میاں نواز شریف اب تیسری بار
پاکستان کے حاکم اعلیٰ بنے ہیں اور اس بار پہلی دو باریوں کی نسبت کچھ
انوکھے طور واطوار کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ الیکشن تو انہوں نے لاہور سے جیتا
مگر لگا یوں کہ وہ جالندھر یا پھر امرتسر کے کسی حلقے سے امیدوار تھے۔ میاں
صاحب نے حلف برداری سے پہلے بھارتی وزیراعظم کو تقریب حلف برداری میں مدعو
کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اھل بھارت نے بھی خوب تمسخر اڑایا بلکہ
یہاں تک کہا کہ پاکستان ایک بے اہمیت اور بے ہمت ملک ہے۔ اسی دوران
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاپر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی شوبوائے سلمان
خورشید نے کہا کہ افغانستان پر پاک امریکہ بات چیت کی حدود کا تعین بھارت
کریگا جس پر پاکستان اور امریکہ دونوں نے خاموشی اختیار کی جبکہ جناب سرتاج
عزیز نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ لاہور میں ہونے والے واجپائی کیساتھ
مذاکرات برابری کی سطح پر تھے مگر اب پاکستان کی پوزیشن کمزور ہے۔سرتاج
عزیز روپے پیسے کے حسابی ہیں ۔ وہ ہمیشہ ٹیکس لگانے ، عوام کی جیبیں خالی
کرنے اور حکمرانوں کی تجوریاں بھرنے کا کام کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ سیاستدان
ہیں ، نہ سیاسی ورکر ، نہ فوجی جرنیل اور نہ ہی سائنسدان۔ وہ پٹھان تو ہیں
مگر انکا آبائی پیشہ ٹھکیداری اور سرکار کی نوکری ہے جبکہ میاں صاحب نے
انہیں محض وفاداری کی بنیاد پر غلط کا م پر لگا دیاہے۔ وزیر خارجہ اور
وزارت امورخارجہ کا مشیر کسی دلیر اور بہادر شخص کو لگا نا چاہیے تھا جو نہ
صرف خارجہ امور کا ماہر ہو بلکہ وہ چانکیہ اور میکاولی کے چیلوں کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈالکر بات کرنے کی ہمت اور جرات بھی رکھتا ہو۔ جناب سرتاج عزیز
نے کس بنیاد پر یہ بیان دیا ہے اس کی وضاحت میاں صاحب کو کرنی چاہیے ۔
قومیں غیرت ، ہمت اور جرات کی قوت سے زندہ رہتی ہیں نہ کہ دولت اور ظاہری
طمطراق کے بل بوتے پر۔ ائیرکنڈیشنڈ کو ٹھیوں ، دفتر وں اور کاروں کے عادی
لوگ اگر اہم عہدوں پر فائیز ہونگے توپاکستان کے دشمن اسے آسان ھدف سمجھ کر
اپنی بات منوانے کے لیے دباؤڈالینگے اور ہوسکتا ہے کہ ایک بہادر اورغیور
قوم ایسے مشیروں اور وزیروں کی خواہشات کی بھینٹ بھی چڑھ جائے۔
جناب محمد اسد جنہیں مفکر پاکستان نے تحریک حصول پاکستان کے لیے کا م کرنے
پر لگا یا تو جناب محمد اسد خود حیران تھے کہ پاکستان تو محض ایک آئیڈیا
ہے، مسلمان انتشار کا شکار ہیں ، آدھے سے زیادہ لیڈر کانگرس کے سر گرم رکن
ہیں اور پنجاب پر انگریزوں کے حمائت یا فتگان کی حکومت تو ان حالات میں
پاکستان کیسے بنے گا۔ جناب اسد اپنی تصنیف روڈ ٹو مکہ میں لکھتے ہیں کہ
علامہ اقبال کے حکم پر میں نے مسلم لیگ کے دفتر میں کام شروع کر دیا اور
