شام ،اسلام اورغیر مسلم عناصر۔۔۔!!

اسلامی تاریخ میں بادشاہوں، خلیفہ و وزرا ءکے بے شمار واقعات موجود ہیں انہی تواریخ میں ایسے بھی خلفاءاور سپہ سالار کے واقعات موجود ہیں جنھوں نے دنیا کو حقیقی معنوں میں زندگی کا مقصد حاصل کرنے کا عملی مظاہرہ پیش کیا اور بہترین ماحول و حالات بنائے تاکہ امن سکون کے ساتھ زندگی بسر کی جاسکے، ان عظیم ہستیوں نے مذہب اسلام کی ترویج کے ساتھ ساتھ نظام ریاست کا عملی اصول واضع کیاجو دین محمدی ﷺ میں پنہا ہے، ان عظیم شخصیات میں خلفائے راشدین جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربعد کے وہ سپہ سالار جنھوں نے ریاست کی ذمہ داری کو اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی تکمیل اور احکامات پروری کو اپنا نصب العین جانا اسی لیئے وہ آج پوری دنیا میں زندہ جاوید ہیں، ان میں سپہ سالار شمس الدین التمش، سلطان اعظم،سپہ سالار نورالدین زنگی، سپہ سالار طارق بن زیاد،سپہ سالار محمد بن قاسم خاص کر یاد کیئے جاتے ہیں جن کی دریادلی ، رحم دلی، عدل و انصاف اسلامی ضوابط پر مکمل کار بند تھاان سلاطین کے علاوہ مذہب اسلام کی ترویج اور ابلاغ کا کام صوفیائے کرام و مشائخ نے جس قدر احسن طریقے سے سر انجام دیئے ہیں وہ رہتی دنیا میں ہمیشہ قائم رہیں گے ،ان مشائخ نے درس و تدریس کے ساتھ روحانیت کو اجاگر کرتے ہوئے عشق اللہ اور عشق رسول کے جام سے مالا مال کردیا اور مسلم امہ کو یکجا کر کے ایک مضبوط قوم بنا ڈالاجہاں نہ کوئی فرق اور نہ کوئی فاصلہ حائل تھے، درحقیقت یہ سب ہمیں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کے مصداق کہ تمہاری مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی ایک عضو میں ٹیس اٹھتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔جب بھی کسی خطے سے کسی مظلوم مسلمان کی فریاد بلند ہوتی ہے تو یہ آواز پوری امت سنتی ہے خواہ کوئی مسلمان دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں ہی کیوں نہ رہتا ہو،یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کو وحدت کے حوالہ سے اتنی عظیم الشان اور مقدس قدریں حاصل ہیں کہ وہ ان کی بدولت ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیتی ہے جو کوئی دوسری قوم ہزاروں سال میں بھی نہیں دے سکتی، جب امت اپنے اصولوں پر راسخ تھی تو اس امت نے محض اسی برسوں میں دنیا کے ایک نہایت وسیع خطے پر وہ اثرات ڈال دیئے تھے جو اس سے پہلے روم کی شہنشاہت آٹھ صدیوں میں نہ ڈال پائی تھی پھر اسلامی فتوحات روم کی طرح استعماری عوامل کے زیر اثر بھی نہیں تھیں، حق یہ ہے کہ اسلامی قلمرو میں آنے والے خطے تاریخ میں پہلی بار آزادی سے روشناس ہوئے، اسلامی فتو حات غلامی سے آزادی کا پروانہ ہوا کرتی تھیں البتہ جب مسلمانوں کی جانب سے لوگوں کو آزادی کی فضاؤں سے روشناس کرنے کی بجائے ان سے وہی سلوک کیا جانے لگا جو بادشاہ اپنی رعایا سے کرتے ہیں تو اعداءان پر مسلط ہو گئے،دو صدیوں تک عالم افرنگ نے صلیبی جنگوں سے نہ صرف اسلامی پھیلاؤ میں رکاوٹ ڈال دی بلکہ کچھ ہی عرصے بعد تاتاریوں نے مسلمانوں کی عظمت خاک میں ملا دی اس کے بعد مسلمانوں نے دوبارہ ہدایت کی راہ اختیار کی تو ایک مرتبہ پھر انہوں نے اتنی قوت حاصل کرلی تھی جس کی وجہ سے صدیوں تک استعمار ان کے خطوں میں داخل ہونے کی جرات نہ کر سکا۔