حسن مرتضیٰ
امریکہ یورپ کی اسلام دشمنی اور مسلم کشی کی داستانیں کوئی خفیہ راز نہیں
ہیں۔ قرآن مجید میں صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ ’’یہود و نصاریٰ
تمہاری دوست نہیں ہوسکتے‘‘ اس کے باوجود غلامان امریکہ و یورپ اﷲ پر بھروسہ
کرنے کی بجائے بقول شاعر
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب بڑے بڑے پڑھے لکھے بربریت کا لفظ استعمال کرتے ہیں
حالانکہ بربر ایک عظیم اور بہادر مسلم نسل تھی اس نسل نے انسانیت پر مظالم
نہیں ڈھائے جتنے امریکیت کے ہاتھوں انسانیت مسلسل لہولہان ہے۔ پہلا ایٹم بم
بھی امریکہ نے تیار بھی کیا اور استعمال بھی کیا۔ عراق میں مسلمانوں کے قتل
عام کے بعد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ اب اسرائیل کو بچانے کے
لئے شام اور حزب اﷲ کو نشانے پر لیا جا رہا ہے جس کے لئے بھیڑیے اور بھیڑ
جیسے مکالمے سامنے آ رہے ہیں جبکہ کچھ اسلامی ممالک امریکی ایجنٹی میں آخری
حدیں پار کررہے ہیں۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت ہونے کے علاوہ
اپنی جمہوری روایات پر فخر کرنے والا ملک بھی ہے۔ تاہم اب ایک ممتاز امریکی
اخبار واشنگٹن پوسٹ میں بعض ایسی انتہائی خفیہ دستاویزات کا انکشاف کیا گیا
ہے جن کی رو سے امریکی جمہوریت میں ’بلیک بجٹ‘ کا ایسا عجیب و غریب پیوند
لگا نظر آتا ہے جس نے یہ سوالات ضرور پیدا کئے ہیں کہ اس جمہوریت میں خلوص،
محبت، دوستی اور وفاشعاری کی کہاں تک گنجائش ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے
اپنے قیام کے وقت سے امریکی دوستی کا دم بھرا، اور اس کے بدلے میں اسے
سوویت یونین کی طرف سے پشاور کے نقشے پر سرخ لکیر کھینچے جانے کی دھمکی اور
بعدازاں ماسکو اور نئی دہلی کی ملی بھگت سے ملک کا مشرقی بازو عملی طور پر
الگ کئے جانے کا سانحہ برداشت کرنا پڑا، افغانستان میں سوویت فوجوں کی
مداخلت کے بعد کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کا عذاب اور لاکھوں افغان مہاجرین
کا بوجھ اب تک برداشت کرنا پڑرہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں
نمایاں کردار کے باعث القاعدہ کے اعلان جنگ کا ہدف بن کر دنیا کے ہر ملک سے
زیادہ قربانیاں پیش کی ہیں مگر حال ہی میں افشا ہونے والی بلیک بجٹ نامی
دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن نے اس اتحادی ملک میں ہی دنیا کا
مہنگا ترین اور وسیع جاسوسی نظام قائم کیا ہے، نئے سیل بنائے ہیں اور اس کے
ایٹمی پروگرام کی نگرانی پر غیرمعمولی توجہ دے رہا ہے۔ امریکی حساس اداروں
میں ایک بڑے شعبے کے قیام کا مقصد ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں خامیوں
کا پتہ چلانا ہے۔ جہاں تک پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر امریکہ اور بعض مغربی
ممالک کے تحفظات کا تعلق ہے، ان خدشات کا مختلف انداز سے اظہار بھی کیا
جاچکا ہے کہ یہ اثاثے شدت پسند عناصر کے قبضے میں جاسکتے ہیں۔ ماضی میں
ایٹمی اثاثوں کی تلاش کے حوالے سے کئی کوششیں بھی کی گئیں، ہولناک زلزلے
اور بعدازاں بدترین سیلاب کے دوران امدادی کاموں کی آڑ میں بعض جاسوسوں کی
آمد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ ان کے باوجود امریکی دستاویزات میں
پاکستانی وارہیڈ کی جگہ معلوم نہ ہونے کا اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ
ہمارے ایٹمی اثاثے پوری طرح سے محفوظ ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے درست
طور پر اس بات کی نشاندہی کی پاکستان کی ایٹمی ڈھال جنوبی ایشیا میں
علاقائی استحکام قائم کرنے کا ذریعہ ہے جبکہ اسلام آباد کیمیائی و حیاتیاتی
ہتھیار استعمال نہ کرنے کے معاہدوں پر سختی سے کاربند ہے۔ اس اعتبار سے اگر
’’بلیک بجٹ‘‘ میں دنیا کو جاسوسی کے مقاصد کے لئے اہمیت کے اعتبار سے دو
کیٹگریز میں تقسیم کرکے ایک کیٹگری میں پاکستان کو رکھا گیا ہے اور دوسری
کیٹگری میں کرہ ارض کے باقی ممالک رکھے گئے ہیں تو اس کو کیا نام دیا
جاسکتا ہے؟ اسی طرح جب ان خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں موجود
شدت پسند کیمیائی ہتھیار بنا سکتے ہیں تو اس بات کو افغانستان، عراق اور
شام کے حوالے سے ماضی میں سامنے آنے والے ایسے ہی الزامات سے الگ کرکے
دیکھنا دانشمندی کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ حکومت کو واشنگٹن سے ان معاملات
پر کھل کر بات کرنی چاہئے اور اپنا نقطہ نظر واضح کرنا چاہئے کیونکہ ماضی
کے واقعات بتاتے ہیں کہ بلیک بجٹ جیسی دستاویزات کا انکشاف اتفاقیہ امر
نہیں ہوتا۔ ان کے پیچھے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ بات بہرحال نظرانداز نہیں
کی جانی چاہئے کہ واشنگٹن 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں جنوبی کوریا اور
جاپان کی طرح اپنی موجودگی برقرار رکھنا اور ڈرون حملوں اور جاسوسی پروازوں
کے ذریعے اس موجودگی کا اظہار کرنا چاہے گا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ واشنگٹن
ایک جانب وزیرستان میں فوجی کارروائی کے لئے دباؤ ڈالتا ہے، دوسری طرف ڈرون
حملے کے ذریعے طالبان سے پاکستانی حکومت کے مذاکرات کو سبوتاژ کرتا ہے اور
تیسری جانب پاکستانی سیکورٹی حکام پر شدت پسندوں کے ماورائے عدالت قتل کا
الزام لگاتا ہے۔ ان باتوں کا مقصد حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے علاوہ ریمنڈ
ڈیوس جیسے ایجنٹوں کی قتل و غارت گری کو جواز فراہم کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ
منظرنامہ ہے جس میں موجودہ حکومت کو اپنی قومی سلامتی کی جامع اور محتاط
حکمت عملی پر آگے بڑھنا ہے ۔ |