پھر دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدل گئے اورآخر کار ایک خواب نے حقیقت کا روپ
دھار لیا ۔ جناب محمد اسد جرنلزم ، سفارتکاری اور سیاحت میں وسیع تجربہ
رکھتے تھے مگر اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر پطرس بخاری نے اس عظیم مفکر
اور دانشور کے خلاف سازشوں کا ایسا جال بچھایا کہ وہ مایوس ہو کرپاکستان کی
فارن سروس ہی نہیں بلکہ پاکستان ہی چھوڑ گئے ۔ اب بھی ماحول کچھ ایسا ہی
ہے۔ جناب طارق فاطمی ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور
سفارتکاری میں بھی وسیع تجربے کے حامل ہیں ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے
اور آپ نے بھی جناب ایم ایم عالم کی طرح بنگلہ دیش جانے کے بجائے پاکستان
میں رہ کر خدمات سرانجام دینے کا عزم کیا۔ جناب فاطمی کو مشیر برائے امور
خارجہ تو لگا دیا گیا مگر ان پر بھی جناب سرتاج عزیز کی صورت میں ایک پطرس
بخاری مسلط کر دیا گیاہے۔ لگتا ہے ہے میاں صاحب کو بھی جناب آصف زرداری نے
متاثر کیا ہے جیسے انھیں جیل کے یار اقتدار میں بہت یاد آئے اسی طرح میاں
صاحب کو سوائے اپنے گھرانے ، بٹ برادری کے اور دوستوں یاروں کے کسی دوسرے
شخص پر اعتماد ہی نہیں ۔
جناب سرتاج عزیز بنکار، معیشت دان اور کاروباری بیک گراؤنڈ کے آدمی ہیں
مگروزارت خزانہ ان کے سپرد کرنے کے بجائے انہیں سفارتکانے چلانے کا کام دے
دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جناب سرتاج عزیز کو خزانے پر بٹھا نے کی صورت میں
اسحاق ڈار ناراض ہوجاتے اور جسطرح جناب اسحاق ڈار میاں خاندان کی خدمت کر
سکتے ہیں سرتاج عزیز شائد ایسا نہ کرتے۔
سندھ ، پنجاب اور کے پی کے میں یکساں نوعیت کی حکومتیں بلکہ برادری
جمہوریتیں ہیں ۔ سندھ کی وزارت اعلیٰ تو جناب قائم علی شاہ کے پاس ہے مگر
وہ جناب اویس ٹپی کے قائم مقام ہیں ۔ اصل حکمران جناب ٹپی ہیں جبکہ فائیلوں
پر دستخط بڑے شاہ صاحب کرتے ہیں۔ اویس ٹپی بھی سیّد ذادے ہیں اس لیے
احتراماًوہ کسی فائل پر دستخط نہیں کرتے یا پھر وہ جو کچھ کرتے ہیں اور کر
رہے ہیں اس سے بچنے کے لیے قائم علی شاہ کا قلم استعمال کروارہے ہیں ۔ کل
کلاں اگر وہ دستخط کر نے کے جرم میں پکڑے بھی جاتے ہیں تو وہ عمرکے ایسے
حصے میں ہیں جہاں انہیں سزادینے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی ۔ جج
سزادینے سے پہلے پوچھے گا کہ اسقدر عمر رسیدہ شخص کو بار باروزیراعلیٰ
بنانے کی سزاکیوں دی گئی جبکہ اسے زندگی کے آخر ی آیام میں آرام کرنے ،
توبہ کرنے اور عبادت کرنے کی ضرورت تھی۔ جناب قائم علی شاہ اور جناب
سیداویس ٹپی شائد نہ پکڑے جائیں مگر انہیں ان عہدوں پر ذبردستی بھٹانے والے
اس جہاں نہ سہی اگلے جہاں ضرور پکڑے جائیگے ۔
پنجاب میں خادم اعلیٰ اور ان کا بیٹا شریک اقتدار ہیں جبکہ تایا ابا مرکز
میں وزیراعظم ہیں۔ اٹک سے خانپور تک راجہ پورس کی ساری ریاست پر جناب شہباز