جب مسلمان اپنے مقدس اصولوں پر مجتمع تھے تو نہ صرف وہ دس صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی قوت رہے بلکہ علم و ترقی اور ثقافت میں بھی وہ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم تھے کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا کی تاریخ میں اگر’ فرسٹ ورلڈ ‘کی کوئی اصطلاح ہے تو وہ گزشتہ میلینم میں مسلمان تھے یہ وہی زمانہ تھا جس میں یورپ جہالت اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا،سقوط غرناطہ کے بعد مسلم خطوں پر مغربی استعمار کا آغاز ہوااس کے بعد نپو لین نے مسلمانوں کے مرکزی علاقوں پر حملہ کیا اور ایک کے بعد دوسرا خطہ استعمار کی جھولی میں گرتا چلا گیا، زوال کی انتہاءیہ ہوئی کہ عثمانی خلافت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا، کاش سقوط خلافت صرف سیاسی زوال ہوتا، مغربی استعمار نے نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کرلیاتھا بلکہ ان کے ہاں جو اجتماعیت کے گھٹیا اصول تھے، مانند وطن پر ستی، قوم پرستی اور دوسری نسلوں سے نفرت وغیرہ، یہ سب زہر امت کے جسد میں گھول دیئے گئے، مسلم امہ کی ذہنی ساخت تبدیل ہونے کے بعد وہ وحدت کے اصولوں سے نا آشنا ہو گئے اور ہر علاقہ، ہر خطہ اور ہر جغرافیائی وحدت صرف اپنی آزادی اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے لگی،اجتماعی شعور سے کوسوں دور اور گردو پیش سے تغافل برتتے ہوئے،مسلمانوں کی وحدت تو پہلے ہی دوسرے اجنبی شعاروں کی وجہ سے پارہ پارہ تھی اس پر مستزاد استعمار نے مسلمانوں کے مرکز اور مقدس مقام میں صہیونی ریاست کا ناسور کھڑا کردیا، امت مسلمہ کی وحدت اور شعوری بیداری کے امکان کو ختم کرنے کے لئے عالم اسلام کے وسط میں صہیونی ریاست کا وجود استعمار کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، عرب اتحاد ہو یا عالم اسلام کا اتحاد ہو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے ۔ یہاں یہ فراموش نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم پندرہویں صدی سے گزر رہے ہیںجبکہ احادیث مبارکہ میں چودہویں صدی کے بارے میں بہت زیادہ روشن اشارے موجود ہیں یہ وہ دور ہے جہاں نام نہاد مسلمان دین اسلام کو ، مسلم اُمہ کو ہر جانب سے نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنے نفس کی اطاعت میں اس قدر نکل پڑیںہیں کہ انہیں انسانیت تک کا احساس نہیں،آج وہ وقت ہم دیکھ رہے جب ایک مسلمان اپنے نفس کی حصول کیلئے تمام دینی احکامات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مشرکین و کفار کا ساتھ دینے پر زرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے، آج کا مسلمان بالخصوص کچھ سیاستدان اورمذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہ وہ یہودیوں، عیسائیوں ،بے دین اور بت پرستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھے ہےں اورذاتیات کی خاطرمسلمانوں کے گروہ اور امت محمدی کو نقصان پہچانے سے گریز نہیں کرتے بلکہ ان کے خلاف سازشوں میں سرگرم نظر آتے ہےں ،عراق ہو یا افغانستان، فلسطین ہو یا اب شام ان تمام مسلم ممالک کی ریاست کو تباہ کرانے میں پس پشت مسلم دنیا کے بڑے ممالک بھی شامل رہے ہیں۔مسلم جہادی تنظیمیں یا عسکری تنظیموں کی قوتیں ان سب کا کردار ہمیں شک میں مبتلا کردیتا ہے ،کیونکہ آج دنیا بھر میں اگر کہیں بم بلاسٹ ،دھماکے، خود کش حملے ہورہے ہیں تو وہ صرف اور صرف مسلم ممالک ہیں ہی کیوں۔۔؟؟ یہ سوال ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔۔۔۔!!