باری سب کی،شکوہ کس سے؟

مشہور ضرب المثل ہے کہ جب چیونٹی کی موت آتی ہے تو اس کے پر نکلتے ہیں جبکہ دوسرا محاورہ ہے کہ جب ہاتھی کی موت آتی ہے تو اُسے چیونٹی نظر نہیں آتی،چیونٹی کے حوالے سے ایک اور بات بھی مشہور ہے کہ جب چیونٹی غصہ ہوتی ہے تو اپنے دم پہ ڈھنک مارتی ہے۔سننے میں آیا ہے کہ چنگیز خان اس طرح کے محاوروں کو نہ صرف زبانی یاد کرتا تھا بلکہ ان محاوروں کی فلسفے کا ادراک رکھتے ہوئے ان پر عمل کر کے دشمن پر غالب بھی رہتاتھا۔مگر چنگیز خان نے بغداد پر حملہ کرنے میں سستی دکھای ،جبکہ ان کے ماہر جرنیل بھی انہیں جنگ کرنے پر آمادہ نہ کرسکے۔جب چنگیز خان نے یہ محسوس کیا کہ ان کے تجربہ کار کمانڈر مایوس ہونے لگے ہیں۔پھر چنگیز خان نے اپنے چیدہ چیدہ کمانڈروں کے ساتھ میٹنگ کی،اور کہنے لگا کیا مجھ سے زیادہ میدان جنگ کا کوئی شوقین ہے، کیا مجھ سے زیادہ بہادر اور جذباتی تم سے کوئی ہے؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا نہیں یہ ساری صفات ہم سب سے زیادہ آپ کے اندر موجود ہیں۔چنگیز خان جو بہت کم مسکرانے والا آدمی تھا لیکن وہ مسکرانے لگا۔اور کہا کہ کسی کے پاس کوئی اور ایسا محاورہ ہے جو مجھے نہیں بتایا گیا ہو۔ایسے میں چنگیز کے ایک کمانڈر نے کہا کے ہمارا ایک بہادر سپاہی ہے جو خواہش رکھتا ہے کہ آپ کو ایک اور محاورے سے آگاہ کیاجائے۔چنگیز نے حکم دیا کہ اسے ہمارے دربار میں حاضر کیا جائے، جب وہ دربار میں پہنچا تو اُس سے پوچھا گیا وہ کونسا محاورہ ہے جو آپ چنگیز خان کو بتانا چاہتے تھے۔ سپاہی نے کہا(ایک ایسا لذیز گوشت ہے مگر اسے حاصل کرنے کے لئے پہلے اسے گوشت کھلانا پڑتا ہے)یہ سن کر چنگیز خان نے زور سے قہقہ لگایا اور کہا کمبختو اگر پہلے بتاتے تو کب کا بغداد فتح ہوچکا ہوتا مگر اب آپ لوگ مطمعن رہیں بہت جلد بغدادپر غلبہ حاصل کریں گے۔چینگیز خان نے بغداد کے اہم اہم مولوی صاحبان کو دانہ ڈالنا شروع کیا دولت کی چمک دیکھ کر بہت سے علماء سو چنگیز خان کے لئے راہ ہموار کرنے لگے اور بغداد میں مسلکی بحث اور دوریاں پیدا ہوئیں حتیٰ کہ ایک دوسرے کے جان کے دشمن بن گئے۔جب چنگیز خان کے جاسوس نے انہیں خبر دی کہ اب آپ مچھلیوں کاگوشت کھا سکتے ہیں چونکہ آپ کے ڈالے ہوئے دانے نے کام کر دکھایا ہے۔اس کے بعد چنگیز خان نے بغداد پر وہ حملہ کیا کہ انسانی کھوپڑیوں کا مینار بنادیا اور اسلامی کتب کا ذخیرہ بھی نزر آتش کر ڈالا اور بغداد پاش پاش ہوگیا۔ آج بھی تاریخ میں چنگیز خان کا وہ حملہ ہماری عبرت کے لئے موجود ہے۔تاریخ عالم میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں۔مگر عبرت وہ لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو بیدار ہیں اور جو باوقار طریقے سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس معاشرے میں بھی لوگ اپنا کام نکالنے کیلئے اُس آفیسر ،وزیریا حاکم کی فرمائش پوری کرتے ہیں۔کسی کو شراب تو کسی کو شباب تو کسی کو کباب ہر جائز و ناجائز مطالبہ قبول کرتے ہیں تاکہ ان کا مقصد حاصل ہوجائے۔اسی طرح مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کے لئے دولت اور شہرت کے بھوکے علماء سو اور اعلیٰ ذمہ داران کا مطالبہ پورا کرکے انہیں اپنے عزائم کیلئے کارآمد بنایا جارہا ہے۔ہم ہمیں اس بات پر بھی یقین کم رہا کہ آیا ہم خود اپنے فیصلے کرنے کے قادر ہیں یا کسی اور طاقت کی اشاروں پر ہم ناچتے ہیں؟اب حالات کچھ اس نہج پہر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بات چھپی نہیں رہی وہ اس لئے کہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اسے دیکھ کر اندازہ لگانا اب مشکل نہیں رہا ہے۔پورا پاکستان لہو لہو ہے۔ پاکستان کے عبادت خانے شہید ہوچکے ہیں ہزاروں کلام پاک جلا کر خاکستر کیا جاچکا ہے،بچے بوڑھے،جوان، عورتیں، مرد، اولیاء کرام کے مزارات سے لے کر ملک کے حساس ادارے تک دھماکوں کی نظر ہوچکے ہیں۔