موجودہ دورمیں اگرگہرائی کے ساتھ انسانی حقائق اورانسانی
فلسفے کامطالعہ کیاجائے توچہارجانب مایوسی کے بادل منڈلاتے نظرآتے
ہیں۔کیونکہ دنیاسے انسانیت مفقودہوتی جارہی ہے،دنیاجتنی ترقی کررہی ہے
انسانی مسائل کے رفتارمیں بھی مزیداضافہ ہوتاجا رہاہے،انسان کے چہرے سے
خوشی کی لہرومسکان غائب ہوتی جا رہی ہیں۔انسان دنیاکی پوری دولت حاصل کر لے
اوراسے امن وچین حاصل نہ ہوتووہ دولت راکھ سے بھی بدترہے۔یہ سب کچھ کہنے
کامقصدیہ ہے کہ دنیا میں امن وچین کیسے قائم ہو،ہماراملک جوکبھی امن کا
گہوارہ کہلاتاتھا،جہاں ہرفردبشرنہایت پُر سکون زندگی بسرکررہاتھا،امن وچین
کہاں مفقودہو گئی،کہیں ایساتونہیں کہ وہ ناانصافی کی بھینٹ چڑھ گئی ہواوراس
کی بے قراری انسانی زندگی کوکھوکھلی کرتی جارہی ہے،کسی بھی ملک کے اندربے
چینی اس وقت حائل ہوتی ہے جب ملک کے سلامتی کوکسی فرقہ پرست عناصر،دہشت
گردکاروائیوں اورحملوں کاخطرہ ہواورایسے حالات میں حکومتِ وقت اپنے سیاسی
مفادکی خاطرغلط پالیسیوں پرعمل کرتے ہوئے امن کے چہرے کوداغداربنادیتی ہے
اورسیاسی مفاہمت کی خاطرصرف اورصرف اپنامفاد دیکھتی ہے توایسے میں عوامی بے
چینی ہی پیداہوتی ہے اورخمیازہ کے طورپرامن وامان داغدارہونے لگتاہے،اورجب
امن وامان ناپید ہو جائے توبے روزگاری جیسے مسائل سَراٹھاتے ہیں اوریہ سب
کچھ آج ہمارے وطن میں بھی ہورہاہے۔ایسے میں مفادعامہ کواپناناچاہیئے ناکہ
سیاست پرستی کوترجیح دینی چاہیئے ،اگرایساہواتومستقبل میں ملک، قوم
اورجمہوریت کے لئے خطرہ ہی خطرہ ہے۔
جمہوری نظام اورجمہوریت بھی بڑی عجیب چیزہے۔اس میں انتخابات توبطورِ خاص
اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں۔دراصل سلیکشن ہمارے ملک میں ایک خاص قسم کاموسم
ہوتاہے۔ہرپارٹی کے درخت پروعدوں کے پھل پھول دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ پھول
نہ کبھی کھلتے ہیں نہ یہ پھل کبھی کسی کے ہاتھ لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
ہرقومی سیاسی پارٹی دل کھول کروعدے وعیدکرتی ہیں اورپھرجونہی الیکشن کاموسم
ختم ہوتاہے عوامی ووٹوں سے سلیکٹ ہوئے ممبران پانچ سالوں کے لئے عوام سے
پردہ پوشی فرمالیتے ہیں۔اوران کی یہی خرابی عوام کواحتجاجی شروعات کے لئے
مجبورکرتی ہے اسی لئے آپ نے دیکھاہوگاکہ جب وعدے پورے نہ ہوں یانہ کیئے
جائیں توعوام سڑکوں پرہوتی ہے اوراس میں کئی جماعتیں دیسی گھی کاتڑکہ بھی
ڈال دیتی ہیں تاکہ احتجاج مستندنظرآئے۔
آج کی جمہوریت میں عام انسان رہائش،کھاناپینا،بچوں کی پرورش،تعلیم اورعلاج
معالجے کے لئے پریشان ہے۔جس کی واحدوجہ کم آمدنی ،محنت کے
باوجودپورامحنتانہ کانہیں ملنا،اوپرسے مہنگائی کی مار۔اورروپئے کی روزافزوں
گراوٹ۔اوریہ گراوٹ معیشت کابھٹہ بٹھانے کے لئے نہ صرف کافی ہے بلکہ معیشت
کے لئے زہرِ قاتل ہے۔حکومت کواس طرف سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت
ہے۔کل پھرپیٹرول پرصرف چارروپئے چھپن پیسے کااضافہ کردیاگیایوں پیٹرول کی
قیمت اپنے تاریخی عروج پرجاپہنچاہے یعنی کہ ایک سونوروپئے اورکچھ پیسے۔یہ
ہے ہمارے ملک کاالمیہ۔اس بات کاسب ہی کویقین ہے کہ جب بھی پیٹرول کی قیمت
پراضافہ ہوتا ہے توسوئی سے لیکرجہاز تک کی قیمت بڑھ جاتی ہے توپھریہ عوام
جن کی حد سے کم ماہانہ اجرت یعنی کے آٹھ ہزارروپئے اس رقم میں بیچارہ کس
طرح گھرکاکرایہ،بچوں کی تعلیم،علاج ومعالجہ،بجلی،گیس،پانی،پراپرٹی ٹیکس کے
بل اوردوسرے اخراجات پورے کرسکے گا۔یہ اربابِ اختیار نہیں سوچتے۔کیاجمہوریت
میں ایساہی ہوناچاہیئے کہ غریب کاخون چوس لیاجائے۔ایک وقت کی روٹی کے لئے
ایک غریب کوکتنی تگ ودوکرنی پڑتی ہے اس کااندازہ وہ ہی کرسکتے ہیں جس کے دل
میں انسانی دل حرکت کررہاہو ورنہ تویہاں کوئی داد رسی کرنے والا نہیں۔اﷲ کے
سہارے یہ غریب عوام اپنے دن کورات اوررات کوصبح میں تبدیل کرتے نظرآتے
ہیں۔خداخیرکرے ہمارے ملک کے غریبوں پر!