پاکستان اور پاکستانی قوم خواب غفلت میں مبتلا ہے اتنی غفلت سہی نہیں کیونکہ کفار و مشرکین کبھی بھی مسلمان کے دوست نہیں ہوسکتے ہاں البتہ ان سے حکمتی مفاہمت اس طرح کی جائے کہ ان میںمسلم امہ کی سلامتی اور بہتری کا عملی مظاہرہ ہواور اپنی ذات اور نفس کی خاطر پوری قوم کو مصیبت و اذیت میں نہ جھونکا جائے ۔یاد رکھیئے دنیا کے تمام غیر مسلم ممالک کو پاکستان کی ایٹمی طاقت برداشت نہیں اسی لیئے امریکہ، اسرائیل ، برطانیہ اور بھارت نے دنیا بھر میں مسلم قوم کو دہشت گردپیش کرنے کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہی نام نہاد مسلمان اوربد ذات ایسے کچھ لوگ اور گروہ ہے جو ان کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے چند رقم کے عوض امت مسلمہ کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔۔ایران میں عوام اور حکمران کے اعتماد و اتحاد نے ان بیرونی مشرکین و کفار کی طاقتوں کو اپنے اندر داخل ہونے نہ دیا اور ایمان کی اس طاقت کی وجہ سے ایران نے دنیا کی سپر پاور امریکہ اور اس کے حواریوں کو چیلنج بھی دیا ، دنیا نے دیکھا کہ ان مشرکین و کفار نے ایران کا بال بیگا تک نہ کرسکے ۔۔ لیکن یہ بات قطعی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ طاقتیں ضرور بلضرور اسے کمزور کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی لومڑی کی چال چلتے رہیں گے لیکن اللہ کی نصرت انہی کو حاصل ہوتی ہے جو توکل اللہ رکھتے ہیں۔اب میں اپنے موضوع کی جانب آتا ہوں آج میرے کالم کا عنوان اورتحریر کا مرکز ملک شام ہے۔ شام میں جاری جنگ امریکا اور اس کے مخالفوں کی جنگ ہے، امریکا بشار کو ہٹا کر اپنا غلام ، پٹھو، خادم، ایجنٹ لانا چاہتا ہے اور روس، چین اور ایران ایسا نہیں چاہتے جبکہ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ اس وقت اسکو امریکا کا ساتھ دینا چاہئیے اور جب بشار کی حکومت گر جائے گی تو ترکی کسی مرسی قسم کے بندے کو لا سکتا ہے مگر روس اور ایران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکا کامیاب ہو گیا تو علاقے میں اسرائیل کے ذریعے امریکی تھانیداری کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ملک شام پر بھی باقی عرب حکومتوں کی طرح امریکی پٹھو بٹھا دے گا،یہ اختلاف نظر برا نہیں، جو بات بری ہے وہ جھوٹ کا سہارا لینا اور اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ بنا کر طاقت حاصل کرنا ہے، کیا روس اور چین شیعہ ہیں؟ کیا امریکا اور اسرائیل سنی ہیں؟ جماعت اگر فرقہ پرستوں کی راہ پر چلنا چاہتی ہے تو کوئی روک نہیں سکتا، مگر اس راہ پر انگور بہت کھٹے ہیں۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سمیت خلیج فارس کے بعض عرب حکمرانوں نے شام پرامریکی حملے کی حمایت کرتے ہوئے امریکہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شام پرامریکہ کی مسلط کردہ جنگ کا پورا خرچہ ادا کریں گے، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے روبرو انکشاف کیا کہ انہیں عربوں کی جانب سے شام پر حملہ کرنے کی پیشکش ہے اور وہ اس جنگ کا تمام خرچہ اٹھانے کا وعدہ کرتے ہیں، جان کیری نے بتایا کہ یہ پیشکش بہت اہم ہے جو باضابطہ طور پر کی گئی ہے ، ذرائع کے مطابق عربوں کی یہ سازش ان کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافقت اور خیانت کا نمایاں ثبوت ہے عرب کی خیانت یہ کہ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے بجائے اسلامی ممالک پر حملے کے لئے امریکہ کی مدد کررہے ہیں اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی،کیا عرب اسلامی ممالک پر یہودیوں کے حامیوں نے بلاواسطہ طور پر قبضہ نہیں کرلیا؟