نگہبان

پاکستان امن کا جس قدر خواہاں ہے ۔ ملک دشمن قوتیں اُسی قدر اس کے خلاف سازشیں کرتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ جو پاکستان کے دوستی ترانے پڑھنے میں مصروف رہتا ہے ۔ اس کا اصل چہرہ پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں جاسوسی کا نظام کا راز افشا ہونے پر مزید کھل کر سامنے آچکا ہے۔ پاکستان کے تمام تر داخلی انتشار کے باوجود یہ قابل فخر بات ہے کہ پاکستان کے قیمتی ایٹمی اثاثوں تک امریکہ سمیت کسی بھی ملک کی رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل ان اثاثوں کی حفاظت جس طرح کی جار ہی ہے وہ ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔اسی طرح عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کیلئے جس طرح افغان سرزمیں کو استعمال کیا اور لاکھوں انسانوں کو اپنی مفادات کی بھینٹ چڑھایا وہ بھی ایک قابل مذمت سیاہ تاریخ ہے جیسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔قابل افسوس مقام یہ ہے کہ پختون بیلٹ کو انگریز سامراج نے تقسیم کیا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ اُس نے پختون قوم کو تقسیم کرکے اہم کارنامہ انجام دیا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی اور ہے۔لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ پختون کو اسلام کے نام پر استعمال کرنے کی روش موجودہ نہیں بلکہ سینکڑوں سال سے پختون قوم کو اسلام کے نام پر استعمال کیا گیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اسی وجہ سے جب تقسیم ہندوستان عمل میں آیا تو انتہا پسند ہندؤوں کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کو ختم کرنے کیلئے اگر افغانستان کو ساتھ ملا لیا جائے تو ان کے اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔اسی لئے افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ کسی نہ کسی سبب کشیدہ رہے اور اب بھی بعض تجزیہ نگاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ پاکستان پر افغانستان سے حملہ کیا جاسکتا ہے اور امریکہ جانے سے پہلے پاک، افغان عوا م کو خانہ جنگیوں میں جھونکنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے امریکہ کا ایک بڑا واضح کردار سامنے ہے کہ جب وہ خود طالبان سے مذاکرات کرتا ہے تو اس کے قصیدے فرش تا عرش پڑھتا ہے ، لیکن جب یہی پاکستان امریکی جنگ کے سبب ، اپنے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کسی گروپ سے مذاکرات کرتا ہے تو اس کے امن کی راہ میں رکاؤٹ ڈالنے کیلئے کبھی افغان بارڈر تو کبھی ڈرون حملے کرکے پورے عمل کو سبوتاژ کردیتا ہے۔حقیقت کے آئینے میں اصلیت کا چہرہ دیکھنے سے اور تلخ حقیقت دیکھانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔خال خال لوگ ہی سچ سننے اور پڑھنے کی ہمت جُتا پاتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھے اپنے دین اسلام اور اپنی قومیت اٖفغان(پختون) ہونے پر فخر ہے۔لیکن پختونوں کے خلاف جس قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں باقول "حاوی اعظم"آپ اندھے کو اندھا ، جُھوٹے کو جُھوٹا،نائی کو نائی،تَرکھان کو ترَکھان یا طوائف کو کہہ کر دیکھ لیجئے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے "اس لئے جب پختون کی خدمات اور صلاحیتوں کے برخلاف آرا ء پیدا کرنے کی کوشش کی جائیں تو اس کا جواب بھی اسی طرح دینا پختون کی سرشت میں شامل ہے۔
خدا کے قہر و غصب کا اگر خیا ل نہ ہو
مرے سوا مجھے کوئی ڈرا نہیں سکتا

یہاں اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے افغان،اغوان،اغان،پٹھان،پشتون یا پختون ایک ہی قوم کے لِسانی ، علاقائی ، جغرافیائی اور تاریخی بنا پر مختلف علاقوں میں کئی ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔یہاں مقصود پختون قومیت کے حوالے سے تعریفیں مقصود نہیں ہے بلکہ اس اہم معاملے کو زیر بحث لانا ہے کہ غیر مسلم ممالک ، خاص طور پر امریکہ لابی ، مسلم ممالک کو اپنے زیر نگیں رکھنے کی خواہش مند ہے،9/11کے بعد امریکہ کی جانب سے صلیبی جنگوں کا اعلان ان کی نیت کی غمازی کرتا ہے۔لیکن مسلم ممالک کی یہ حالت ہے کہ قدرتی دولت و معاشی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود محض ایک ٹیلی فون کی دہمکی پر ڈر نے کپکپانے لگتے ہیں۔جہاں مسلم ممالک کو امریکی بلاک اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے تو ان مسلم ممالک میں سب سے زیادہ خطرہ اسے پختونوں سے ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب کی آنکھوں میں پٹی باندھی جاسکتی ہے لیکن پختون کو اپنے زیر اثر رکھنے کیلئے ایسے لوہے کے چنے چبانا پڑیں گے۔اس کی چھوٹی سی مثال خود"اسلامی ممالک "کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت کی حامل فوجی قوت کے جنرل (ر) پرویز مشروف کا اپنی کتابIn The line of Fire اور 22ستمبر 2006ٗ امریکی دورے کے دوران اعتراف ہے کہ اسے امریکہ نے دہمکی دی تھی کہ اگرامریکہ کے بجائے طالبان کا ساتھ دیا تو پاکستان کو ملامیٹ کرکے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیگا۔جبکہ ایک پختون نے اپنی روایت کے مطابق امریکہ کے سب سے مطلوب شخص کو اربوں ڈالر کے لالچ اور پانچ سال جنگ کے باوجود حوالے کرنے سے انکار کیا ۔اقتدار اس لئے چھوڑ دیا کہ امریکہ نے جس طرح جاپان میں ایٹم بم گرا کر فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اسی طرح امریکہ اور نیٹو کی جانب سے نہتے افغانیوں پر"کلسٹر" بموں کی برسات تھی جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے اہم جاپانی شہروں کے عوام سے زیادہ پختونوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ایٹمی طاقت کے حامل جنرل کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے حالاں کہ افغانستان جیسا ملک جو روس کے جانے کے بعد ، خانہ جنگیوں سے معاشی طور پر تباہ حال ہوچکا تھا لیکن پختون نے اصولوں کے برخلاف اربوں ڈالروں کی پیش کش ٹھکرا دی لیکن صرف چند ہزار ڈالر کے عوض پرویز مشرف نے 600سے زائد پاکستانیوں کو امریکہ کے سپرد کردیا جبکہ حالیہ حکومت بھی اسی روش پر قائم ہے اور اس قوم کی بے قصور بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی تک نہیں چھڑائی جاسکتی ۔ آخر وہ کس منہ سے امریکہ کو کہے گا جب کہ خود اس نے اپنی عزت امریکہ کے ہاتھوں پامال کی ہو۔

