نواز حکومت میں تبدیلی کا
خواب چکنا چور
تاجر کنگال ،غریب بدحال
سیاست دانوں نے عوام کا کچومر نکال دیا
عوام نے پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت کو بڑے صبر کے ساتھ برداشت ، اس
امید پر کیا تھا کہ سیاست دان انھیں تبدیلی کا خواب دکھاتے رہے، عوام نے اس
تبدیلی کے لئے اپنے ووٹ کا بھرپور استعمال کیا۔ اور ووٹوں کے ذریعے حکومت
مسلم لیگ نواز کی جھولی میں ڈال دی۔ لیکن اس حکومت کے آتے ہی عوام کو جن
اذیت ناک دور کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس نے تبدیلی کے خواب کو چکنا چور
کردیا ہے۔ اب مہنگائی، بھتے، اغوا برائے تاوان، پیڑول کی قیمت میں ہوش ربا
اضافے،بجلی کے نرخوں میں اضافے، لوڈ شیڈنگ، قتل و غارت گری، بم دھماکے، لوٹ
مار نے اس تبدیلی کے خواب کو ایک ڈراونے خواب سے بدل دیا ہے۔ اب تاجر کنگال
اور غریب نڈھال ہے۔ حکومت کی ترقی کے دعویٰ جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ جمہوریت
کا نعرہ لگانے والے سیاست دانوں نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔
مہنگائی کا یہ سیلاب اب یہاں رکے کا نہیں، پاکستانی روپیہ روز اپنی قدر کھو
رہا ہے، ڈالر کے دام بڑھ رہے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے ہر چیز کے نرخ بڑھا دیئے ہیں۔ اب
مرغی کا گوشت بھی مہنگا اور دال اور آٹا بھی عوام سے دور ہوگئے ہیں۔
یوں تو مہنگائی کا مسئلہ ہر دور حکومت میں رہا ہے لیکن اتنی شدت کے ساتھ
نہیں تھا، کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ مگر اب ملک جیسے جیسے ترقی کی جانب بڑھ
رہا ہے (یعنی مصنوعی ترقی، قرضوں کے بل بوتے پر) ویسے ویسے مہنگائی کا جن
بھی آسانی سے اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ کیوں! اس لیے کہ پچھلی یعنی ماضی کی
حکومتوں کے دور میں ایک سال، چھ مہینوں میں اشیائے خور و نوش اور دیگر
اشیائے ضروریات کی قیمتوں کا تعین (رد و بدل) ہوا کرتا تھا۔ لیکن پچھلے 5،6
سال سے جمہوری حکومتوں نے یہ رویہ اپنایا ہوا ہے کہ ہر مہینے پندرہ دن میں
اشیا خور ونوش اور دیگر اشیا کی قیمتیں بدلنے لگی ہیں۔
بالخصوص پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس، پانی کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں اور اس
پر طرہ امتیاز یہ ہے کہ قیمتیں بڑھائی تو جاتی ہیں 5 سے 7 روپے تک لیکن جب
کمی کا احسان کرتے ہیں تو ایک روپے، دو روپے یا 80 نوے پیسے کم کرتے ہیں۔
خصوصاً بجلی کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے
کہ اس اضافے کا بوجھ عام صارفین پر نہیں پڑے گا، بلکہ یہ قیمتیں صنعتی
صارفین پر لاگو ہوں گی۔ صارفین کی بجلی، گیس، تیل، پانی وغیرہ کی قیمتیں
بڑھیں گی تو کیا ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ نہیں ہوگا اور پھر وہ اپنی
مصنوعات مارکیٹ میں لائیں گے تو اسی اضافے کی نسبت سے عوام کو سپلائی کرنے
کے لیے قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے؟
وہ جو کہتے ہیں نا کہ چھاج تو چھاج چھلنی بھی بولی، تو پیپلز پارٹی کو بھی
یہ موقع مل گیا کہ اس نے بھی نواز شریف کی حکومت پر تبرا کرتے ہوئے اشیا
خوردونوش میں ہونیوالی ہوشربا مہنگائی کی تقابلی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس جاری
کردہ رپورٹ میں واضح کیا کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان میں اشیاء
خوردونوش کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اسکی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں
ملتی۔رپورٹ کے مطابق مختلف اشیاء کی قیمتوں میں 22 سے 567 فیصد تک اضافہ
کیا گیا۔ سب سے زیادہ اضافہ ٹماٹر کی قیمت میں کیا گیا جس کی قیمت 567 فیصد
اضافے سے 15 روپے سے بڑھ کر 100 روپے ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
گزشتہ حکومت میں فی کلوگرام بڑی الائچی 1500 روپے تھی جو اب بڑھ کر 2050
روپے ہوگئی ہے۔ اسطرح بڑی الائچی کی قیمت 37 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ فی
کلوگرام لونگ کی قیمت 35 فیصد اضافے سے 1350 روپے، سفید زیرے کی قیمت 43