عربوں نے کرنل قذافی کو بھی مار گرانے میں امریکہ کا بھر پور تعاون کیا تھا عرب حکمراں ہر اس ملک کے دشمن ہیں جو اسرائیل کا مخالف ہے، لہذا خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے حکمراں امریکی اور اسرائیلی آلہ کار ہیں جو مسلمانوں کے سروں پر امریکہ کی طرف سے مسلط کئے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان عرب ریاستوں کی اسرائیل کی طرح بھر پور حفاظت اور حمایت کررہا ہے اور ان ریاستوں میں جمہوری نظام لانے کے خلاف ہے۔پہلی بار برطانیہ نے امریکہ کے اس معاملے پر اپنا در عمل ظاہر کیا اور اس سے شام پر ہونے والے حملے پر تعاون نہ کرنے کا عندیہ دیا ،برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ برطانیہ شام پرامریکی فوجی حملے کی حمایت نہیں کرےگا، ہیگ نے کہا کہ اس سلسلے میں برطانوی حکومت برطانوی پارلیمنٹ کی پیروی کرےگی، ولیم ہیگ نے کہا کہ ممکن ہے کہ شام کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ میں دوبارہ ووٹنگ کی جائے، ذراغ ابلاغ برطانوی وزیر خارجہ کے بیان کو برطانیہ کی چال اورتاخیر قراردے رہے ہیں۔بھارت بھی شام میں غیر ملکی مسلح افراد کی امداد کر رہا ہے، امریکہ و اسرائیل اور سعودیہ کی مدد تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور اس بات کا امریکہ و اسرائیل اور سعودیہ نے خود اقرار بھی کر لیا ہے یعنی سارے کا سارا کفر اور نفاق اب اعلانیہ طور پر اکٹھا ہو گیا ہے شام کے خلاف،تین سال سے جاری شام امریکا جنگ اب ایک ایسے مرحلے میں پہنچ چکی ہے جب امریکا نے تنگ آ کر چہرے سے نقاب الٹنے اور اپنے زمینی دستوں کی فضائی مدد کرنے کا سوچ لیا ہے، مگر اس وقت میدان جنگ اور عالمی سیاست کے حالات کس رخ پر جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ امریکہ نے شام پر حملے کا ارادہ کر لیا ہے اور کانگرس سے منظوری کے بعد اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق رپورٹ سے قطع نظر امریکہ جمہوریت کے فروغ اور امن عامّہ کی حفاظت کے لیے شام پر حملہ کر دے گایعنی ہم جلد ہی امریکہ اور القائدہ دونوں کو شام میں جمہوریت یا خلافت یا شاید دونوں کے لیے بشار الاسد کے خلاف جنگ لڑتے دیکھیں گے، ادھر خادم حرمین شریفین جنگ کی آگ میں تیل ڈالنے کے ساتھ ساتھ غلاف کعبہ پکڑ کے امریکہ یا القائدہ یا پھر دونوں کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں گے۔اس وقت جب کہ امریکہ اقوام متحدہ کے اشارے کا انتظار کرنے پر تیار ہے نہ اقوام متحدہ اس سلسلے میں خاص زوردینے پرآمادہ نظر آرہا ہے، چین اور روس شام کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن ان میں روس سعودی عرب سے تیل کا خواں ہے، افغانستان بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا چاہتا ہے اورپاکستان سر تا پا امریکہ،اسرائیل ور برطانیہ کے پاؤں تلے دبے ہوئے ہیں، ابھی ملک شام پھر پاکستان مکمل طے شدہ پروگرام سے یہودی لابیاں دنیا میں سرم گرم عمل ہیں، ان لابیوں میں پیش پیش دنیا کا سپر پاور کہلانے والا ملک امریکہ ہے جس نے انسانیت کے ساتھ حد درجہ ظلم و بربریت کا بازار گرم کررکھا ہے ،پہلے روس کو کمزور کیا انہیں مسلم ممالک سے لڑاکر کمزور کیا پھر افغانستان، عراق کو تباہ کیا اور اب شام دوسری جانب پاکستان کو مکمل طور پر معاشی و سیاسی سطح پر برباد کرکے کھوکھلا کردیا ہے ۔۔۔