97کراچی میں ایک بار پھر حکومت کی جانب سے جرائم پیشہ
عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ ہوااور وزیر اعظم پاکستان کے
مطابق458افراد نے کراچی کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور ان سنگین جرائم پیشہ
عناصر کے خلاف سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر سخت ترین کاروائی کی جائے
گی۔اس کے ساتھ ہی ڈی جی رینجرز کی جانب سے بھی بیان سامنے آیا کہ اگر سیاسی
جماعتیں" شور "نہ کریں تو صرف ایک ماہ میں کراچی کے حالات بہتر کئے جاسکتے
ہیں۔ان حالات میں آئی جی سندھ کی تبدیلی خبر جب منظر عام آچکی تھی توسندھ
حکومت کے ترجمان نے اسے سندھ کے معاملات میں وفاقی مداخلت قرار دیکر ایک
گرما گرم ماحول پیدا کردیا ۔ وفاق کی جانب سے تردید جاری ہوئی کہ ذوالفقار
چیمہ کو آئی جی سندھ نہیں بنایا جارہا۔ان حالات میں ایک بات تویہ ثابت
ہوگئی کہ جب سندھ کی مرضی کے بغیر آئی جی کی تبدیلی وزیر اعلی سندھ کو
منظور نہیں ہے تو ایم کیو ایم کیجانب سے کراچی میں فوج کی طلبی کے مطالبے
کو منظور کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔ حسب سابق بے گنا ہ انسانوں کی لاشیں
گرتی رہیں اور اعلی سطح پر ہونے والے اجلاسوں اور حکومتی رٹ کو مسلسل چیلنج
یا جاتا رہا۔ایک عام پاکستانی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے یہ ایک حیران
کن بات تھی کہ 458افراد کی وجہ سے ہزاروں انسان موت کی گھاٹ اتار دئیے گئے
، جبکہ کھربوں روپوں کا ملک کو مالی نقصان اس کے علاوہ ہوا۔کم از کم ایک
عام انسان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جس جماعت کی گذشتہ پانچ سال حکومت
رہی اور اب وہ بلا شرکت غیرے سندھ حکومت کی مالک ہے ،وہ سیاسی وابستگی کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے کس طرح غیر جانبدارنہ آپریشن کی کمانڈ کرے گی ۔خاص
طور پر جب نئی حکومت بنتے ہی ، محترم جناب وزیر اعلی سندھ جناح مزار پر
جانے کے بجائے قبرستان بھرنے والے لیاری گینگ وار کے عشائیے میں شرکت کرنے
پہنچ گئے۔بلا شبہ لیاری کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا ، اسے"
پیرس"بنانے کے دعوے بھی کئے جاتے تھے .۔لیکن جب سے لیاری میں مسلح گینگ وار
نے ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تو اس کے بعد کراچی کو اسی حالت میں
واپس پہنچا دیا گیا جب پاکستان کا قیام عمل آیا تو اس کا ریونیو اس قدر کم
تھا کہ ہندوستان کو یقین تھا کہ چند سال کے اندر ہی پاکستان معاشی طور پر
اس قدر مایوس و مجبور ہوجائے گا کہ وہ خود اکھنڈ بھارت میں شامل ہوجائے گا
۔لیکن صورتحال ملک دشمن عناصر کیلئے مکمل آئیڈیل نہ بن سکی اور کراچی میں
ترقی کا سنہرا دور شروع ہوا اور بتدریج کراچی نے پاکستان کو اپنے پیروں پر
کھڑا کرکے خود کفیل بنا دیا ۔کراچی کے کسی وزیر یا مشیر نے نہیں بلکہ بیرون
کراچی کے حکمرانوں نے فروعی مفادات، بد عنوانیوں سے پاکستان کو غیر ملکی
اداروں اور مالیاتی مافیاز کا غلام بنا دیا ۔آج بھی پاکستان کے ساتھ سندھ
