شام پر ممکنہ امریکی و مغربی یلغار، تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے

شام محل وقوع کے لحاظ سے مشر ق وسطی کے ممالک میں اہم حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی، اسرائیل ، عراق اور لبنان شام کے پڑوسی ممالک ہیں۔ شام کا کل زمینی رقبہ ایک لاکھ 86ہزار 4سو 75کلو میٹر ہے۔ 2012کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی آباد دو کروڑ 25لاکھ سے زائد ہے۔ جس میں59فیصد سنی مسلمان، 12فیصد شیعہ مسلمان، 10فیصد کرسچن اور دیگر قومیں آباد ہیں۔ شام تیل ، گیس اور زراعت کے شعبے میں خود کفیل ہے ، شام میں1970سے باتھ پارٹی اقتدار میں ہے۔ باتھ پارٹی کے حفیظ الاسد 1970سے2000ء تک شام کے صدر تھے۔ ان کی وفات کے بعد حفیظ الاسہ کے بیٹے بشار الاسد نے10جولائی 2000ء کو صدارت کے منصب پر فائض ہوئے، گزشتہ42سال سے یہ خاندان شام پر حکمرانی کر رہا ہے۔

2003ء سے شام اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی چل رہی ہے، کیونکہ 5اکتوبر2003کو اسرائیل نے دمشق کے قریب اسلامک جہاد کے ٹریننگ کیمپ پر حملہ کیا تھا، حالانکہ 1990کی گلف جنگ جو امریکہ نے صدام حسین کے خلاف لڑی اس میں شام امریکہ کا قریبی اتحادی تھا، دسمبر2003ء میں امریکی کانگریس نے شام کے خلاف ایک قرار داد پاس کی جس میں کہا گیا امریکہ دیکھ رہا ہے کہ کیا لبنان اور عراق میں شامی حکومت ملوث تو نہیں ، اگر ملوث پائی گئی تو شام پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی، امریکہ نے شام پر بیرونی دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ شام میں اندرونی انتشار کو بھی ہوا دی، آخر کار مارچ 2011ء سے بشار الاسد کی حکمرانی کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا باقاعدہ آغاز شروع ہوگیا۔ اپریل 2011ء کو شامی حکومت نے مخالفین کی بغاوت کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا اور اس طرح حکومت اور مخالفین کے درمیان مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں، جس میں روز بروز شدت بڑھتی چلی گئی، 2013ء میں حکومتی فوج اور باغیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ، جس میں حکومتی فوج کی مدد کیلئے حزب اﷲ بھی میدان میں اتر گئی، شامی فوج کو تقریباً 60فیصد رقبے پر کنٹرول حاصل ہے جبکہ شمالی اور مشرقی شام کے زیادہ تر علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہے، باغیوں کی حمایت شروع دن سے امریکہ کر رہا ہے ، امریکہ سعودی عرب ، قطر اور ترکی کے توسط سے بھرپور ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور مالی امداد بھی دہ رہا ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں شامی حکومت کو روس چین اور شمالی کوریا مالی اور عسکری امداد کر رہا ہے۔ اس خانہ جنگی کے باعث اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جولائی2013ء تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس میں زیادہ تر عام شہری شامل ہیں، جبکہ اب تک 40ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہوگئے ہیں۔ اس جنگ میں80ہزار سے زائد عوام بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ 15لاکھ شہری پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ان کشیدہ حالات کے تناظر میں عالمی طاقتیں مسلسل شامی حکومت پر دباؤ بڑھاتی جارہی ہیں کہ بشار الاسد اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں اور شام میں قومی حکومت بنائی جائے، عرب لیگ نے بھی شام کی رکنیت معطل کردی ہے۔ اس تمام صورتحال میں امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شدت اس وقت آئی جب اگست2013میں شامی فوج اور باغیوں کی لڑائی کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا اور ان عالمی طاقتوں نے شام کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور کہا کہ شامی حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر ہر صورت سزا دی جائیگی، فی الحال برطانوی پارلیمنٹ نے شام پر حملے کا امکان مسترد کردیا اور امریکہ سے کیمیائی حملے مزید ثبوت طلب کرلئے ہیں، لیکن فرانس اس معاملے میں بالکل اٹل ہے۔ فرانس کہتا ہے کہ وہ تنہا بھی شام پر حملہ کریگا، ماضی میں بھی فرانس پہلی جنگ عظیم کے بعد شام پر قابض رہ چکا ہے۔ شام اور فرانس کی بہت پرانی ٹسل ہے ، ا س ساری صورتحال میں پاکستان ، چین ، روس، ایران سمیت 20سے زائد ایشائی اور عرب ممالک نے عالمی طاقتوں کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کی سخت مخالفت کی ہے ان ممالک نے کہا کہ شام پر حملے سے مشرق وسطیٰ ایک نئے بحران میں مبتلا ہوجائے گا اور دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل دیا جائے گا۔ کیونکہ روس اور ایران نے شام کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے، روس نے یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ نے شام پر حملہ کیا تو وہ سعودی عرب پر حملہ کردیگا، اسی طرح ایران نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر شام پر امریکی حملہ ہوا تو وہ اسرائیل پر حملہ کردیگا، یعنی یہ جنگ چھڑ گئی تو پورے ایشیاء میں انارکی پھیل جائیگی، امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر بھی شام پر کسی بھی وقت حملہ کردیگا، امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام میں حکومتی مخالفین کی حمایت جاری رہیگی، کیمیائی حملہ انسانیت پر وار تھا ، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر کو کانگریس کی بھی مکمل حمایت حاصل ہوگئی ہے ، دوسری طرف شام نے اقوام متحدہ کے عالمی معائنہ کاروں کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیق کی اجازت دے دی ہے، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بانکی مون نے کہا کہ شام میں فوجی مداخلت کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے، لیکن امریکہ پر جنگی جنون سوار ہے ، بحیرہ عرب میں دو امریکی بحری بیڑے پہلے سے موجود ہیں جبکہ تیسرا بحری بیڑا بھی پہنچ چکا ہے۔ اس تمام صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہوئے اسرائیل بھی ہائی الرٹ کھڑا ہے اور اس نے شام کی جانب سے حملے کی صورت میں اپنا میزائل دفاعی نظام کو مکمل آپریشنل کردیا ہے۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان جنگ سے سبق نہیں سیکھا، افغانستان میں گزشتہ 12سالوں سے امریکہ لڑ رہا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا ، اگر امریکہ نے شام پر حملہ کردیا تو اسے تاریخ کی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑیگا اور معاشی طور پر امریکہ مکمل ختم ہوجائیگا، شامی نائب وزیر دفاع نے اپنے حالیہ بیان میں امریکہ کو خبر دار کیا کہ اگر امریکہ نے حملہ کیا تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائیگا، شام کبھی بھی ہار نہیں مانیگا، چاہئے تیسری عالمی جنگ ہی کیوں نہ چھڑ جائے۔

Changez Khan
About the Author: Changez Khan Read More Articles by Changez Khan: 2 Articles with 1826 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.