سر زمین پاکستان کی طاقت کو کبھی بھارت کے باڈر سے تو کبھی افغانستان کے باڈر سے حملے در حملے کرکے پاکستان کی عسکری قوتوں کا اندازہ لگارہا ہے اور ایک جانب جنوبی وزیر ستان پر ڈرون حملے کرکے نہتے شہروں کو موت کے گھاٹ اتاررہا ہے ۔ معزز قارئین میں بات کررہا تھا ملک شام کی جسے ہمارے بلکہ ہر مسلمان کے معتبر، ہماری جانوں سے زیادہ عزیزترین اللہ کے محبوب حضور اکرم ﷺ نے ملک شام کو پسند فرمایا تھا جس کا مستند احادیث میں ذکر بھی آیا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمةاللہ نے اپنی کتاب سنن الترمذی ت شاکر 5/ 734 (المتوفی279)میں لکھا ہے ۔۔۔صحابی رسول زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے چمڑے کے ٹکڑوں سے قران جمع کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شام کیلئے بھلائی ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے۔ اس لئے کہ رحمن کے فرشتے ان پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیںاور اہل شام میں فساد کے اثرات سے متعلق حدیث ترمذی میںحضرت امام ترمذی رحمةاللہ نے اپنی کتاب سنن الترمذی ت شاکر 4/ 485 (المتوفی279)میں لکھا ہے ۔۔معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب اہل شام میں خرابی پیدا ہوگئی تو تم میں کوئی خیر و بھلائی نہ ہوگی میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کی ہمیشہ مدد و نصرت ہوتی رہے گی اور کسی کا ان کی مدد نہ کرنا انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو ۔لیکن اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اہل شام خراب ہوئے تو پوری دنیا خراب ہوجائے گی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل شام خراب ہوئے تو شام کی افادیت و فضیلت تم سے چھن جائے گی۔ تاریخ میں جس خطے کو ’بلادِ شام‘ کہا جاتا ہے اس کے چار اقلیم ہیں، حالیہ شام، فلسطین، لبنان اور اردن، جوکہ اس وقت چار الگ الگ ملک ہیں۔ خطہ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے اور محدثین نے رسول اللہﷺ سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے لاتعداد مناقب روایت کئے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی اہل علم نے آیات اور مستند احادیث پر مشتمل، سرزمین شام کی فضیلت پر باقاعدہ تصانیف چھوڑی ہیں۔رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا بخاری میں مروی ہے ، (صحیح بخاری حدیث رقم: 990 )۔۔”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما“۔۔مزید برآں کئی احادیث سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ خطہ شام طائفہ ،منصورہ1 کا مسکن بنا رہے گا،حدیث۔(صحیح مسلم حدیث رقم 5067)۔”شام کی جہت والے لوگ بالاتر رہیں گے، حق پر رہتے ہوئے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“یہاں تک کہ آپ ﷺ کا یہ فرما دینا ۔۔(مسند احمد حدیث رقم 15635، عن معاویہ بن قری)2۔۔”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔۔۔ایسے ہی نبوی اخبار و آثار کے پیش نظر صحابہ کی بہت بڑی تعداد خاص شام کو مسکن بنا کر رہی اور شام ومابعد خطوں میں جہاد کرنا صحابہ کو سب سے زیادہ مرغوب تھا۔ مدینہ یا عمومی طور پر جزیرہ عرب کے بعد اگر کوئی خطہ ہے جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ وہاں اصحابِ رسول اللہ کی سب سے بڑی تعداد دفن ہے تو وہ بلاد شام ہی ہے۔ پس یہاں جگہ جگہ انبیاءمدفون ہیں، جوکہ مخلوق میں برگزیدہ ترین ہیں اور یا پھر خاتم المرسلین کے اصحاب جوکہ انبیاءکے بعد برگزیدہ ترین ہیں اور جہاں تک تابعین وما بعد ادوار کے اولیاءوصلحائ، ائمہ وعلمائ، شہداءاور مجاہدین، قائدین اور سلاطین اور عجوبہ روزگار مسلم شخصیات کا تعلق ہے، تو خطہ شام کے حوالے سے وہ تو شمار سے باہر ہے، یوں سمجھئے شام ہمیشہ ہیروں موتیوں سے بھرا رہا ہے!۔کئی ایک نصوص کی رو سے شام ہی ارض محشر ہے۔ ”ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے، کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیاکہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں؟ آپ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز اس (بیت المقدس) میں چار نمازوں سے افضل ہے اور نہایت خوب ہے جائے نماز بیت المقدس بھی، حشر اور نشر کی سر زمین، اور یقینا لوگوں پر ایک وقت آنے والا ہے کہ آدمی کے پاس ایک درّے جتنی جگہ ہونا، یا پھر کہا، ایک کمان جتنی جگہ ہونا، کہ جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے پوری دنیا سے بہتر یا محبوب تر ہوگا“۔۔نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا ، ادھر سے بہت نورپھوٹ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے،پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا“ (صححہ الالبانی فی فضائل الشام ودمشق )”شام وہ زمین ہے جہاں آخری بار جمع کیا جائے گا اور جہاں محشر سجے گا “ (احمد ، وصححہ الا لبانی فی فضائل الشام و صحیح الترغیب)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ”اے اللہ ہمارے مدینہ میں ہمیں برکتیں نصیب کر اور ہمیں ہمارے رائی رائی میں برکتیں نصیب کر! ہمارے مکہ میں ہمیں برکتیں نصیب کر! ہمارے شام میں ہمیں برکتیں نصیب کر!“ (صححہ الالبانی فی فضائل الشام ودمشق)۔حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صل اللہ علیہ وسلم سے کہا ”اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم!آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں رہوں، اگر مجھے پتا ہو کہ آپ
صل اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے، تو میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہیں دوں“ رسول اللہ نے فرمایا ”شام کی طرف جاؤ، شام کی طرف جاؤ ، شام کی طرف جاؤ۔“ پس جب آپ صل اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کہا ”کیا تم جانتے ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ(اس کے بارے میں) کیا فرماتاہے؟“ پھر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کہا ”شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں“ ( ابو داود اور احمد؛ اس کی سند صحیح ہے)سلمہ بن نفیل الکندی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! گھوڑوں کی لگام کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ہتھیار ڈال دئیے گئے ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب جہاد باقی نہیں رہااور قتال ختم ہوگیا ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ جھوٹ بول رہے ہیں!