فیصد اضافے سے 400 روپے فی کلو، چاول ایک نمبر 38 فیصد اضافے سے 110
روپے،آلو 67 فیصد اضافے سے 25 روپے فی کلو گرام ہوگئی ہے ۔سیاسی و مذہبی
جماعتیں بھی اس مہنگائی پر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو
مسترد اور اس کیخلاف شدید احتجاج کر تے ہوئے۔ حکومت پر شدید تنقید کر رہے
ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت اور عوام کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ (ن)
مہنگائی کی ’’چیمپئن‘‘ بن چکی ہے۔ عمران خان اس مہنگائی کا ایک اور ہی سبب
بتاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب تک حکومت اشرافیہ سے ٹیکس نہیں لیتی تب تک
عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالتی رہے گی، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے، ملک کی
آمدنی 2 ہزار ارب اور خرچ ساڑھے 3 ہزار ارب روپے ہے، ان 2 ہزار ارب میں سے
1300 ارب روپے تو قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور باقی فوج کو چلا
جاتا ہے جس کے بعد ملک کو چلانے کے لئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں۔عمران خان
کہتے ہیں کہ ڈالر 105 روپے ہو چکا ہے تو مہنگائی تو لازمی بڑھے گی، انہوں
نے کہا کہ گزشتہ 2 سے 3 سال میں عام آدمی کے گھر کے خرچ میں تین گنا اضافہ
ہو چکا ہے اور یہ مزید بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ بجلی مہنگی ہونے سے
مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا اہم کردار ہوتا ہے
اور کرپشن سے پاک حکومت ہی ملک میں مہنگائی ختم کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے
ایک مخلص اور ذمہ دار اپوزیشن ضروری ہے۔ مسلم لیگ نواز نے ہمیشہ پیپلز
پارٹی سے سمجھوتہ کئے رکھا۔ جس کی وجہ سے زرداری حکومت پانچ سال لوٹ مار
اور کرپشن کرتی رہی۔ اس صورتحال کا خمیازہ اب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
سید منور حسن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر عوام کی دکھتی رگ پر
ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت سے کسی بھی قسم کی امید رکھنے کا کوئی
فائدہ نہیں، مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے والے مزید مہنگائی کے لئے تیار رہیں۔
سینیٹرشاہی سید حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش اڑانے
والے اضافے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت نے
پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام پر کیمیائی بم گرایا ہے اس
ملک کی عوام جو کہ پہلے ہی مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، دہشتگردی ، بدامنی کا شکار
ہے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرکے عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھینی
جارہی ہے پیٹرولیم مصنوعات میں روز بروز ہونے والے اضافے نے عوام کی زندگی
اجیرن کردی ہے غریب طبقہ جوکہ پہلے ہی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہے
پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کا اثر براہ راست غریب اور متوسط طبقے پر پڑیگا
غریب آدمی کا جینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی سو دن بھی نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس نے
تیسری بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کو مہنگائی کی
چکی میں پیسنا شروع کر دیا ہے۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے
سے اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں مسلم لیگ
(ن) نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ خوشحالی لیکر آئیگی لیکن
سو دن میں عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے۔ بے رحم
مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے جبکہ حکمران اس مہنگائی کو گذشتہ
حکومت کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مئی کے الیکشن میں صرف
چہرے تبدیل ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا نام مسلم لیگ سے بدل گیا ہے۔ پالیسیاں