کو کراچی ہی پال رہا ہے۔ لاکھوں گاڑیاں کراچی میں چلتی ہیں اور ان کے ٹیکس
کے پیسوں سے محلات و سڑکیں کئی اور بنتی ہیں۔قیام امن کیلئے1990ء سے رینجرز
بلائی گئی ہے۔ اس وقت 12500رینجرز اور ایف سی اہلکار کراچی میں موجود ہیں۔
لیکن انھیں پانی فروخت اور واٹر ٹینکروں کی رکھوالی ،سیاست دانوں اور دیگر
معروف شخصیات کیلئے سرحدوں کی حفاظت کرنے والی فورس کو چوکیداری پر لگا
دیا۔ایف سی فورس کو بنگلوں کے باہر باوردی چوکیدار بنا کر سیاست دانوں اور
اَپر کلاس طبقے کے دروازوں پر کھڑا کردیا گیا۔پولیس میں سیاسی بھرتیاں کرکے
سفارشی جماعتوں نے حکومت کے خرچ پر ذاتی فورس بنا لیں۔تھانے نیلام ہونے لگے
، پُرکشش عہدوں کے ٹینڈر کھولے جانے لگے۔تقرریاں من پسند نااہل افراد کو
دئیے جانے سے ریاست کا تمام توازن بگڑ گیا۔ہزاروں افراد سفارشوں اور رشوت
لیکر بھرتی ہوئے اور انھوں نے جھوٹ کے سہارے سب سے پہلے میرٹ کا قتل کرکے
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کی کھلی سر پرستی شروع کردی۔سرکاری محکموں میں
میرٹ کا قتل کرکے من پسند افراد بھرتی کئے گئے اور حکومتی انفرااسٹرکچر کو
کھوکھلا کردیا گیا۔بے امنی کی زد میں عوام آئے اور چند افراد کی گرفتاری
کیلئے فورسز کو چھوٹی بڑی آبادیوں میں غیر اعلانیہ کرفیو لگا کر محاصروں
میں گھر گھر تلاشی لینے پڑی۔جرائم پیشہ افراد کو پہلے ہی اطلاع مل جاتی اس
لئے وہ باآسانی فرار ہوجاتا ، لیکن بے گناہ عوام کو تکلیف دہ مرحلے سے
گذرنا پڑتا ہے۔دوہرے عذاب کے شکار عوام ، ایک طرف بے امنی ، قتل وغارت ، تو
دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے محاصروں اور سرچ کے
مرحلے میں اذیت سے گذرتے ہیں۔ڈی جی رینجرز کی جانب سے ایک ماہ میں کراچی
میں امن لانے کا دعوی عملی ہوسکتاہے لیکن اس کیلئے حکومت کو سب سے پہلے
پولیس کے ادارے میں آپریشن کرنا ہوگا۔سیاسی و سفارشی بھرتیوں کو ایک طرف
رکھ کرمخلصانہ نیتوں کے ساتھ شفاف ادارہ بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ پولیس کے
اعلی عہدوں پر سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہوگا ۔جب پولیس کا آئی جی اُس
وزیر اعلی کی جانب سے تعینات و ہٹایا جاتا ہو جو کسی سیاسی جماعت سے تعلق
رکھتا ہے تو یقینی طور پر اس کے مفادات بھی اُسی حکمراں جماعت سے وابستہ
ہونگے اسکی ترجیحات بھی اُسی حکمراں جماعت کا منشور ہوگا ۔ وہ آزادنہ
اختیار کا مالک ہی نہیں ہوسکتا۔جس طرح عدلیہ میں کسی جسٹس کے خلاف یا تقرری
کرنے کیلئے کمیشن موجود ہیں جو حکومتی دباؤ کے بغیر فیصلہ کرنیکا آئینی حق
رکھتے ہیں تو اسی طرح پولیس میں بھی اصلاحات لانا ہونگی۔کراچی میں ایک ماہ
تو کیا ، ایک ہزار سال میں بھی موجودہ پولیس سسٹم ہوتے ہوئے امن قائم نہیں
کیا جاسکتا۔1992ء کے آپریشن میں پولیس کے کردار کو بہت سراہا جاتا ہے لیکن
ملکی و غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس طرح 92ء کے کراچی آپریشن میں
پولیس کے کردار پر کھلی تنقید کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ 1993ء سے