ظلم بربریت نے چنگیز خان کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے، ہندوستان میں کہیں مسلمانوں کو مارا جاتا ہے یا کہیں اور غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیر مسلم اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑا چلا آرہا ہے، مگر پاکستان میں مسلمان خود اپنے مسلمانوں کی عبادت گاہیں بارود سے اُڑانے اور اُن کا خون بہانے کو بھی جائز قرار دیا جا چکا ہے۔ نہ سنی محفوظ،نہ شیعہ محفوظ، نہ اسماعیلی نہ دیگر اقلیتی برادری ۔ سب کو مارا جارہاہے۔اور کھلے عام واردات کو قبول بھی کیا جارہا ہے۔اسلامی جمہوریہ خداداد پاکستان کے بدن کے مختلف حصوں سے خون رس رہاہے ،زخموں سے چور چور ہے۔جبکہ مسلمان خود اپنے مسلمان بھائیوں کو کفر کا فتویٰ بہت پہلے ہی جاری کر چکے ہیں۔اب کس نے کتنے مارے لاشوں کی گنتی ہورہی ہے،ہم چیونٹی کی مانند اپنے دم پر ہی ڈھنک مارتے ہیں انجا م سے بے خبر۔جبکہ دوسری جانب حکمرانوں کی بے دریغ لوٹ مار اور بڑھتا ہوا اس طبقاتی نظام نے امیر اور غریب کے درمیان بہت خلا پیدا کیا ہے۔عین ممکن ہے کہ بہت سے لوگ حالات سے تنگ آکر بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں بیعت کریں یا خود ہی معاشرے سے بدلہ لینے لئے بندوق اُٹھائیں، منفی سوچ اور منفی قدم اب کوئی انہونی چیز نہیں رہی۔نہ ہم نے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے سنہرے اصولوں پر عمل کیا، نہ کلام پاک کو سمجھا، نہ اولیاء کرام کی طرز تبلیغ ، طرز زندگی کو اپنایا، نہ بانیان پاکستان کی طرح عمل کیا۔نہ بزرگوں کی بات مانی۔نہ کسی ضرب المثل پر غور کیا اور نہ تاریخ سے سبق سیکھنے کی زحمت کی ہے۔اب حالات اسلام، دین، رحم، ہمدردی، اخلاقیات اور انسانیت سے تبدیل ہو کر بوجہل و یزید کے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں۔چونکہ کئی دہائیوں سے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ دست گریباں ہورہے ہیں۔اب تاریخ کا خاموش مورخ بھی اسلام اور مسلمانوں کا موازینہ کر رہا ہے وہ یہ دیکھ رہا ہے آیا قرآن میں جو کچھ ہے وہ صحیح ہے یا مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ درست ہے بس یہ سمجھ لینا کہ اسلام اب چھن رہا ہے یعنی چھانٹی ہورہی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اپنے کردار کی بدولت سامراج، طاغوت جو بھی نام لیں اُن کا ہاتھ ہمارے شہ رگ تک پہنچ چکا ہے وہ اس لئے کہ موقع فراہم کرنے والے ہم خود ہی ہیں۔ترکی کو دیکھیں امریکہ کے لڑاکا طیارے شام پر حملہ کرنے کے لئے ترکی کے ائرپورٹ پر اتار دیا ہے اب علمی قصاب خانے میں اپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا مگر شکوہ کس سے چونکہ ہم اپنے ہاتھوں کھودے ہوئے کھڈے میں جارہے ہیں۔اب وقت کا شہنشاہ سامراج امریکہ ہمارے اندر اس قدر گھس چکا ہے کہ اب ہم اُس کی خیرات یا قرض کے بغیر جی بھی نہیں سکتے ہیں۔میں نے کچھ عرصہ قبل ’’امریکن تھنک ٹینک اور زمینی حقائق‘‘ کے عنوان سے پوری تفصیل کے ساتھ اور ان کی حکمت عملی ومحنت طلب جدوجہد کے حوالے سے آپ کوآگاہ کرنے کی معمولی سی کوشش کی تھی۔کہ امریکہ کس طرح ایک ایک کر کے مسلم دنیا کو تہہ وبالا کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کے اندر موجودہ صورت حال خانہ جنگی کی جانب لے جارہے ہیں۔میں روس یا کسی اور ملک کا شام جنگ میں کردار کے حوالے سے یا کیمیائی ہتھیاروں پر بات نہیں کرنا چاہوں گا، چونکہ امریکہ نے ماضی میں عراق پر بھی اسی بہانے سے حملہ کیا تھا جس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔اب امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت شام پر حملے کے لئے تیاری کے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے خدا نخواست یہ مضمون شائع ہونے تک وہ عمل کرے۔میں شروع سے کھلی اور بلا ججھک لکھنے اور بولنے والا آدمی ہوں۔ اب اس وقت عرب بہت خوش ہے کہ شام کے شیعہ مارے جائیں گے اور ہمارے اندر بھی بہت سے کنوئیں کے مینڈک خوش ہیں چونکہ ایران مردہ باد کے نعرے بھی ہمارے ہاں عام ہوچکے ہیں۔ سعودیہ کی طرح ایران نے امریکہ کی دلالی نہیں کی شاید یہ بات بہت سوں کو ناگوار گزرے۔جبکہ امریکہ کے اتحادی بھی اوباما کے اشارے کے منتظر ہیں۔جبکہ امریکہ کا پالتو کتا اسرائیل نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ایران کی جانب میدان میں سجا رکھا ہے۔اول تو خدا نہ کرے کہ جنگ ہوجائے کسی طرح یہ بلا ٹل جائے۔ اگر جنگ ہوجاتی ہے اس میں کون غالب اور کون مغلوب ہوگا یہ خدا جانے بظاہر جو نظر رہاہے وہ سب جانکاری رکھتے ہیں۔امریکہ کی ایک خاص حکمت عملی پہلے امریکہ نے طالبان سے مزاکرات بھی کی اور کر رہاہے،تاکہ ایک بار پھرامریکہ کو کرائے کے غنڈے مل جائیں۔افغانستان کی حالت بھی دگر گوں ہے۔اگر کسی کا حافظہ تیز ہے تو ضرور یاد ہوگا کہ بہت پہلے جب اوباما الیکشن کے میدان میں نہیں کودا تھا اُس دوران ایک بیان دیا تھا کہ’’ اگر میں کبھی برسر اقتدار رہا تو خانہ کعبہ کو بم سے اڑادوں گا‘‘اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ شام کی جنگ کی تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔یہ پورے مسلم امہ کی شام کی جنگ ہے یعنی دن کا اجالا کسی کے پاس نہیں ہوگا سب کی شام ہوگی۔اگر یہ صورت حال رہی تو ۔ایک حوالے سے یہ ایک اچھا موقع بھی ہے مسلمانوں کو اپنی طاقت دکھانے کا امریکہ خود بھی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا مسلم امہ ایک ہونگئے یا خاموش۔ جبکہ امریکہ کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس نے جہاں جہاں جتنا دانہ ڈالا ہے وہاں وہاں ان کے نمک خوار انہیں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کریں گے۔خدا نخواست سب خاموش ہوئے تو سب کی موت ہے۔ایران تو خاموش رہنے والا نہیں ہے چونکہ ایسے معاملات میں بے غیرت ہی خاموش رہ سکتے ہیں ایران تو ایک عرصہ سے فلسطین کی مدد کر رہا ہے جہاں کوئی شیعہ موجود نہیں یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے۔قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ اب ایک ایک ہو کر سب شکار ہونگئے، باری سب کی آنی ہے خواہ کوئی خوش ہوجائے یا ناراض۔جب ہم تماشا دیکھیں گے تو ہمارا بھی تماشا بنے گا۔امریکہ، برطانیہ، فرانس و دیگر اتحادی ایک ہو کر افغانستان میں بھی لڑ رہے ہیں او اب شام کی جنگ میں بھی ایک ساتھ ہیں۔افسوس اس بات پر ہے کہ غیر مسلم ، یکجا، کندھے سے کندھا ملا کر لڑ رہے ہیں۔ان کے مقابلے میں مسلمان ، جن کا خدا ایک، بنیؐ ایک، قرآن ایک، حج، روزہ، فروعات کے علاوہ تمام بنیادی عقائد ایک مگر بد بختی ان کی متحد ہونا تو درکنار ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن بنے ہوئے ہیں۔مسلمان ممالک میں جو جو تھوڑی بہت مذحمت کرنے والے ہیں ان سب سے نمٹنے کے بعد آخر میں سعودی عرب کا نمبر ہوگا۔جب تک تمام مسلم ممالک کو نیچا نہیں دکھاتا ہے تب تک عرب کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا مگراس قصائی کے چھری تلے نہ بکرے کی خیر ہے نہ بیل کی خیر ہے۔اب بھی تھوڑا سا وقت ہے ۔بہت کم وقت ،اس میں مسلمانوں نے غیرت اور بیداری کا ثبوت دیا تو امریکہ کی رسوائی بھی یقینی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا کرے ہمیں جلد از جلد ہوش آجائے اور پوری دنیا میں حقیقی اسلام کا پرچم، نام روشن ہو اسی میں ہماری بقاء ہے اور یہ امتحان کا وقت ہے پروردگا عالم اس کڑے امتحان میں ہمیں سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 3 Articles with 3002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.