پہلے والی ہی جاری ہیں۔ عوام نے 11 مئی کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن)
کو پیپلزپارٹی کی عوام دشمن پالیسیوں سے تنگ ہو کر ووٹ دیئے تھے۔ تاکہ مسلم
لیگ اقتدار میں آ کر عوام دوست پالیسیاں بنائے لیکن حکومت کے ابتدائی سو دن
بتا رہے ہیں کہ حکومت عوام دوست پالیسیاں بنانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
نئی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ غریب ، کم تنخواہ
اور مزدور ی کرنے والے چھوٹے ملازمین کیلئے اب گھر کا چولہا جلانا ممکن
نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں ردوبدل عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق کیا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت
عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتیں پہلے والی سطح پر ہی برقرار ہیں۔ لیکن
حکومت اپنا منافع کسی طور پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ ماہ جولائی میں
مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جس کی اہم وجہ نئے بجٹ میں
سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بڑھنا
دیکھاگیا تھاجبکہ ماہ اگست میں بھی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں آگ لگی
رہی۔اگست کے مہینے میں اوسطً مہنگائی کی شرح 8.27 فیصد بتائی گئی۔جس کا
مطلب ہے کہ گزشتہ ماہ کے برعکس اگست میں بھی مہنگائی کی رفتار میں کوئی
تبدیلی نہیں ہوئی۔ کچھ ماہرین کے مطابق مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ
شرح 9 فیصد ریکارڈ کی جائے گی۔ جمہوری حکومتیں آنکھیں بند کیے ہوئے قرضوں
اور ٹیکسوں کی آمدنی پر اپنے پروگرام کے مطابق کام کرتی ہیں۔ وہ مڑ کر عوام
کی طرف دیکھتی ہی نہیں کہ اس مہنگائی نے عوام کا کیا حال کر ڈالا۔ عوام کی
طرف سے مہنگائی کے خلاف ہونے والے احتجاج، ہڑتالیں، ریلیاں، دھرنے، مشتعل
ہوکر گھیراؤ جلاؤ کرنے اور دیگر ایسے ہی نفرت و غصے والے عوامی ردعمل کا ان
پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔پاکستان کے عوام نے 66 سال میں کبھی سکون، امن، چین
اور خوشحالی نہیں دیکھی، بس اندھیرے ہی اندھیرے دیکھے۔ آئیے! ہم سب مل کر
عہد کریں کہ ہم مہنگائی کے جن کو قابو کریں گے اور ہمارے حکمران ایسا آئین
و قانون بنائیں گے جس سے مہنگائی کا تدارک ہوسکے۔ نیک نیتی، خلوص،
ایمانداری سے کام کیاجائے تو مطلوبہ حقائق کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا اور
مہنگائی کا خاتمہ بھی۔ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا کہ جب تک
حکومت ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں کرتی تب تک ملک کو تباہی کی طرف بڑھنے سے
نہیں روکا جا سکتا۔
وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
حالیہ اضافہ اوگرا نے کیا اور یہ ایک مجبوری تھی۔ وزیر پٹرولیم کا کہنا تھا
کہ اگر یہ قیمتیں نہ بڑھاتے تو اس کے دوررس منفی اثرات مرتب ہوتے۔ انہوں نے
کہا کہ حکومت نے اوگرا کی تجویز کے باوجود ڈیزل کی قیمتوں میں آدھا اضافہ
کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا فارمولا ہم نے نہیں
بنایا، کئی برسوں سے رائج ہے، حکومت کے مالی معاملات ایسے نہیں کہ تمام
سبسڈی خود برداشت کر لیں۔ پنجاب اسمبلی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافے کیخلافاپوزیشن نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔ اپوزیشن نے نشستوں پر کھڑے
ہوکر وفاقی حکومت کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔ اپوزیشن ارکاننے احتجاجاً
ایوان سے واک آوٹ کے بعد پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر حکومت کیخلاف احتجاجی
مظاہرہ کیا اور وفاقی حکومت سے پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ فوری طور پر واپس
لینے کا مطالبہ کیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافے کیخلاف سینٹ اور قومی اسمبلی میں تحاریک التوا جمع کرا دی ہیں جبکہ
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ طور پر پٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف مذمتی قرار داد جمع کروائی گئی۔ عوام
اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اتنا اضافہ تو پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور
میں نہیں ہوا جتنا مسلم لیگ (ن) نے 90 دنوں میں کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافے کیخلاف اپوزیشن جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز
پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے ارکان کی جانب سے تحاریک
التواء جمع کروا دی گئیں ہیں۔ اپوزیشن ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے تیل
کی قیمتوں کے حوالے سے عوام کو ریلیف نہ دینے کے حکومتی اعلان تک اپوزیشن
جماعتیں دونوں ایوانوں میں شدید احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔ اپوزیشن کی
جانب سے اس سلسلے میں پارلیمانی کارروائی نہ چلنے دینے کا اور اس میں رکاوٹ
پیدا کرنے کا بھی خدشہ ہے۔ ادھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے
کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔ اس وقت پاکستان کی عوام
معاشی چکی میں بری طرح پس رہی ہے ، غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے
۔غریب خط غربت سے کہیں نیچے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بڑھتی
ہوئی مہنگائی ، بجلی گیس، پیٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں کے بوجھ نے عوام کا
کچومر نکال دیا ہے۔ سو دن میں جنرل سیلز ٹیکس کی اضافی شرح سے حکومت نے
ڈیڑھ ارب ڈالر کی ٹیکس آمدنی حاصل کی ہے، اور سال کے آخر تک یہ آمدنی چھ
ارب ڈالر تک بڑھنے کا اندازہ کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں ٹیکس نیٹ میں امیر
نہیں غریب ہے۔ ایک غریب شخص بھی جتنی مرتبہ ماچس، گھی، آٹا، مرچیں، نمک اور
اس طرح کی گھریلو اشیاء خریدتا ہے اتنی مرتبہ ٹیکس ادا کرتا ہے کیونکہ ان
تمام اشیا پر ٹیکس عائد ہوتا ہے جو حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے جس کا بوجھ
عوام کے کندھوں پر پڑتا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے نے ان پر
مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ ایک متوازن معاشی نظام میں اس بات کی ضرورت شدت سے
محسوس کی جا سکتی ہے کہ حکومت پہلے اپنی کارکردگی بہتر بنائے۔ عوام کے
روزگار، ضروریات زندگی کی ارزاں فراہمی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی حکومت
کا اولین مقصد ہونا چاہئے لیکن حکومتی اقدامات سے نہ صرف غریب طبقہ پر
مہنگائی کا بوجھ تناسب سے کہیں زیادہ بڑھتا نظر آتا ہے بلکہ بے روزگاری میں
بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
پاکستان کے دوسرے شہروں اور صوبوں میں اس غربت مہنگائی کا جو حال ہو سو ہو،
لیکن سندھ میں کراچی ان دنوں بدترین خونی دور سے گذر رہا ہے، تاجر بھتے سے
پریشان ہیں اور عوام روز روز کی قتل غارت گری سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ کراچی
جسے ملک کی معیشت میں شہ رگ کا درجہ حاصل ہے۔ اب تباہ حال ہے۔ یہاں کے تاجر
سب سزیادہ پریشان ہیں۔ گذشتہ دنوں آل کراچی تاجر اتحاد کا اجلاس میں فیصلہ
کیا گیا کہ تاجر برادری حکومت سندھ کی گمشدگی کا اشتہار اخبارات میں
چھپوائے گی کیونکہ گزشتہ 5 سال سے تاجر بھتہ خوری، قتل و غارت غاری، اغوا
برائے تاوان، دہشت گردی، بم دھماکوں اور تخریب کاری کے واقعات کا شکار ہیں
جس سے نہ صرف ان کا بلکہ شہر اور ملک کا نقصان ہو رہا ہے لیکن پولیس اور
حکومت سندھ کی جانب سے کئے گئے دعوے کارآمد ثابت نہیں ہوسکے اور حکومت سندھ
کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔
تاجروں کا کہنا تھا کہ بازاروں میں کاروبار بند ہو گیا ہے اور ہر طرف خون
کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، پولیس اور رینجرز بے بس اور بے اختیار نظرآتی ہے
اور حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ کراچی جو کہ پورے ملک کی شہ رگ
ہے میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں، گزشتہ 10 روز میں سے صرف
6 روز کاروبار ہوا اور ہمیں 4 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ شائد اسی