دنیاکے تقریباً تمام جمہوری ملکوں میں پارلیمانی نظام قائم ہے جس کے تحت
پارلیمنٹ کامقصدملک وقوم کودرپیش مسائل پرغور کرکے ان کاحل تلاش
کرنااورمناسب قانون بناناہے اس کے دوعنصر ہیں حکومت اورحزبِ مخالف،حکومت
کامطلب حکمراں جماعت یا محاذہے جبکہ اپوزیشن میں وہ تمام ارکان آتے ہیں
جوحکمراں پارٹی کے مخالف ہوں ،یہ پارلیمنٹ کسی علاقہ،گروہ اورخاص جماعت کی
نہیں پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہے۔مگرہمارے یہاں عوامی مفادِ عامہ کے بل کم
پاس کئے جاتے ہیں اور تقریریں زیادہ کی جاتی ہیں۔اس سے اندازہ
لگایاجاسکتاہے کہ ہماری پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ کم اورسیاسی پارٹیوں کی
نمائندہ زیادہ نظرآنے لگی ہے صرف یہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے قیمتی وقت
کااستعمال قومی مفادسے زیادہ سیاسی روٹیاں سینکنے میں ہورہاہے اوریہ
جمہوریت کے لئے کوئی کم خطرناک علامت نہیں ہے۔لائبریری میں بیٹھے ہوئے
یونہی احسن اعظمی صاحب کے کتاب کی روگردانی کرتے ہوئے یہ شعر پڑھنے
کوملاجواس تحریرکے لئے بہت مناسب لگا ،آپ سب کے لئے تحریرکیئے دیتاہوں۔
جہاں میں ہر طرف ناگفتہ بہ نظم حکومت ہے
زمانے کو نظامِ مصطفی ؐ کی سخت حاجت ہے
مخالف جس کو کہتے تھے ابھی تک ظالم و جابر
اسی تعزیرِ اسلامی کی دنیا کو ضرورت ہے
آزادی کے بعداسی سرزمین پرحکومتیں بھی تھیں اورعوام بھی،اس دوران بھائی
چارہ،میل جول،ہمدردی ومحبت اورانسانی قدروں کاپاس ولحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ
کبھی حکومتوں نے کسی ایک طبقے کی ترقی کے لئے نہیں سوچا،ہمیشہ رفاہ عام
کاکام کیاگیااورعوامی فلاح وبہبود کواپنامقصدِ اقتداربنایاتھا،مگرآج یہ سب
کچھ ناپید نظرآتاہے۔آج بھی ضرورت ہے عوامی فلاح وبہبود،ہمدردی اوراخوت کی۔
ابھی یہ ممکن بھی ہے کیوں کہ دنیا میں محبت ،ہمدردی اوربغض وعنادسبھی کچھ
انسانوں سے وجود میں آتاہے اورانہی سے عبارت ہے، اس لئے حکومتیں ترقی کے
لئے کسی ایک طبقے کومخصوص نہ کریں ،بلکہ عوام اورملک وقوم کی ترقی
اورخوشحالی کی بات کریں تاکہ قوموں کے درمیان محبت،ہمدردی اوراخوت قائم
ہوجائے اوراس دھرتی پرپھرسے امن و امان کی حکمرانی ہوجائے تاکہ یہاں کے
بسنے والے امن و آشتی کے ساتھ چین کی بانسری بجاسکیں۔خداوہ دن جلدلائے یہی
عوام کی دعابھی ہے۔اورآج ضرورت بھی اس امرکی ہے کہ حکمران صدقِ دل سے خدمت
کرکے عوام کااعتمادحاصل کریں،تاکہ لوگ سرکارکی تعریف کرنے پرمجبورہو
جائیں۔یہ موقع ہرکسی کونہیں ملتاخدا نے آپ لوگوں کواس ملک کی،یہاں کے بسنے
والے عوام کی خدمت کاموقع دیاہے توآپ کافرض ہے کہ عوام کی خدمت کریں،عوام
کی داد رسی کریں اورایساکرنے میں بلاشبہ کسی اورکافائدہ نہیں بلکہ سراسر آپ
ہی کافائدہ ہوگاکیونکہ جب اگلے پانچ سال بعدآپ دوبارہ عوام کے پاس ووٹ کے
لئے جائیں گے تواچھے کاموں کے صلے میں عوام آپ ہی کوچُنے گی۔توہوا نہ آپ
کاہی فائدہ |