شریف اور جناب حمزہ شہباز شریف کا اقتدار ہے۔اسلیے اس علاقے میں برادری
بلکہ گھریلوجمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ۔ دریائے سندھ کے پار راجہ امبی کی
ریاست پر خان اعظم جناب عمران خان کی حکومت ہے اور یہاں پر بھی جناب پرویز
خٹک اور ان کے قریبی رشتہ دار وں کی حکمرانی ہے۔ کہتے ہیں کہ خٹک اور بنگش
دوبھائی تھے ۔ جب دونو ں کی اولادیں جوان ہوگئیں اور آبادی بڑھ گئی تو
دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ ایک بھائی شہر وں میں اور دوسرابھائی
دیہاتوں اور پہاڑوں میں چلاجائے۔ اسطرح خٹک بنجر اور ویران علاقوں میں آباد
ہوگئے اور بنگش سرسبز علاقوں پر قابض ہوئے جبکہ حکمرانی کے حقدار یوسف زئی
ٹھہرے۔یہ توکتابی باتیں ہیں بلکہ کہاوتیں ہیں مگر پاکستان بننے کے بعد ہر
حکومت میں کرک، کوہاٹ اور بنوں کے خٹک سرفہرست رہے۔ خٹکو ں ، بنگشوں اور
مروتوں میں اچھے منتظم اور سیاستدان بھی ہوئے ہیں مگر اس بار پرویزخٹک کی
حکومت کچھ دھکا سٹارٹ ہے۔ فیملی جمہوریت کے باوجود حکومتی کشتی دریائے کابل
میں ڈھانواں ڈھول ہے جس کی بنیادی وجہ ملاحوں کے درمیان رسہ کشی ہے۔ وہ لوگ
جنہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی اور خان اعظم کے ابتدائی دور میں کارکن
بنے خان نے انہیں جھنڈی دکھائی اورپرویز خٹک کے سر پر تاج حکمرانی رکھ دیا۔
جناب پرویز خٹک اس سے پہلے کئی بار پگڑیاں بدل چکے ہیں اور صوبہ سرحد کی
سبھی سیاسی جماعتوں میں دیہاڑیاں لگا چکے ہیں جسکی بنیادی وجہ ان کے
کاروبار کا تحفظ اور ذاتی مفاد رہاہے۔ خان اعظم نے اپنے اشتہار وں میں جن
درزیوں ، رکشہ ڈرائیوروں، رنگ سازوں اور مزدوروں کی پبلسٹی کی انہیں وہ
یکسر بھول کر اپنے کلاس فیلوز اور کاروباری لوگوں کی طرف لے گئے ۔ اگر میں
خان صاحب کی جماعت میں ہوتا تو خان پر سیاسی بدعہدی ، دھوکہ دہی اور سیاسی
چالبازی کا مقدمہ درج کرواتا۔ خان نے الیکشن کے اشتہاروں میں جن غریبوں کے
نام اور چہرے استعمال کے ان میں سے ایک بھی اسمبلی میں نہیں پہنچا۔ صوبہ
بلوچستان میں ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ ہیں جوکہ بلوچی ر سم ورواج کی خلاف
ورزی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک سفید پوش ، عزت دار اور کمٹڈ سیاسی ورکر تو ہیں
مگر وہ کسی قبیلے کے سردار ، شہزادے ، نواب ذادے اور خانزادے نہیں۔ نہ ہی
وہ مفتی ، مولوی ، حافظ اور علامہ ہیں۔ بلوچستان کے مولوی ، مفتی علامہ ،
حافظ ، سردار اور نواب انہیں دل سے وزیراعلیٰ تسلیم نہیں کررہے اور نہ ہی
انتظامیہ ان کے ساتھ کو اپریٹ کرتی نظر آتی ہے۔بلوچستان میں پہلی بار شاہی
خانوادوں اور سرداروں کے ہاتھ سے وزارت اعلیٰ نکلی ہے جسے یہ لوگ برداشت
نہیں کر ینگے اور نہ ہی جناب ڈاکٹر مالک کو کامیاب وزیر اعلیٰ بننے دینگے ۔
آذاد کشمیر میں ڈوگروں کے بعد پہلی بار ایک برادری کا اقتدار قائم ہو ا ہے