1996ء بے نظیر بھٹو حکومت اور پھر1992ء سے 1993ء اور پھر1993ء سے 1999ء تک
نواز شریف کی حکومت میں ماورائے عدالت سینکڑوں افراد قتل کئے گئے۔پھر اس کا
سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے کراچی کی صورتحال بد
سے بدتر ہوتی چلی گئی۔جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ، ناممکن ہے کیونکہ دو
کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے اس شہر میں پولیس کی تعداد نا کافی اور جدید
اسلحے کیساتھ مہارت اور ٹیکنالوجی کی کمی کا سامنا ہے۔پولیس اہلکار خود عدم
تحفظ کا شکار ہیں۔کم تنخواہوں اور سیاسی وابستگیوں کی بنا ء پر ان کی تمام
تر توجہ کم وقت میں زیادہ دولت کمانا رہ گیا ہے اور انھیں اس بات سے کوئی
عار نہیں ہے کہ اس کیلئے وہ کون سے ذرائع و اسباب اختیار کرتے ہیں۔قانون کا
ڈر، رشوت کا سانپ نگل چکا ہے۔وقتی طور پر کراچی کے مسئلے کے حل نکلے گا
کیونکہ آپریشن کا نام سنتے ہی اور میڈیا کے گلے پھاڑنے سے کیا کوئی مجرم
کراچی میں موجود ملے گا ۔؟ یہ خام خیالی اور ماضی کی وہی پرانی روش ہے جو
اب دوبارہ اختیار کی گئی ہے۔لیکن دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی ایک نئی فورس
کے قیام کا اعلان ضرور خوش آئند ہے۔ لیکن ملکی سیاسی رواج ہی ایسا ہے کہ
جیسے پنجاب میں ایلیٹ فورس بنا کر انھیں چوکیداریوں پر لگا دیا تو اس حکومت
سے کیا بعید ہے کہ جو سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوانوں کو پانی کی
چوکیداری و فروخت کرنے کے کام میں لگا کر حقیقی معنوں میں قیام امن کا کام
نہیں لے سکی۔انسداد دہشت گردی فورس میں جتنی بھرتیاں کیں جائیں انھیں سیاسی
اثر و رسوخ سے دور رکھا جائے۔انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد دس کرنا
اچھا قدم ہے لیکن گواہوں کو تحفظ کی قانون سازی اور سزاؤں پر عمل درآمد ہی
اہم قدم ہوگا۔پولیس حکام و اہلکاروں کی تطہیر اور نئی قانون سازی کرکے
پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر آزاد ادارہ بنایا جائے۔غیر مقامیوں کی
بھرتی پر پابندی لگا ئی جائے۔پاک فوج کے ادارے میں جوانوں اور افسران کی
تربیت کا جو عمل ہے اسی طرح پولیس کیلئے مراعات کے ساتھ نافذ کیا
جائے۔پولیس کو بھی وہی مراعات دیں جائیں جو فوج کو دیں جاتیں ہیں۔پولیس کی
تطہیر کے عمل میں سیاسی انتقام شامل نہ کیا جائے۔پولیس عوام کی حفاظت کرنے
کیلئے معمور ہے لیکن بد قسمتی سے پولیس کی حفاظت اب خود پولیس کو کرنا پڑ
رہی ہے۔کراچی میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں تمام پولیس کو فوج کی طرح بنا
دو ، پھر کوئی امن کے لئے فوج کو طلب کرنے کا مطالبہ نہیں کرے گا۔بس جرائم
پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنے کیلئے یہی واحد حل ہے۔کراچی کے حالات بہتر کرنے
کیلئے چہرے ہی نہیں نظام کو بھی بدلنا ہوگا ۔ پولیس کا مورال بلند کرنا
ہوگا اور پولیس کو فوج کی طرح معاشرے میں اپنے لئے قابل عزت اعزاز و اعتماد
حاصل کرنے کیلئے پہلے خود میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔ |