شاہ زیب خان کی یاد میں

پاکستانی پیسے کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔۔۔ پاکستانیوں کے بارے میں یہ شرمناک الفاظ امریکہ کے ایک اٹارنی جنرل نے ایمل کانسی کیس کے دوران اپنی عدالت میں کہے تھے۔۔ پھر ایمل کانسی کے بعد ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا تو اس میں بھی پاکستانیوں نے امریکی اٹارنی جنرل کے ریمارکس کی توثیق کردی۔ پھر اس بات کی مزید تصدیق اور توثیق ہماری آرمی کے چیف اور سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں کردی کہ ہم نے دس، دس ہزار ڈالر کے عوض سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھ فروحت کیا۔

پھر ایک واقعہ ہوا شاہزیب خان کا جس میں ظالمانہ طریقہ سے ایک بےگناہ کی جان لے لی گئی۔ قاتلوں کا تعلق پاکستان کی اشرافیہ جسے حسن نثار بدمعاشیہ کہتے ہیں سے تھا اس لئے اس بات کا قوی امکان تھا کا ہمیشہ کی طرح انصاف خرید لیا جائے گا۔ لیکن پھر کچھ انہونی ہوئی اور پاکستان کا میڈیا اور دردِ دل رکھنے والے لوگ اس واقعہ پر اٹھ کھڑے ہوئے اور مقتول کو انصاف دلا کر ہی دم لیا۔ لیکن اب بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو کہہ رہے تھے کہ انصاف نہیں ہوگا اور شاید وہی سہی تھے۔ انہی میں خود شاہزیب کے قاتل بھی شامل تھے جو سزا ہونے پر وکٹری کا نشان بنا کر ہمارے معاشرے پر لعنت بھیج رہے تھے۔ یہ سب لوگ سہی ثابت ہوئے۔ آخرِکار شاہزیب کی فیملی نے قاتلوں سے ٢٠ کروڑ لے کر انہیں (اللہ کے نام پر) معاف کر دیا۔ اور اب وہ آسٹریلیا شفٹ ہونے جارہے ہیں۔

شاہزیب کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہم قاتلوں کو اللہ کے نام پر اور اپنی اور شاہزیب کے دوستوں کے خاندانوں کے تحفظ کے لئے ایسا کیا ہے۔ جب کہ شاہزیب کے والد نے میڈیا سے بات کرنا ہی مناسب نہیں سمجھی۔ شاہزیب کے والد وہی ہیں جو کہتے تھے کہ پیسے لینا یہ کنگلے لوگوں کے ذہن کی بات ہے۔ ٹھیک ہے یہ شاہزیب کے والدین کا حق تھا کہ وہ معاف کریں یا سزا دلوائیں۔ لیکن اگر معاف ہی کرنا تھا تو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کیا ضرورت تھی۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کے عدالت کی طرف سے فیصلہ ہونے سے پہلے اچھا ڈیل نہیں مل رہی تھی۔ شاہزیب کے والد کا کہنا تھا کے یہ کیس میں اپنے بچے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے سارے بچوں کے لئے لڑ رہا ہوں کہ انہیں تحفظ کا احساس ہو اور انہیں یہ یقین ہو کہ اگر کبھی ان کے ساتھ ظلم ہوا تو انصاف ہوگا اور ظلم کرنے والا بھی ظلم کرنے سے پہلے سوچے گا کہ میں قانون سے نہیں بچ سکوں گا۔ لیکن افسوس کہ ان سب لوگوں کے ساتھ پھر دھوکہ ہوگیا جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گواہیاں دے رہے تھے، جو سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پہ وہ آٹھ لاکھ لوگ جنہوں نے شاہزیب خان کے پیج کو لائک کیا اور اسے انصاف دلانے کی کوشش کی۔ اور میڈیا جس نے بہت اہم کردار ادا کیا خاص طور پر شاہزیب خانزادہ جنھوں نے اس کیس کی خود پیروی کی اور ایک ایک بات کو اپنے چینل اور پروگرام میں لوگوں کے سامنے رکھا۔

ٹھیک ہے یہ آپ کا حق تھا کے آپ معاف کردیتے لیکن آپ ایک مثال قائم کرسکتے تھے کہ یہاں امیر کو بھی سزا ہو سکتی ہے، آپ بہت سے بچوں کو شاہزیب جیسی موت سے بچا سکتے تھے، آپ لوگوں میں یہ احساس پیدا کر سکتے تھے کہ یہ معاشرہ اتنا بھی بے حس نہیں۔ اب لوگ کسی بھی مظلوم کے لئے اٹھنے سے پہلے اور اس کا ساتھ دینے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ شاہزیب کے دوستوں کے تحفظ کے لئے کیا جب کہ اس کے ایک دوست کا کہنا ہے کے پہلے تو ہم لوگوں کے سامنے سینہ تان کر بات کرتے تھے لیکن اب تو ہم بات بھی نہیں کر سکیں گے۔ دھمکیاں تو آپ کو پہلے بھی ملتی تھی خطرات تو آپ کو پہلے بھی تھے لیکن پورا ملک، عدالت اور میڈیا آپ کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اب بھی ایسا ہی ہوتا لیکن آپ نے تو ڈیل کرنے سے پہلے ان لوگوں سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھی جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر آپ کے کیس کی پیروی کی۔

آپ کہتے ہیں کہ اللہ کہ نام پر معاف کردیا لیکن میرا ایمان یہ کہتا ہے کہ اگر آپ ان کو سزا دلواتے تو شاید آپ زیادہ سرخرو ہوتے کیوں کے آپ کی وجہ سے مزید برائیوں کا رستہ بند ہو جاتا لیکن آپ نے اپنے اس فیصلہ سے ظالموں کے ہاتھ اور مضبوط کیے۔ آج ایک بار پھر اللہ کے دین اور قانون کی غلط تشریح اور اس کا غلط استعمال کیا گیا۔

دلوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ہے سو میں یا کوئی اور نہیں جانتا کے آپ کے دل میں کیا ہے، شاید ہم جذبات میں ہیں اور آپ کا فیصلہ درست لیکن آج بہت سے دل شکستہ ضرور ہیں۔
Muhammad Tahseen
About the Author: Muhammad Tahseen Read More Articles by Muhammad Tahseen: 11 Articles with 11319 views Muhammad Tahseen (MBA, HRM).. View More