قتال تو ابھی شروع ہوا ہے! میری امت میں ایک گروہ حق کے ساتھ قتال کرتا رہے گا اور اللہ کچھ لوگوں کے دلوں کو پھیر دے گا اور ان کے ذریعے ان (مجاہدین) کو فائدہ پہنچائے گا حتیٰ کہ آخری لمحات آجائیں اور اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے اور گھوڑوں کی پیشانیوں پر قیامت تک کے لئے خیر ہے۔ اور مجھے وحی کی جا رہی ہے کہ میں جلد ہی تم لوگوں سے جدا ہو جاؤں گا اور تم لوگ میرے بعد آپس میں لڑو گے اور ایمان والوں کا گھر شام ہے“ (اس کو نسائی نے روایت کیا اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہاہے)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایمان دائیں جانب ہے اور کفر مشرق (نجد) کی جانب ہے۔ گھوڑوں اور اونٹوں والے لوگوں (عرب کے دیہاتیوں) میں غرور و تکبر پایا جاتا ہے اور مسیح الدجال مشرق سے آئے گا اور وہ مدینہ کی جانب پیش قدمی کرے گا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑوں کے پیچھے تک پہنچ جائے گا پھر فرشتے اسے شام کی طرف بھگا دیں گے اور پھر ادھر اسے ہلاک کر دیا جائے گا“ (اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا اور البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے)ابو امامہ الباھلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے تمہارے سامنے غنیمت اور رزق کو رکھا ہے اور تمہارے پیچھے مدد رکھی ہے“ (اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیااور البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قراردیا ہے)معزیز قارئین میں نے اپنے کالم میں نبی کریم کی احادیث کا ذکر اس لیئے کیا ہے کہ جان لیجئے کہ ملک شام کو مکہ و مدینہ شریف کے بعد افضلیت حاصل ہے جس کی افضلیت خود آخری نبی پاک ﷺ نے فرمادی اس کی افضلیت و اہمیت کون ختم کرسکتا ہے ہاں البتہ ہم گنہگاروں کیلئے کفار و مشرکین کی مخالفت ہی ہمارا عظیم جہاد ہے لیکن افسوس صد افسوس ہماری دینی سیاسی جماعتیں امریکہ یعنی یہودیوں کی حمایت میں اتر آئی ہیں اور اپنے ہی مسلم بھائیوں کی ہلاکت و بربادی کیلئے ساماں پیدا کررہی ہیں ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی احتجاج نظر نہیں آتا اور نہ ہی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے رد عمل دیکھنے میںآیا ہے کیا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں، جواپنے مفادات کی خاطر یہود و نصارا،کافرین و مشرکین کے سامنے چپ سادھ لی ہے اور حیرت ہے پاکستانی قوم پر کہ اپنے آپ کو عشق رسول ﷺ میں سرشار کہنے والے ، ہاتھوں میں تسبیح پکڑ کر اللہ واحد کا ذکر کرنے والے ، سادات پر جان نچاور کرنے والے کیونکر خاموش ہیں ؟؟ کیاان کا ایمان مر گیا ہے یا ایمان سے ہی خالی ہوگئے!!۔

اسرائیل کی ہوشر با فوجی قوت اقوام عالم کے امن کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے،اسرائیل کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار میں جن میں دو سو ایٹم بم بھی شامل ہیں، اسرائیل کی تیز رفتار فوج کی استعداد خطر ناک حد تک زیادہ ہے، اسرائیل محض بہتر گھنٹوں میں سات لاکھ فوج ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کرسکتا ہے، عالم اسلام کے قلب میں ایسی خطر ناک فوج بین الاقوامی امن کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے جہاں کسی وقت بھی ایک خطر ناک جنگ بھڑک سکتی ہے جو تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔آج نہیں تو کل مسلمان ایک بڑی فوجی قوت بننے والے ہیں یہ بات بعید نہیں کہ اسرائیل کی وجہ سے مسلمان بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کرلیںگے انشاءاللہ۔ مسلمان اپنی ایک انچ زمین سے بھی دست بردار ہونے کے نہیں، حالت ضعف میں کبھی مسلمان نچلے نہیں بیٹھے اب جبکہ وہ دن دور نہیں جب مسلمان ایک بڑی قوت ہوں گے اگر اسرائیل کے وجود کو عالم اسلام کے قلب سے ختم نہیں کیا جاتا تو مسلمان اپنی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے عدو کو نکال کر دم لیں گے، اس سے پہلے استعمار کو بھی عالم اسلام سے نکلنا پڑا تھا، استعماری طاقتیں بھی بڑی قوت ہوا کرتی تھیں، ایک خطر ناک بین الاقوامی جنگ سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ عالمی طاقتیں اپنا اثرو نفوذ استعمال کرتے ہوئے صہیونی ریاست کو مسلم اراضی سے بے دخل کردیں، فلسطین میں صہیونی منصوبوں کا ناکام ہوجا نا نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایک واقعاتی حقیقت ہے، صہیونی ریاست کا زوال ایک ربانی فیصلہ ہے،قرآن مجید جس میں باطل کی آمیزش کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تااللہ تعالیٰ یہودی زوال کی بشارت دیتا ہے، اس کے آخری رسول ﷺ جن کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اللہ کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی یہودیوں کے زوال کی بشارت دے کر گئے ہیں، پھر اس دھرتی پر خدا کی ربانی سنتیں اثر انداز ہوتی ہیں، انسانی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہیں کہ ظلم پر کوئی ریاست زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی۔ یوں تو پاکستان میں نجی چینلز اور اخبارات آزادی صحافت کے بلند و بالا نعروں سے تھکتے نہیں مگر آجشام کی صورت حال پر کسی طور نہ پروگرام اور نہ خبر سے تعلق رکھے ہوئے ہیں صرف انہیں باتوں کی جانب کچھ کہ لیتے ہیں جو امریکہ یا ان کے حواری پریس کانفرنس کرکے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس اسلامی تاریخ اور شام کی اہمیت و افضلیت پر کسی چینل نے بھی زبان نہ کھولی ، حقائق کو چھپاکر حقیقی صحافت کیسی، مظلوم پر کیئے ظلم کی پردہ پوشی کیسی، دنیا بھر میں فساد کی آگ جھونکنے والے ممالک امریکہ اور اسرائیل پر خاموشی کیسی کیا مسلم امہ کی میڈیا کفار و مشرکین کی مشترکہ جارحیت کو بے نقاب کرنے میں کمزور اور ناکام کیوں ذرا سوچیئے میڈیا کو بعد از مرگ جواب دینا ہوگا۔معزز قارئین ملک شام پرامریکی اور اس کے حواریوں کے حملے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ممکنات میں سے ہے کہ تیسری عالم جنگ چھڑ جائے اور دنیا میں ایٹمی جنگ کی بناءپر تباہ کاریاں انتہا کو پہنچ جائیں ابھی بھی وقت ہے کہ عالم اسلام کو متحد ہوکر امریکی اور ان کے حواریوں کو جنگ سے باز رکھا جائے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلاکر امریکی جارحیت کو روکا جائے ورنہ نہ عرب ریاستیں بچ سکیں گی اور نہ جنوب مشرقی ایشاءکی مسلم حکومتیں ان کے ساتھ لا متناہی جنگ کا سلسلہ شروع ہوجائیگا جس میں بھارت، چین،کوریہ، جاپان،اور دیگر غیر مسلم ممالک ۔اللہ پاکستان کو بے انتہا مضبوط کردے خاص کر اندرونی خلفشار اور اناکی سے محفوظ بنادے یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم سب ایک مسلمان، ایک قوم بنے گے ورنہ ہماری ہستی و تاریخ ارض سے ہمیشہ کیلئے مٹ جائے گی،اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین ۔٭ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد٭
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.