصلہ قرار نہیں
دیا جاسکتا اورجنگ ستمبر سے جہاں پاکستان نے وحدت و اخوت کی اہمیت اور
سرفروشی و حب الوطنی کو جانا اور اس کی عظیم مثالیں قائم کیں وہیں بھارتی
قوم کو بھی یہ بات جان لینی چاہئے کہ جنگ کا نتیجہ کسی کے بھی حق میں نکلے
نقصان دونوں طرف کی عوام کا ہی ہوتا ہے لیکن چونکہ طاقت کا نشہ ایک ایسی
چیز ہے جو پالیسی سازوں کوکبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتااسلئے آئندہ پاکستان
و بھارت کے درمیان کسی بھی متوقع و ممکنہ جنگ سے بچنے کیلئے پاکستان و
بھارت کے عوام کو’’ پرچم امن ‘‘ بلند کرنا ہوگا اور مستقبل میں جنگ کی تباہ
کاریوں سے بچنے کی صرف دو ہی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں ممالک ہر طرح کے
جنگی ساز و سامان سے تہی دامن ہوں، اور دوسری یہ کہ دونوں کے پاس یکساں
صلاحیت ہو، صرف اسی صورت میں مستقبل میں برابری کی سطح کے تعلقات بھی قائم
ہو سکتے ہیں اور جنگ و جدل سے بھی بچا جا سکتا ہے کیوں کہ ہر ایک کو اندازہ
ہو گا کہ جتنا کچھ میرے پاس ہے اتنی ہی صلاحیت اگلے کے پاس بھی ہے۔ لیکن
اگر ایک کے پاس طاقت زیادہ ہو گی تو پھر جنگ کا امکان ہر وقت سر پر منڈلاتا
رہے گا۔اسلئے بھارتی عوام کو اپنی حکومت پر زور دینا چاہئے کہ وہ بھارتی
بجٹ کو بھارتی آرمی کے چنگل سے آزاد کرائے اور عوام کی ترقی و خوشحالی
کیلئے زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے جبکہ عسکری قوت کو بڑھاکر خطے میں
طاقت کے توازن کو بگاڑنے والے تمام تجربات پر پابندی عائد کرانے کیلئے بھی
بھارتی عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں ان کا اور ان کی
آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ و خوشحال ہے بصورت دیگر 6ستمبر 1965ء کو
ہزیمت ہٹانے والے بھارتی سورما ایک بار پھر وہی غلطی دہرا نے کی کوشش کررہے
ہیں اوراس غلطی کا تاوان اب کی بار بھی بھارتی عوام کو ہی ادا کرنا پڑے گا
جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت دو ایسیے پڑوسی ہیں جن کا باہمی
تعلق کسی بھی چاہت و خواہش سے ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پڑوسی ممالک میں
سے ہر ایک کی ترقی کا دارو مدار اس کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات پر
منحصر ہوتا ہے اگر تعلقات اچھے ہیں، امن و امان کی فضا قائم ہے اور جنگ و
جدل کے امکانات معدوم ہیں تو پھر ملک اپنے وسائل کو تعمیر و ترقی، تعلیم،
مواصلات، صحت اور دیگر تعمیری شعبوں میں صرف کرے گا لیکن اگر معاملہ اس کے
بر عکس ہے اور حالات ہمیشہ تناؤ کا شکار اور کشیدہ رہتے ہیں تو پھر وسائل
کا ایک بہت بڑا حصہ دفاعی حکمت عملی اور جنگی ساز و سامان میں لگتا رہے گا
اور عوام غربت کے بوجھ تلے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جائے گا۔ |