لئے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کراچی آئے۔ اور اس دعوی کے ساتھ آئے کہ ،،
میں امن قائم کرنے کے لئے آیا ہوں۔ بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے
حکومت کو طاقت استعمال کرنا پڑے گی۔ ،، انھوں نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت
بھی کی۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صوبے
میں دوسری پارٹی کی حکومت ہے۔ قیام امن کے لئے وفاق ہر طرح کا تعاون فراہم
کرنے کے لئے تیار ہے اور تیار رہے گا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے دہرایا کہ
کراچی پاکستان کا اہم شہر اور تجارتی مرکز ہے۔ میرا کراچی آنے کا مقصد یہ
ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جائے اور اس امر پر اتفاق
رائے پیدا کیا جائے کہ کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کیسے آگے بڑھا
جائے تاکہ یہاں لوگوں کو امن و سکون حاصل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت
گردی اور امن و امان سمیت پاکستان کو کئی مسائل درپیش ہیں۔ دہشت گردی کے
خاتمے کے لئے حکومت کو اپنی طاقت استعمال کرنی پڑے گی۔ اقتصادی مسائل کے حل
کے لیے بھی حکومت کو اپنی بھرپور صلاحیت استعمال کرنی ہو گی۔ انہوں نے کہا
کہ بدامنی میں کوئی بھی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ امن نہیں ہو گا
تو ہم کس طرح ترقی کر سکیں گے، کس طرح بیروزگاری کو ختم کر سکیں گے اور
کہاں سے پیسہ لے آئیں گے جو سب معاملات کو ٹھیک کر دے۔ امن اور ترقی دونوں
لازم و ملزوم ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس کئی آپشن موجود ہیں۔
قوانین میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کون آپریشن کریگا، رینجرز اگر آپریشن
کرے گی تو اس کو کیا اختیارات دئیے جائیں اور پولیس کا کیا کردار ہو گا
لیکن ہم چاہتے ہیں کہ سب ملکر ایک ساتھ چلیں اور کوئی الگ الگ راستے اختیار
نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ میرا صرف ایک ہی مقصد پہلے کہ کراچی کو کس طرح
پرامن شہر بنایا جائے اور اسکی روشنیاں واپس لائی جائیں کیونکہ روشنیاں
واپس لانا ازحد ضروری ہے۔ نوازشریف کی یہ خواہشات اپنی جگہ لیکن یوں محسوس
ہوتا ہے کہ انھوں نے ماضی کے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا، وہ اب بھی ماضی میں
جی رہے ہیں۔ ان کے پاس حالات کی تبدیلی کا کوئی بلیو پرنٹ اور آگے بڑھنے کا
کوئی نقشہ نہیں ہے۔ صرف جمہوریت سے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ ایک اچھی
خود مختار فعال اور شفاف حکومت عوام کے اعتماد کو بحال کر سکتی ہے اور
اعتماد سازی کے لئے اقتصادی نظام کی درستگی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ
معاشی ترقی کے مواقع غریب اور امیر کے لئے یکساں ہوں اور غریب آدمی پر سے
مہنگائی اور ٹیکس کا بوجھ کم کرکے قومی آمدنی میں اضافے کے نئے ذرائع پیدا
کئے جائیں۔ ہمیں صنعت اور زراعت پر زیادہ انحصار کی ضرورت ہے۔ عوام کو دو
وقت کی روٹی چاہیئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ غربت کے خاتمہ کے مسئلہ کو
ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے اور تیز رفتار معاشی ترقی کے منصوبے بنائے جائیں۔
اﷲ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہر نعمت سے نوازا ہے، بس ان سے استفادہ حاصل کرنے
کی ضرورت ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا آسان نہیں،
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف قسم کی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ لیکن ایسا
بھی نہیں ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنا ناممکن ہے۔ سب سے پہلے تو حکومتی
اخراجات کم کیے جائیں اور سادگی اپنائی جائے اور جتنے بھی اقدام اس مسئلے
کے حل کے لیے اٹھائے جائیں ان پر ’’عمل درآمد‘‘ یقینی بنایا جائے، محض
کاغذی کارروائی کرکے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مہنگائی سے چھٹکارا اسی وقت
ہوسکے گا جب ایک مضبوط اور جامع معاشی پالیسی تشکیل دی جائے۔ |