جسے پاکستان میں اسی برادری کے حکمرانوں کی مکمل حمائت حاصل ہے۔ آذادکشمیر
کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آذاد کشمیر میں برادری جمہوریت قمرزمان کاہرہ اور
منظور وٹو کے ذھن کی اختراح ہے جسے سرحد پولیس کی مدد سے قائم کیاگیا۔ آذاد
کشمیر میں قائم جمہوریت کا جاب کرنیوالوں کو میں کوٹلی آنے کی دعوت دیتاہوں
تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے نام نہاد جمہوریت کا نظارہ کر سکیں ۔ کوٹلی ضلع کی
ساری انتظامیہ سیئنیروزیر کی برادری سے تعلق رکھتی ہے اور جن جن لوگوں نے
سیئنیروزیر کے خلاف الیکشن لڑا یا پھر آئیندہ الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے
تھے انہیں مختلف کمیٹیوں اور کا ر پوریشنوں کا چیئرمین لگاکر لاکھوں روپے
ماہانہ تنخواہ اور مہنگی گاڑیاں دیکر انہیں خرید لیا گیا ہے۔ وزیر حلقہ
نمبر 4تحصیل چڑہوئی سے ایم ایل اے ہیں مگر نادرہ اور تحصیلدار کا دفتر
تحصیل ہیڈکواٹر کے بجائے ایک چھوٹے سے قصبے جرائی وزیر موصوف کے گاؤں میں
منتقل کیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے جمہوریت کے بہترین مفاد میں اپنی ذاتی
ملکیت نواز لیگ آذادکشمیر شاخ کو شاہی فرمان جاری کیا کہ وہ آذادکشمیر میں
قائم برادری جمہوریت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شامل نہ ہوں تاکہ دیگر
صوبوں کی طرح آذادکشمیر میں کاہرہ اور وٹوفارمولے کے تحت بننے والی برادری
حکومت قائم رہے۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب کشمیر کے معاملات میں دلچسپی ہی نہیں
رکھتے اور نہ ہی انہیں مسلۂ کشمیر کے دل سے کوئی سروکار ہے۔ جناب ذرداری نے
مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی اعلان کیا تھا کہ مسلۂ کشمیر کو تیس سال تک
منجمند کیا جائے اور پھر موصوف نے اس پر کوئی بیان نہ دیا تاکہ بھارت
باآسانی کشمیر میں ڈیم تعمیر کر سکے۔ پرویز مشرف نے بھارت کو لائن آف
کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت دی اور آذادکشمیر کو مقبوضہ کشمیر سے الگ
کروادیا۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے منصوبوں
کو عملی جامہ پہنانے آئے ہیں اور کچھ جمہوری فنکاروں اور صلاح کاروں کی
ہدایت کے مطابق آذادکشمیرمیں برادری جمہوریت کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے
ہیں ۔ میاں صاحب نے اقتدار میں آکر آذاد کشمیر میں قائم کرپٹ حکومتی نظام
کو جو حوصلہ دیا اس سے آذادکشمیر کے عوام سخت مایوسی اور بزدلی کا شکار
ہوئے ہیں ۔ میاں صاحب کے جن صلاح کاروں نے آذادکشمیر میں جمہوریت کے فروغ
کا منصوبہ بنایا ہے اسپر وہ واقعی قابل صد تحسین ہیں مگر اچھا ہوتا اگر وہ
میرپور سے کوٹلی براستہ چڑہوئی ایک مختصر دورہ کر کے وزیر اعظم پاکستان کو
مجید حکومت کی ترقیاتی منصوبوں اور خاصکر میر پور کوٹلی روڈ کی خستہ حالت