2011؁ تک دنیا میں پختونوں کی تعداد بارہ کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ عربوں کے علاوہ دنیا بھر کے اسرائیلوں کی تعداد پختونوں سے کم ہے۔ افغان افغانستان سے کہیں زیادہ بر صغیراور دیگر ممالک میں آباد ہیں۔افغانستان سے زیادہ پاکستان اور پاکستان سے زیادہ بھارت میں بسنے والے افغان اُن افغانوں کے علاوہ ہیں جو کہیں زیادہ تعداد میں دنیا کے دوسرے ممالک میں بستے ہیں۔صرف پاکستان میں3کروڑ سے زائد پختون بستے ہیں جبکہ افغانستان میں ایک کروڑ ستائس لاکھ سے زائد پختون آباد ہیں۔پختون کے بودوباش کی خاصیت پانی کی مانند ہے اور وجود پتھر جیسا ہے۔ پانی اپنے وجود کیلئے ہر کہیں سے راستہ اوور جگہ بنا لیتا ہے اور پتھر ، چٹان یا پہاڑ کی صورت میں پانی سے بنے ہوئے بڑے سے بڑے سیلاب تند موجوں یا طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے۔منفی بیس سینٹی گریڈ ہو یا باون سینٹی گریڈ کی گرمی ، سنگلاخ پہاڑ ہوں یا سرسبز میدان یا پتھریلی زمین ، صدیوں کی سکونت ہو یا خانہ بدوشی ۔ پٹھان ہر جگہ ، ہر حالت میں یکساں رہنے کی سکت اور صلاحیت رکھتا ہے۔پٹھان معدودے چند اقوام میں سے ہے کہ جہاں جاتا ہے وہاں کی زبان سیکھ لیتا ہے۔مثال کے طور پر اردو کے بیسوں بڑے ادیب اور شاعر پٹھان ہیں مستثنات چھوڑ کر کوئی بتائے کہ اردو بولنے والا یا سندھی یا پنجابی ، پشتو زبان میں شعر یا کوئی سطر ہی بول دے۔برصغیر کے بیشتر اولیا کا تعلق افغانسان ، خصوصا غزنی سے ہے۔
بقول شاعر ۔۔
نہ زندگی کی ہے پروا ،نہ موت کا ڈر ہے
حَیات موت ہمارے لئے برابر ہے

پختون کو اس کی خداد داد صلاحیتوں کی بناء پر فوائد اور انسانی فلاح و بہبود کیلئے پیار سے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن زبردستی اس سے کلمہ بھی کوئی نہیں پڑھوا سکتا۔پختون بھائی چارے ، اخوت اور محبت سے اپنا حق تک دے سکتا ہے۔پختون قوم کسی قومیت کی دشمن نہیں ہے بلکہ ایسے بین الاقوامی سازش کا نشانہ بنا کر دنیا بھر میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔آئسولیٹ کا یہ عمل کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ صدیوں کی روایات اور تاریخ رکھنے والی دنیا بھر کے چپے چپے میں رہنے والی قوم اُس سرزمیں کو اپنی ماں مان لیتی ہے جو ایسے رزق فراہم کرتی ہو۔ پھر وہ پختون کسی بھی ملک کا شہری ہو اس کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے میں توقف نہیں کریگا ۔چاہیے(خدانخوستہ) افغانستان ، پاکستان پر حملہ کرے تو پاکستانی پختون صف اول کا سپاہی بن کر اپنی مملکت پاکستان کی حفاظت کریگا۔کیونکہ دنیا کا آدھا خطہ آریانا کے نام سے پختونوں کی سرزمیں ہی تھی اور میں استادمحترم حاوی اعظم سے مکمل متفق ہوں کہ افغانستان دل ہے تو پاکستان روح ، لیکن عزت ننگ ناموس پاکستان سے وابستہ ہے۔مقصد طالبان دوستی ،افغانستان سے دشمنی نہیں البتہ افغانستان کو پاکستان پر فوقیت دینے کا مطلب اپنے وطن کا وفادار نہ ہونا یا غدار ہونا ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 657969 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.