سے بھی آگاہ کرتے ۔ یہ سڑک کالاڈب کے مقام تک وزیر اعظم کے حلقے سے گزرتی
ہے اور کالاڈب سے ڈماس تک سئنیر وزیر کے حلقے میں آتی ہے۔ بل ڈماس وزیر
تعلیم کا گاؤں ہے اور اس سے آگے ڈونگی تک یہ سڑک نماراستہ وزیز تعلیم کے
حلقے میں واقع ہے۔
کیا وزیر اعظم پاکستان ، وزیر داخلہ اور فروغ جمہوریت کے پاسبان چھ کروڑ
روپے کے صلاح کار دنیا میں کو ئی ایسی مثال ڈھونڈکر پیش کر سکتے ہیں کہ کسی
حکومتی وزیر نے اہم سرکاری دفاتر اپنے گھر میں قائم کیئے ہوں اور وزیر اعظم
اسپر خاموش تماشائی ہوں ۔ آذادکشمیر کے سیئنیر وزیر کا علاقہ عملاًنوگو(NO
GO)ایریا ہے جہاں کسی برادری خاصکر راجپوت برادری کے افراد کا داخلہ ممنوع
ہے۔ چڑہوئی کے بعد علاقہ کے دوسرے بڑے قصبے کا لاڈب کی جامع مسجد میں کوئی
راجپوت عید اور جمعہ کی نماز نہیں پڑھ سکتااور پچھلے گیارہ سالوں سے یہ
مسجد راجپوت برادری کے لیے ممنوع قرار دی گئی ہے، فلسطین اور کشمیر میں تو
مسلمان نماز پڑھتے ہیں مگر کالاڈب میں مسلمان صرف سیئنیر وزیر کی برادری
والے ہیں ۔کیا میاں نوازشریف اور ان کے صلاح کاروں کے پاس کوئی ایسی مثال
ہے ۔اگر ہے تو اسے پاکستان اور آذادکشمیر کے عوام کے سامنے لائیں تاکہ اسے
تاریخ کا حصہ بنایا جا سکے۔سیئنیر وزیر نے تحصیلدار اور نادرہ کا دفتر اپنے
گھر کے قریب اس لیے منتقل کیا ہے کہ وہ جعلی شناختی کارڈوں کا اتنا زخیرہ
کر لیں کہ آئیندہ الیکشن میں مطلوبہ ووٹ ان کی جیت میں محفوظ ہوں ۔ سیئنیر
وزیر کے اس جرم میں رحمان ملک اور چئیرمین نادرہ برابر کے شریک ہیں جن کے
خلاف انکوائیری کرواکر انہیں سزادینی چاہیے ۔ پچھلے الیکشن سے ایک رات پہلے
کوٹلی میں واقع نادرہ آفس ڈی جی نادرہ کے حکم سے کھولا گیا اور ایک ہی رات
میں ہزاروں جعلی شناختی کارڈ سرحد پولیس کی حفاظت میں تیار کئے گئے ۔ ڈی جی
نادرہ نے یہ جرم رحمان ملک اور قمرزمان کاہرہ کے حکم پر کیا جسے میاں
نوازشریف جمہوریت کہتے ہیں ۔
نادرہ اور تحصیلدار کا دفتر تحصیل ہیڈکواٹرچڑہوئی سے جرائی منتقل کرنے کا
مقصد جعلی شناختی کارڈ وں کا حصول اور راجپوت قبیلے کی زمینوں کا ریکارڈ
تبدیل کرناتھا جو اب تک ہوچکا ہے۔ کوئی راجپوت جرائی جاکر نہ تو شناختی
کارڈ بنواسکتا ہے اور نہ ہی زمینوں کا ریکارڈ دیکھ سکتا ہے۔ آذادکشمیر کا
وزیر اعظم اپنے سیئنیر وزیر کے آگے بے بس ہے اور میاں نوازشریف نے اپنے
صلاح کاروں کے اشارے پر ایک کرپٹ اور وٹوکاہرہ فارمولے کے تحت پاؤنڈ مافیا
کی حکومت کو دنیا کی بہترین جمہوریت قرار دیا ہے۔ میاں صاحب اور ان کے
جمہوریت نواز دوستوں کو برادری جمہوریت مبارک ہو مگر یاد رکھیں ظلم کی سیاہ
رات طویل تو ہوتی ہے مگر سورج کی ایک کرن اسکی ساری سیاہی مٹادیتی ہے۔ ایسی
سیاہی اور اندھیری میں جو لوگ ظلم و جبر کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ
اسی ظلمت کدے میں نشان عبرت بھی بن جاتے ہیں ۔ |